• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: جنید احمد

شرکاء:

زبیر موتی والا (سابق چیئرمین، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان)

محمد جاوید بلوانی (صدر، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

ایم بابر خان (مرکزی چیئرمین، پاکستان ہوزری مینوفیکچرر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن)

ٹرمپ کے اقدامات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ٹرمپ کی الیکشن مہم کا جائزہ لینا پڑے گا، ٹرمپ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرکے تاریخ میں اپنا نام بنالیں گے اور آئین میں تبدیلی لاکر کسی طرح برسر اقتدار آجائیں گے، انہوں نے دنیا کی تجارت پر ایٹم بم مار دیا ہے، امریکا میں فروخت ہونے والی60 فیصد اشیا چین سے آتی ہیں، ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا امپورٹر چین ہے، 90 دن کی معطلی کرکے ہمیں سوچنے اور بات چیت کا وقت ملا، پاکستان بھی ٹیرف ریٹ پر بات چیت کا خواہش مند ہے، اگر ٹیرف پر معاملات افہام وتفہیم سے حل نہیں ہوئے تو چین پر اثرات بہت برے پڑیں گے۔ 

ان کا مال ہمارے جیسے ملکوں میں آئے گا پھرہماری مارکیٹ اور انڈسٹری کا کیا ہوگا، ڈبلیو ٹی او کو امریکا نے ایک طرف ڈال دیا ہے، دنیا کو اعتماد میں لیے بغیر ٹیرف بڑھانے کا یک طرفہ فیصلہ غیردانش مندانہ ہے، اگر ٹیرف پر امریکا کی چین کے ساتھ مفاہمت نہیں ہوئی تو پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے، حکومت کا بڑا کلیدی کردار ہے بنتا ہے، پوری وفاقی کابینہ جس میں کامرس، خزانہ، انڈسٹری، پاور، پٹرولیم وزارت خارجہ سب کوالرٹ ہونا پڑے گا، جس طرح ہم نے کوویڈ کے دنوں میں کام کیا تھا ان90 دنوں میں ایسا بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

زبیر موتی والا

وزیراعظم نے انرجی ٹیرف پر بلایا تھا ان سے تفصیلی بات ہوئی ہے، پاک سیکریٹریٹ کو کوویڈ کے زمانے کی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ ملک کا مسئلہ ہے اس لیے ہم نے حکومت کو دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی رابطے کے لیے رائے دی ہے، اب تک یہاں سے کوئی وفد امریکا نہیں گیا ہے جب کہ ساری دنیا حرکت میں آگئی ہے، عوام کے لیے یورپی یونین کی ٹریولر ایڈوائزری آگئ ہے۔

چین نے اپنے جہازوں کے لیے پرزے لینے سے انکار کردیا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ ہم خود بنائیں گے اور دنیاکو فروخت کریں گے۔ ہمارے ساتھ ایک مسئلہ ہے امریکا یورپی یونین سے کہہ رہا ہے کہ جو چین کی طرف گیا وہ میری طرف نہیں آئے، پاکستان دونوں کے درمیان میں ہے، ہم جن حالات کا شکار ہیں ایسے بہت کم ملک ہوں گے، ان حالات میں پاکستان کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ حزب اختلاف سمیت تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ بٹھائے، معیشت کی عالمی جنگ ہے حکومت کو ایمرجنسی ڈیکلئیر کرنا چاہیے، متاثرہ ملکوں کو اپنی یونین بنانے کی ضرورت ہے، وہ ساتھ بیٹھ کر مشترکہ حکمت عملی بنائیں۔

محمد جاوید بلوانی

ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے بعد تمام بائرز اور بڑے اسٹورزشش و پنج پڑ گئے ہیں کہ وہ مال لیں یا نہ لیں، انہوں نے خریداری روک دی ہے ۔90دن کے بعد ٹیرف ریٹ کی صورت حال کیا ہوگی اس کا ابھی اندازہ نہیں ہے ،مال کی قیمت 26 فیصد ٹیرف پر ہوگی یا کسی اور نئی قیمت پریہ کنفیوزنگ صورت حال دنیا کے ساتھ امریکی معیشت کے لیے بھی ہے۔ 

پاکستان بہت چھوٹا شراکت دار ہے امریکا ریلیف دے پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ امریکا کو ایسی چیزوں میں ریلیف دے جس سے پاکستانی معیشت متاثر نہ ہو، ہمارے ایکسپورٹ کے دو بڑے حب یورپ اور امریکا ہیں حکومت اسے محفوظ بنائے۔

حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو ایسی سہولت دے جس کی مدد سے انڈسٹری زیادہ ڈالر کما کر پاکستان لائے، حکومت انرجی کی قیمت کا جائزہ لے، ایف بی آر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ،54 فیصد ایکسپورٹ کراچی سے ہوتی ہے لہذا کراچی کو سازگارساماحول دیں تاکہ ایکسپورٹ برقرار رہے یا مزید اضافہ ہو۔

ایم بابرخان

آج ہمارا جنگ فورم میں موضوع عالمی ٹیرف وار کے اہداف اوراس کے اثرات ہیں۔ امریکا نے "ورلڈ ٹریڈ وار" کا آغاز کر دیا ہے، نئے ٹیرف کوعالمی تجارت پرایٹم بم مارنے سے تشبیہ دی جارہی ہے ،چین اصل ہدف بن رہا ہے، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن تماشائی بن گیا ہے اس کے قوانین پر کس طرح کی خلاف ورزی ہورہی ہے "ٹرمپ اکانومی" کیا رنگ لائے گی؟ 

پاکستان پر کیا اثر ہوگا، دنیا پرکیا اثرات پڑیں گے، یورپ اور چین خاص نشانہ ہیں ،ان کا مستقبل کیا ہوگا، پاکستان کے مقابلے میں کون سے ممالک ہیں، پاکستان کو ٹیرف سے کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے وہ اس سے کس طرح نمٹے۔

پاکستان کے مفاد میں کس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے ،برآمدات بڑھانے کےلیے کس طرح کی کوششوں کی ضرورت ہے، ہماری ایکسپورٹ کو کن مسائل کا سامنا ہے، ٹیرف بڑھنے سے ہماری ایکسپورٹ پر کیا اثر پڑے گا اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ 

 یہ اور اس طرح کے دیگر بنیادی سوالات شرکا سے پوچھیں گے، ہمارے ساتھ موجود ہیں زبیر موتی والا (سابق چیئرمین، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان) محمد جاوید بلوانی (صدر، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) اور ایم بابر خان (مرکزی چیئرمین، پاکستان ہوزری مینوفیکچرر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن) جنگ فورم کی میزبانی کے لیے کراچی چیمبر آف کامرس کے شکرگزار ہیں، اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

جنگ: امریکا ٹیرف ریٹ بڑھا کر کیا چاہتا ہے ؟

زبیرموتی والا: ٹرمپ کے اقدامات کو سمجھنے کےلیے ہمیں ٹرمپ کی الیکشن مہم کا جائزہ لینا پڑے گا، ان کا انتخابی نعرہ کیا تھا انہوں نے امریکیوں سے وعدے کئے تھے۔ ٹرمپ نےووٹ ٹیکسوں کا بوجھ ختم کرنے یا کم کرنے کے وعدے پر لیئے ہیں۔ اب وعدوں پر عمل درآمد کرنا ہے لیکن اس کے لیے آمدنی کے فرق کو بھی ختم کرنا ہوگا، ٹرمپ نے پہلے کہہ دیا تھا کہ میں ملک ٹیرف اور کسٹم ڈیوٹی کی آمدنی سے چلاؤں گا۔

زبیرموتی والا
زبیرموتی والا

یعنی جو مال امریکا آئے گا اس کی ڈیوٹی سے چلاؤں گا اور اس طرح حاصل آمدنی سے امریکی عوام کو ریلیف دوں گا۔ ریلیف کا کام آمدنی بڑھانے کے بعد کرنا چاہتے ہیں، امریکی عوام پر ٹیکس چالیس سے پچاس فیصد سے کم نہیں ہے، بعض جگہ پر60 فیصد بھی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کسٹم ڈیوٹی بڑھا دی جائے تو اس سے وہ چیز مہنگی ہوجائے گی اور اس کے ساتھ اسے ٹیکس میں ریلیف بھی دے دوں، ماضی میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دور میں بھی امریکی معیشت کو بڑے بحران کا سامنا تھا، ریگن انتظامیہ نے حالات سے نمٹنے کے لیے ہر گاڑی کے پیٹرول کی قیمت میں دو سو ڈالر کم کردیئے تھے تاکہ ہر صارف کے دوسو ڈالر بچ جائیں، اگر گاڑیاں دو ہیں تو چارسو ڈالر کی بچت ملے، امریکی خرچ کرنے والے لوگ ہیں، تو جب پٹرول بچت کے دو سو ڈالر بازار میں آئے تومعیشت کو پہیہ چلنا شروع ہوگیا تھا ،اس حکمت عملی کا نام ریگونامسٹ رکھا گیا۔ 

اب امریکا میں جو ہونے جارہا ہے یہ ٹرمپ اکنامکس ہے، جو ریگ نامکس جیسی بالکل بھی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں امریکی نظام انتخاب میں ایک طریقہ غلط ہے ،اگر کسی کو آٹھ سال حکومت ملتی ہے تووہ دوسری مدت کے آخر کے چار سال بعد دوبارہ حکومت میں نہیں آسکتا ۔دوسری ٹرم کے امریکی صدر کو ووٹرز کے پاس نہیں جانا ہے، وہ اپنی آخری مدت میں جو چاہے کرے، ٹرمپ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرکے تاریخ میں اپنا نام بنالیں گے اور آئین میں تبدیلی لاکر کسی طرح دوبارہ برسر اقتدار آجائیں گے۔

اس خواہش کی تکمیل کے لیے نئے ٹیرف نے اعلان پوری دنیا کوہلا دیا ہے انہوں نے دنیا کی تجارت پر ایٹم بم ماردیا ہے ،پاکستان سمیت دنیا کے ان 60 ممالک پر لیویز لگائی ہے جو امریکا کے بڑے ایکسپورٹر ہیں، باقی یا تو بہت چھوٹے ہیں یا ان کی امریکا سے بڑی ٹریڈ نہیں ہے، سب سے زیادہ چین سے ہے ،امریکا میں فروخت ہونے والی60 فیصد اشیا چین سے آتی ہیں، ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا امپورٹر چین ہے، چین پر اس عجیب حملے سےاب وہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، پاکستان کو90 دن کی معطلی کی سہولت مل گئی ہے، اس میں بعض لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ شاید ہمارا ٹیرف ختم ہوگیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے، اس قانون میں لفظ پاز استعمال ہو ا ہے جس سے مراد کچھ اس طرح ہے، ٹی وی میں ایک بٹن پاز کا ہوتا ہے جب ہم اس بٹن کو دباتے ہیں تو پروگرام اسٹاپ ہوجاتا ہے اور چھوڑیں گے تو چلنے والا پروگرام جہاں اسٹاپ ہوا تھا وہیں سے شروع ہوجاتا ہے۔

90 دن کی معطلی کرکے ہمیں سوچنے اور بات چیت کا وقت دیا گیا ہے، ٹرمپ نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ پچاس فیصد لوگوں نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں وہ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں ،پاکستان نے بھی وفد تیار کیا ہے پاکستان بھی ٹیرف ریٹ پر بات چیت کا خواہش مند ہے۔جونمٹنے کا اہم طریقہ ہے لیکن مجھے پاکستان کے حوالے چند خطرات محسوس ہورہے ہیں، پاکستان کی امریکی ایکسپورٹ پر بڑافرق نہیں پڑے گا شایدفائدہ ہوجائے لیکن اگر ٹیرف پرمعاملات افہام وتفہیم سے حل نہیں ہوئے تو چین پر اثرات بہت برے پڑیں گے۔

چین کی پیداوار بہت زیادہ ہے ان کا مال کہاں جائے گا ۔ان کا پھر مال ہمارے جیسے ملکوں میں آئے گا، اور جب یہ ہوگا تو ہماری مارکیٹ اور انڈسٹری کا کیا ہوگا ،چینی مال کسی اور ملک کے ذریعے امریکا پہنچے آج کے حالات میں ممکن نہیں ہے کیوں کہ اب پروڈکشن کے ڈی این اے ٹیسٹ ہوتے ہیں اوریجن سرٹیفیکٹ ہوتا ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چینی مال بذریعہ پاکستان امریکا جائے گا تو بہت مشکل نظر آتا ہے۔ 

ہاں اگر خام مال ہو اوراس کی مینوفیکچرنگ پاکستان میں ہو تو ممکن ہے، ویسے چین یہ کام پہلے ہی شروع کرچکا ہے، وہ بنگلہ دیش میں موجود ہے، ویت نام پر زیادہ ٹیرف ہے لیکن ہمارے پاس نہیں آیا ہے حالانکہ ہم بنگلہ دیش سے کم ٹیرف پر ہیں  بنگلہ دیش 37 پر اور ہم 29 پر ہیں۔

ہمیں ان حالات میں اپنے مقام کا سوچنا پڑے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ امریکا نے غیر حقیقی فیصلہ کرتے ہوئے245 فیصد چین پر ڈیوٹی لگادی ہے ، ڈبلیو ٹی او کو امریکا نے ایک طرف ڈال دیا ہے، دنیا بھر میں کام کرنے والی ہیلتھ آرگنائزیشن کو خط لکھا ہے کہ ہم آپ کو فنڈ کیوں دیں، آپ کس کو فنڈنگ کررہے ہیں اس سے امریکی معیشت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ورلڈ بینک پر بھی ایسا ہی شروع کردیا ہے ،ماحولیات کے پروگرام پر بھی ایسا ہی کرنے جارہے ہیں، کسی بھی فلاحی کام کو نہیں بخش رہے ہیں۔

ٹرمپ 80 سال ان کے نائب صدر40 سال کے ہیں ،ان کی کابینہ کے کچھ اور بھی وزیر جوان اور کم عمرہیں ،امریکا جیسا ملک ان کے ہاتھ میں ہے ۔امریکی سیاست کی صورت حال غیر یقینی اور خراب نظر آرہی ہے ۔اس صورت حال سے پاکستان کو فائدہ ہوتا ہے یا نقصان یہ قبل از وقت ہے ،ہم اندازوں اور مفروضات پر تجزیہ کررہے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ انڈیا کے علاوہ ہمارا ٹیرف سب سے کم ہے تو شاید ہمیں فائدہ ہوجائے۔

یہاں ایک سوال اور بھی ہے آخرامریکی بائیرز پاکستانی مال کی کتنی طلب رکھتے ہیں،وہ کتنے فیصد زیادہ خرید سکتے ہیں، کیا پاکستانی مال بیس فیصد یاچالیس فیصد زیادہ فروخت ہوسکتا ہے، اس کا ٹیکس کی ریلیف کے ساتھ تعلق کیسے بنے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک ٹیکس ریلیف کا اعلان نہیں کیا ہے ۔لیکن ٹرمپ نے ریلیف کا کہا ہے کہ میں کروں گااور وہ جلد کرنے والا ہے۔ ٹرمپ نے تین اپریل کو لبریشن ڈے کا بھی نام دیا ہے، میں سمجھتا ہوں اسے لبریشن ڈے کا نام دینا مناسب نہیں ہے، دنیا کو اعتماد میں لیے بغیر ٹیرف بڑھانے کا یک طرفہ فیصلہ غیردانشمندانہ ہے۔ اگر ٹیرف پرامریکا کی چین کے ساتھ مفاہمت نہیں ہوئی تو پاکستان کو نقصان ہوسکتا ہے۔

اگر چین کے ساتھ امریکا کا 50 فیصد یا اس سے زیادہ ٹیرف پر اتفاق ہوجاتا ہےتو پاکستان کو سہولت مل سکتی ہے۔ لیکن کیا پاکستان کے پاس ایکسپورٹ سرپلس میں ہے جو کہ نہیں ہے ۔جس کی وجہ ہمارے پاس انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے پاس زیادہ مینوفیکچرنگ کی صلاحیت ہی نہیں ہے، ہماری ایک بوتل بنانے کی گنجائش ہے اگر کسی نے تین بوتل کا آرڈر دے بھی دیا تو ہم یہ کام کرہی نہیں سکتے کیوں کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے۔ 

یہاں حکومت کا بڑا کلیدی کردار ہے بنتا ہے، پوری وفاقی کابینہ جس میں کامرس، خزانہ، انڈسٹری، پاور، پٹرولیم وزارت خارجہ ان سب کوالرٹ ہونا پڑے گا ۔ ابھی وہ وقت ہے جو گھس گیا وہ جیت گیا، جو بیٹھا رہے گا اس میں آگے بڑھنے کی سکت نہیں رہے گی کیوں کہ آگے دشواریاں بڑھ جائیں گی۔

پاکستانی انڈسٹری کو تیاری کرنی پڑے گی اگرآرڈر بڑھ جاتے ہیں تو پھر ہم اسے پورا کیسے کریں گے۔ ابھی ٹیرف ریٹ میں90 دن کی معطلی ہے ، یہ وقت پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، میں جنگ فورم کی وساطت سے حکومت پاکستان سے کہتا ہوں کہ جس طرح ہم نے کوویڈ کے دنوں میں کام کیا تھا ان90 دنوں میں ایسا بہت کچھ کرسکتے ہیں، حکومت کو ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنی چاہیے، گیس کے ٹیرف کو مناسب کیا جائے، اس فیصلے کو 90 دنوں میں واپس لینا چاہیے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ مال نکال کر ان کے گھروں میں ڈال دیں، حکومت پاکستان کا کردار بہت اہم ہے حکومت ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے سازگار حالات مہیا کرے۔ وہ انڈسٹری سے معلوم کرے کیسی مدد چاہیے۔

امریکی ٹیرف اعلان کو9 اپریل کو نوے دن کے لئے معطل کیا گیا ہے، آج دس دن گزرگئے ہیں حکومت نے ہم میں سے کسی کو نہیں بلایا ہے۔ تین اپریل کے ٹیرف اعلان کے بعد دومیٹنگز ہوئی تھیں جس میں کہاگیا تھا کہ 26فیصد ٹیرف کے فیصلے پر کیا اور کیسے کام کرنا ہے اور ایک وفد جلد امریکا جائے گا ،لیکن معطلی کے اعلان کے بعد سے بالکل خاموشی ہوگئی ہے ہمیں وقت ضائع کرنے کے بجائےتیاریاں مکمل کرنی چاہیے۔

جنگ: یہ ایک طرح کی جنگ ہے اگر ٹیرف میں اضافہ ہوا یا اگر 50فیصد پر رہتے ہیں تواس کا نقصان صارف کو ہوگا یا امریکا، چین یا پاکستان کی معیشت نشانہ بنے گی؟

زبیر موتی والا: امریکا ٹیرف بڑھا کر اپنی معیشت نہیں چلاسکتا ،سارے ٹیرف یا سارے ٹیکس ختم کردیں یہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن ٹرمپ یہ دونوں چیزیں کرنے جارہے ہیں ،دیکھنا ہے وہ یہ کیسے کریں گے، ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ ٹیرف کی آمدنی سے امریکا چلائیں اورامریکنوں کو ٹیکس میں ریلیف دیں انہیں ٹیکس میں اتنا ریلیف ملے جتنا بوجھ لگ رہا ہے تو ایسا کہیں نہیں ہوتا، اگر ایک عام امریکی دو روٹی کھاتا ہے تو اتنی روٹیاں امریکی ارب پتی بھی کھاتا ہے مگر امیر برانڈڈ کپڑے پہنتا ہے، ان دونوں طبقات میں فرق دس گنا ہوسکتا ہے اور ان کے ٹیکس میں ریلیف کا فرق 90 فیصد زیادہ ہوگا تو کیا ٹرمپ یہ کوشش کررہے ہیں جنہوں نے ان کی مالی معاونت کی اب وہ ان کے گھر بھردیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا نظام کیسے چلے گا۔ 

ٹیکس ایسا ہے جس نے جو خرچ کیا وہ آئے گا ،ٹیرف ایسا ہے جس نے جو امپورٹ کیا وہ اس پر آئے گا، اب جس نے امپورٹ کیا اس نے تو مال کی قیمت بڑھا کرآگے کردیا لیکن ٹیکس میں کیسے ایڈجسٹ ہوگا ۔دونوں صورتوں میں امریکی عوام کا نقصان ہے۔

جنگ: پاکستانی کی امریکا کے لیے زیادہ ایکسپورٹ ٹیکسٹائل کی ہے، ٹیرف کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کس طرح کی تیاری کی ضرورت ہے؟

ایم بابر خان: ٹیرف اعلان کے اثرات بحثیت مجموعی منفی ہے ۔پاکستان کی پانچ اعشاریہ سات ایک ملین ڈالر کی ایکسپورٹ ہے جس میں77 فیصد ٹیکسٹائل ہے، ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے بعد تمام بائرز اور بڑے اسٹورزشش و پنج پڑ گئے ہیں کہ وہ مال لیں یا نہ لیں، انہوں نے خریداری روک دی ہے ۔90دن کے بعد ٹیرف ریٹ کی صورت حال کیا ہوگی اس کا ابھی اندازہ نہیں ہےکیوں کہ مال کی لاگت کا اندازہ نہیں ہورہا اب مال کی قیمت 26 فیصد ٹیرف پر ہوگی یا کسی اور نئی قیمت پر۔ یہ کنفیوزنگ صورت حال دنیا کے ساتھ امریکی معیشت کے لیے بھی ہے۔

ایم بابر خان
ایم بابر خان

میرے دو ملین ڈالر کے آرڈر بھی صورت حال کے واضح ہونے تک بائیر نے روک دیئے ہیں حالانکہ یہ آرڈر پرانے تھے ۔یہ صورت حال سب کے ساتھ ہے۔ اس کی وجہ سے امریکا میں مال کی طلب اور رسد میں خلا پیدا ہوجائے گا یہ پاکستان میں بھی ہوگا، امریکا کو بھی نقصان ہوگا کیوں کہ اگر چین ،انڈیا یا پاکستان یا کسی دوسرے ملک سے امپورٹ کم ہوئی تو مارکیٹ میں مال کا خلا پیدا ہوگا تو خریداری میں بھی فرق آئے گا مجموعی طور پر اس سے امریکی معیشت کو نقصان کا سامنا ہوگا۔

پاکستان ان حالات میں کیسے آگے بڑھ سکتا ہے، پاکستان کا امریکا سے امپورٹ ایکسپورٹ میں دو سے تین ملین ڈالر کا گیپ ہے، ان کی امپورٹ میں ہمارا حصہ بہ مشکل دوفیصد ہے باقی کا98 فیصد مال وہ دنیا سے لے رہا ہے، ہمیں انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے وہ پاکستان پر ٹیرف زیادہ بڑھا بھی دیں گے تو ان کی آمدنی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور ہم خواہش کے باوجود ایکسپورٹ کو دو فیصد سے چارفیصد نہیں کرسکتے، پاکستان بہت چھوٹا شراکت دار ہے امریکا ہمیں ریلیف دے پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ امریکا کو ایسی چیزوں میں ریلیف دے جس سے پاکستانی معیشت متاثر نہ ہو ،ہمارے ایکسپورٹ کے دو بڑے حب یورپ اور امریکا ہیں حکومت اسے محفوظ بنائے۔ٹیرف تو چین انڈیا بنگلہ دیش اور سری لنکا سب پر لگ رہا ہے ،انڈیا کے بعد ٹیرف ریٹ میں ہم سب سے کم ہیں ،لیکن انڈیا کو نقصان یہ ہے ان کی کرنسی مضبوط ہے جب کہ ہمارا روپیہ سستا ہے۔

اس لیے ہم گزارا کرلیتے ہیں، ہمارے لیے یہ بہت اچھا موقع ہے حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو ایسی سہولت دے جس کی مدد سے انڈسٹری زیادہ ڈالر کما کر پاکستان لائے۔ ہماری انڈسٹری کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، حکومت انرجی کی قیمت کا جائزہ لے، ایف بی آر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہےایف بی آر کے موجودہ نظام میں پیسہ نہ سرکاری خزانے میں جاتا ہے اور نہ ٹیکس دینے والا مطمئین ہوتا ہے، ایک اسکیم ایکسپورٹ فیسلیٹیٹ اسکیم چل رہی، حکومت کی بہت سی لابیز اسے ختم کرنا چاہتی ہیں، یہ اسکیم ایکسپورٹ بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے، اس کے ذریعے وہ آئیٹم ایکسپورٹ ہورہے ہیں جو پاکستان پہلے نہیں کرتا تھا، جس فیبرک کا یارن ہمارے پاس نہیں ہوتا تھا، وہ ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کرنے لگےہیں، اس کے خلاف ایک لابی مصروف ہے اگر یہ اسکیم ختم ہوئی تو پاکستان کے لیے بڑا نقصان دہ فیصلہ ہوگا۔

پاکستان کو آگے بڑھانے والی اسکیم لائیں اگر روایتی دقیانوسی سوچ رکھیں گے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیں گے جس میں ایکسپورٹرز، ایسوسی ایشنز اور چیمبرز شامل ہیں، ان کی مشاورت سے مقامی اور انٹرنیشنل پالیسی نہیں بنائیں گے تو بہت بڑا نقصان کریں گے، پاکستان ہمیشہ سے ڈالر کے خسارے میں رہنے والا ملک ہے ،ریمی ٹینسس کے بعد ایکسپورٹ واحد ذریعہ ہے ہمیں ڈالر کی انکم کے لیے انڈسٹری کو موقع دینا چاہیے۔

54 فیصد ایکسپورٹ کراچی سے ہوتی ہے، کراچی ملک کا نصف ایکسپورٹ کررہا ہے لہذا کراچی کو سازگارساماحول دیں تاکہ ایکسپورٹ برقرار رہے یا مزید اضافہ ہو۔ کراچی پاکستان کے انجن کی طرح ہے اگر انجن کمزور ہوگا تو گاڑی نہیں چلے گی۔ حکومت مثبت اور تعمیری رائے دینے والے لوگو ں سے مشاورت کرے۔ صورت حال پاکستان کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے اور نئے مواقع بھی مل سکتے ہیں حکومت کو چاہیے وہ نقصان سے بچے اور موقع کا فائدہ اٹھائے۔

جنگ: ان حالات میں فائدہ اٹھانے والے مواقع کون سے ہیں؟

ایم بابرخان: اگر ہم مناسب لاگت پر پروڈکشن تیار کرلیں تو پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے یا کم از کم برقرار تو رکھ سکتے ہیں، ایکسپورٹ برقرار رکھنے کا مطلب آپ میں صلاحیت ہے، اس لیے کاروبار بھی بڑھ سکتا ہے۔

جنگ: لیکن اگر ہمارے پاس مزید آرڈر تیار کرنے کی استعداد ہی نہیں ہے توایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔

ایم بابر خان: انڈسٹری گروتھ نہ ہونے کی وجہ سے سرپلس کیپسٹی کا نہ ہونے کا مسئلہ ہے، ہمارے پاس دستیاب کیپسٹی میں ہمیشہ مزید دس سے بیس فیصد کیپسٹی موجود ہوتی ہے، بعض مرتبہ ایمپٹی کیپسٹی بھی ہوتی ہے، استعمال نہ ہونے والی کیپسٹی سے مراد ہے۔

جنگ: بجٹ آنے والا ہے؟ کیا حکومت سے کوئی رابطہ ہوا ہے، ایکسپورٹ کے حوالے سے حکومت کوکیا تجویز دی ہے ؟

ایم بابر خان: ہم نے ٹیرف پرتجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکا سے بڑی تعداد میں کاٹن ایکسپورٹ کرتا ہے، پاکستان امریکا سے کہے کہ اب ہم زیادہ تر کاٹن امریکا سے ہی ایکسپورٹ کریں گے، ہم میڈ ان امریکا کا لیبل بھی لگاتے ہیں اگر ہم بیس سے تیس فیصد یہ کاٹن استعمال کررہے ہیں بعض اوقات سوفیصد ان ہی کا کاٹن استعمال کرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی اس کا بینیفٹ نہیں لیا ہے، ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم آپ کی درآمد شدہ کاٹن سے امریکا کے لیے ہی گارمنٹ تیار کررہے ہیں امریکا اس میں ڈیوٹی فری کردے۔

اس کے علاوہ پاکستان کو امریکا سے مزید اشیا امپورٹ کرنا چاہیے اس سے ٹرمپ انتظامیہ خوش ہوسکتی ہے، ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے دنیا کو چت کردیا ہے ۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کشتی کی طرح ٹرمپ کا مزاج بنا ہوا ہے کہ اس نے سامنے والا کو چت کردیا۔

جنگ: ایک زمانے میں ہم کاٹن ایکسپورٹ کرتے تھے اب امپورٹ کرتے ہیں کیاحکومت سے اس موضوع پر بات ہوتی ہے ؟

ایم بابر خان: یہ بہت بڑا موضوع ہے کہ اب تو ہماری کاٹن کی پیداوار آدھی رہ گئی ہے۔

جنگ: کراچی چیمبر آف کامرس شہر کا سب سے بڑا چیمبر ہے اور آپ صدر ہیں، ان حالات میں آپ کا بڑا کردار ہے حکومت کو سب سے پہلے آپ کو بلانا چاہیے تو کیا ایسا ہوا ہے؟

محمد جاوید بلوانی: وزیراعظم نےانرجی ٹیرف پر بلایا تھاان سےتفصیلی بات ہوئی ہےاس دوران وزیرخزانہ ،وزیرتجارت،انڈسٹری کے وزیر، وزیر پٹرولیم، وزیر منصوبہ بندی سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے ہرسے کہا کہ یہ ہورہا ہے حکومت کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے ،ہم نے انہیں بتایا کہ پاک سیکریٹریٹ کو کوویڈ کے زمانے کی طرح کام کرنےکی ضرورت ہے ،ہم نے ہی اس دورمیں حکومت کو سمجھایا تھا کہ اگر آپ اسمارٹ لی کھیلو گے توفائدہ ہوگاورنہ نقصان ہوگا۔

محمد جاوید بلوانی
محمد جاوید بلوانی

ہم نے کوویڈ کے دنوں میں اپنی ایسوسی ایشنز کے دفاتر کھول رکھے تھے ،ہم نے ہی اس دور میں  فیکٹریاں کھلوانے کا آئیڈیا دیا تھا ،ہماری اسلام آباد روزانہ بات ہوتی تھی۔ پاکستان نےکامیابی سے وہ دور گزارا تھا ،اس وقت پاکستان کا 27فیصد ایکسپورٹ بڑھا تھا۔ یہی بات ہم نے پھرحکومت سے کہی ہے کہ ہمیں اسمارٹ ہوکر معاملے سے نمٹنا پڑے گا۔

اگر ابھی تجربے کار اہلیت والے سیکریٹری موجود نہیں ہیں تو تجربہ کار ریٹائرڈ سیکریٹری کو ٹیم کا حصہ بنائیں ان سے مشاورت کریں کیوں کہ یہ ملک کا مسئلہ ہے اس لیے ہم نے حکومت کو دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی رابطے کےلیے رائے دی ہے لیکن پاکستان میں ابھی کسی چیز کی تیاری نہیں ہے، ہمارے یہاں تو بجلی، پانی، گیس سب سے مہنگی ہے اور کم ازکم اجرت بھی سب سے زیادہ ہے۔

ہم بجلی کیپسٹی کی ادائی کرتے ہیں لیکن لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔کراچی 50فیصد سے زائد ایکسپورٹ کرتا ہے، پچاس فیصد سے زائد ٹیکس دیتا ہے لیکن پانی نہیں ملتا ۔لیکن اس کے باوجود سب کو جمع کیا جائے مزید تاخیر کے بغیر سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، ہماری واشنگٹن میں سفیر سے دوبار بات ہوئی ہے میں ان سے مستقل رابطے میں ہوں، وزیراعظم نے جب اسلام آباد طلب کیا توٹیرف کے معاملے پر اس دن صبح اور شام دو مرتبہ میٹنگ کی تھی، پھر اگلے دو دن مستقل میٹنگ کی، لیکن اب تک یہاں سے کوئی وفد امریکا نہیں گیا ہے جب کہ دوسری طرف ساری دنیا حرکت میں آگئی ہے ،عوام کے لیے یورپی یونین کی ٹریولر ایڈوائزری آگئ ہے ۔چین نے اپنے جہازوں کے لیے پرزے لینے سے انکار کردیا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ ہم خود بنائیں گے اور دنیاکو فروخت کریں گے۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن بے کار ہوگیا ہے ۔ جو دنیا سے ٹیرف ختم کروکا کہتا تھا اس کی کہانی ہی ختم ہوگئی ہے۔ اس اسٹیج پر اگر حکومت میٹنگ نہیں کرے گی لوگوں کو نہیں بلائے گی توپھر کیا ہوگا ، لوگوں سے مشاورت ہوگی تو حل نکلے گا۔

ہم نے ایک میٹنگ میں کاٹن اور سویابین امریکا سے لینے کے لیے کہا ہے اس کے علاوہ پٹرول اور آر ایل این جی منگوالیں کیوں کہ آرایل این جی امریکا میں سستی ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ ایک مسئلہ ہے امریکا یورپی یونین سے کہہ رہا ہے کہ جو چین کی طرف گیا وہ میری طرف نہیں آئے، پاکستان تو دونوں کے درمیان میں ہے،ہم جن حالات کا شکار ہیں ایسے بہت کم ملک ہوں گے ۔پاکستان کے لیے امریکا اور چین دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ : ایک ذکر بار بار ہوتا ہے پاکستان کو چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے تو سب کو بیٹھ جانا چاہے؟

محمد جاوید بلوانی: حکومت کو چاہیے کہ وہ حزب اختلاف سمیت تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ اکانومی کی ایمرجنسی ہے معیشت کی عالمی جنگ ہے،حکومت کو ایمرجنسی ڈیکلئیر کرنا چاہیے۔ حکومت کو ورلڈ وار سے نمٹنے کے لیے سب کو ساتھ لے کربیٹھنے کی ضرورت ہے، اجتماعی سوچ کے ساتھ اتفاق رائے سے پروگرام بنانا چاہیے اس کے بغیر کوئی حل نہیں نکل سکتا۔

جنگ: ایکسپورٹر کےلیے کیا کرنا چاہیے آپ نے حکومت کواس حوالے سے تجاویز دی ہیں؟

محمد جاوید بلوانی: دنیا بھر سے ہمارا جو بھی کام ہورہا ہے وہ ڈیٹا سامنے رکھنا چاہیے، کس قیمت پر دنیا سے چیزیں فروخت ہورہی ہیں، امریکا میں کیا ہے اور چین میں کیا ہے۔ ہمیں دنیا کے سارے پیرامیٹرز کو سامنے رکھنے پڑیں گےان سب کی قیمتیں سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کس چیز کو کہا لے جانا ہے، ہمیں باقاعدہ اسٹڈی کرنی پڑے گی۔

ٹرمپ مال دار اور کامیاب بزنس مین ہے وہ الیکشن مہم کے وعدے پورا کرکے دکھا رہا ہے۔ میں نے اسلام آباد میں حکومتی حکام سے کہا تھا کہ سب سے پہلے اپنا وفد امریکا بھیجیں، ٹیرف کا معاملہ ورلڈ وار ہے ایسا نہ ہو ہم کچلے جائیں۔ ایک اور زاویہ سے دیکھیں تو میں سمجھتا ہوں اس جنگ میں غریب ملکوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا مالد ار قوموں کا ہوگا ۔ اصل ضرب ان کے کاروبار کو پڑرہی ہے۔

جنگ: سفارتخا نوں میں متعین کمرشل قونصلرز اس موقع پر کس حد تک مددگار ہوسکتے ہیں ؟

زبیر موتی والا: پچھلے ایک سال میں جو کمرشل قونصلرز متعین ہوئے ہیں اس میں 70فیصد نئے اور انرجیٹک ہیں لیکن حکومتی پالیسی کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتے ،ضروری ہے کمرشل قونصلرز سے کام لیا جائے ان کو مضبوط کیاجائے، امریکا میں جو بڑے پاکستانی امپورٹر ہیں انہیں کمرشل قونصلرز کے ساتھ جوڑا جائے، اس طرح کی ٹیم بنائی جائے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ ہم امپورٹ اور ایکسپورٹ کیسے بڑھاسکتے ہیں، دونوں شعبوں کو دیکھیں گے تو کام آگے بڑھے گا اور ہم امریکا سے اچھے نتائج لے سکتے ہیں ۔متاثرہ ملکوں کو اپنی یونین بنانے کی ضرورت ہے ،وہ ساتھ بیٹھ کرمشترکہ حکمت عملی بنائیں۔

آخری لمحوں میں کام کر نے کی پاکستان کی سب سے بری عادت ہے ۔ٹیرف اعلان کے بعد ہم تیزی سےکام کررہے تھے ، لیکن90 دن کی معطلی کے بعد آرام سے بیٹھ گئے ہیں حالانکہ امریکا نے یہ وقت کام کے لیے دیا ہے۔ حالات سے نمٹنے کے لیے دو حل ہیں، پہلے پاکستان کسی طرح بھی امریکی ایکسپورٹ کو بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ تجارتی خسارےکم ہوجائے اورایسا مشترکہ حکمت عملی بنائے بغیر نہیں ہوسکتا۔

ہمیں امریکی امپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے، جب تک ٹرمپ کو کوئی کامیابی نہیں ملے گی وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اس نے اپنی عوام کو جواب دینا ہے، ا پنی عوام کو اپنی کامیابی کا بتا نا ہے کہ میرے اس اقدام سے کیا کیا فائدہ ہوا ہے۔ ہمیں امریکا سے کاٹن کی امپورٹ بڑھانی چاہے کہ کاٹن کے ریٹ عالمی طور پریکساں ہے، پاکستان سویابین کا بڑا امپورٹر ہے جو ہمیں امریکاسے لینا چاہیے۔ ہمارا امریکا سے پانچ اعشاریہ 46 بلین کا ایکسپورٹ ہے جس میں ٹیکسٹائل 77فیصد ہے۔ سب مل کراور سرجوڑ کر بیٹھیں کیوں کہ امریکا میں اب ساری مارکیٹ کھلے گی اور یہ موقع چانس لینے کا ہے ۔

جنگ : ہمارے ایکسپورٹرزنئی مارکیٹ تلاش کیوں نہیں کرتے ،اس کےلیے کوئی ریسرچ نظرنہیں آتی ؟

ایم بابر خان : ماضی کی عالمی جنگوں میں زیادہ نقصان ان علاقوں کا ہوا تھا جو میدان جنگ بنے ہوئے تھے، یہ اکانومی کی ورلڈ وار ہےجس کا نقصان سب کو ہوگا ، بڑے تو برداشت کی سکت رکھتے ہیں لیکن چھوٹی قومیں زیادہ زخمی ہوسکتی ہیں، اس لیے خدشہ ہے پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے لہذا حکومت کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ،وہ یسے اقدامات کرے کہ اگر ہم نشانہ بھی بنے تو نقصان کم سے کم ہو۔

دنیا میں کنزیومر کی نئی بڑی مارکیٹ کوئی نہیں ہے ،روس میں کاروبار کرنا آسان نہیں ہے وہاں ایل سی کاسسٹم نہیں ہےپھر ہمارے پاس زیاد ہ پروڈکٹ بھی نہیں ہے کیوںکہ ہم ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں، پاکستان انڈسٹری ہمیشہ سروائیول صورت حال میں رہتی ہے کبھی امن و امان تو کبھی بھتہ بازی، بہتر سرمایہ کاری کے لیے ہر طرح کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ریاض اینڈی : آسیان سری لنکا تک پہنچ گیا ہے وہ اس ریجن میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیا پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے ؟

زبیر موتی والا : جب تک ہم آسیان ممالک سے نہیں ملیں گے اورمشترکہ حکمت عملی نہیں بنائیں گے حالات سے نمٹ نہیں سکتے اس ماہ ہماری بھی ملاقات ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کو فوائد ملنے کے امکانات کم ہونے کی وجوہات میں چین بھی ہے جس کی وجہ ہماری چین سے دیرینہ دوستی ہے، ہمارا ان سے سی پیک معاہدہ ہے ۔چین جو امریکا کو ایکسپورٹ کررہا ہے مستقبل میں یہ صورت حال برقرار نہیں رہے گی۔

اگر پاکستان، چین، کمبوڈیا اورویت نام کو ری پلیس کرتا ہے تو ہماری ایکسپورٹ بڑھنے کے امکان بڑھ جائے گا۔ لیکن کیا حکومت نے بھی کوئی حکمت عملی بنائی ہے ،چین میں کیا بنتا ہے اس کے بعد ہم اسے کیسے بنائیں، کیا ہم کپڑا یا تعمیراتی سامان ری پلیس کرسکتے ہیں پہلے ہمیں اس کی تیاری کرنی پڑے گی تب ہی آگے بڑھ سکیں گے۔

جنگ : ہم مارکیٹ کےلیے اپنی کوئی نئی مصنوعات بھی نہیں لارہے ِ ؟

زبیر موتی والا : ہم دو راستوں کے درمیان کھڑے ہیں ایک کامیابی کا ہے اور دوسرا ناکامی کا ،ہمارے لیے دونوں کا پچاس پچاس فیصد کا امکان ہے اس لیے بہت محتاط ہوکر کام کرنا پڑے گا۔ امریکا بہت بڑی مارکیٹ ہے اور ہم صرف اسے تین فیصد فراہم کرتے ہیں اگر ہم اسے چھ فیصد کرلیں تو ہماری ایکسپورٹ ڈبل ہوجائے گی، اگر ایسا ہوا تو ہماری اکانومی مثبت ہوجائے گی۔

جنگ : پاکستانی کرنسی کی قدر سب سے کم ہے اس کا بھی تو فائدہ ہے؟

زبیرموتی والا : ہم کم از کم اجرت یا گیس مہنگی ہونے کا ذکر روپے میں نہیں ڈالر میں بات کرتے ہیں۔

جنگ: پاکستان اپنے مال کا برانڈ کیوں نہیں بناتا ،امریکا میں پاکستانی مصنوعات کسی اور کے نام سے مارکیٹ میں ملتی ہے ؟

محمد جاوید بلوانی: یہ ہمارے لیے ابھی ممکن نہیں ہے ، ہمارا سب سے بڑامسئلہ توانائی کا مہنگاترین ہونا ہے ۔ بنگلہ دیش اور ویت نام دونوں اسٹیچنگ مشین سے کام کرکے کامیاب ہوئے ہیں، ہم غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں، تین مرتبہ ٹیکسٹائل پالیسی بنی آج تک کسی پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے، پچاس فیصد بھی نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ پہلی ٹیکسٹائل پالیسی پر عمل درآمد ہونا شروع ہوا پاکستان کا ایکسپورٹ بڑھ گیا اگر ٹیکسٹائل پالیسی پر عمل ہوتاتو ہماری ٹیکسٹائل ایکسپورٹ چالیس بلین ڈالر کا ہوتا

زبیر موتی والا : بنگلہ دیش کا سارا ایکسپورٹ ہماری وجہ سے ہے ،ہم نے انہیں جگہ دی ہے کیوں کہ بنگلہ دیش ایک ڈالر میں بیچ سکتا ہے ہم نہیں کرسکتے، بنگلہ دیش کےلیے کام کرنے والے سارے لوگ ہمارے ہیں۔

محمد جاوید بلوانی: اگر پاکستانی حکومت ہمارا ٹھیک طریقے سے ساتھ دے تو پاکستانی صنعت، صنعت کار اور ایکسپورٹرزاتنے باصلاحیت ہیں کہ اتنی خراب صورت حال میں بھی ملک کو کھڑا کرسکتے ہیں، پاکستانی ٹریڈ سرپلس کرسکتے ہیں۔

پاکستان کی ایکسپورٹ جب بڑھتی ہے اس کے درمیان کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے ہماری بڑھتی ہوئی ایکسپورٹ واپس پرانے نمبر پر چلی جاتی ہے۔ تین مرتبہ ہماری ایکسپورٹ 15 فیصد سے 22فیصد تک بڑھی اور تینوں مرتبہ واپس چلی گئی، اور جب ایکسپورٹ بڑھنے لگتی ہے ہم آپس میں کہتے ہیں اب کچھ ہونے والا ہے، پاکستان نے عالمی وبا کوویڈ میں فائدہ اٹھایا تھا ،اب عالمی اکانومی کا کوویڈ ہے پاکستان پھر فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے حکومت ہماری دی ہوئی تجاویز پر عمل کرے۔