میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : شعیب احمد
سید شبر زیدی، سابق چیئرمین،فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR)
زبیر طفیل, سابق صدر،فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری(FPCCI)
سردار محمد اشرف خان، اکنامسٹ، بزنس مین،سابق صدر،آزاد جموں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(AJKCCI)
معیشت کی بہتری کے لیے لانگ ٹرم پالیسی اپنانا ہوگی، بجٹ کی کوئی سمت نہیں، اخراجات اور آمدن سب مفروضہ ہے۔
گلا دبا کرپیٹ اور جیب کاٹ کرٹیکس وصول ہوگا اور اس کا 70فیصد سود کی ادائی میں جائے گا، مقامی ڈیفالٹ کا خطرہ ہے، بجٹ کی شکل بدلے گی
سید شبر زیدی
آئی ایم ایف کی کنڈیشنز ماننے سے مڈل اور لوئرمڈل کلاس پس جائے گی، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر کام نہیں ہوا۔
معاشی گروتھ کی پالیسی نہیں اپنائی گئی، ٹیکس نظام میں اصلاحات کی جائے، آٹومیشن سے آمدنی بڑھے گی، ایکسپورٹ اورتعمیراتی شعبہ متاثر ہوگا
عبدالقادر میمن
فائلر نان فائلراصل مسئلہ نہیں، اس سے ٹیکس آمدن نہیں بڑھےگی۔
خواتین کل آبادی کا نصف ہیں اور کاروبار میں صرف ایک فی صد، خواتین کے لیے کاروبار کے لئے ترغیب اور خودانحصاری کی کوئی پالیسی نہیں، بجٹ قوت خرید میں مزید کمی کرے گا
صاحب زادی ماہین خان
جنگ فورم میں آج ہمارا موضوع ہے بجٹ کے بعد معیشت بہتر ہوگی یا بدتر، حکومت بجٹ کے بعد بہتری کی امید کادعوی کررہی ہے، ہماری معیشت کی حالات پہلے ہی خراب تھے، موجودہ بجٹ کے بعد خرابی مزید بڑھے گی۔روزنامہ جنگ نے گزشتہ دنوں ایک مہم چلائی جس کاعنوان تھا آخری موقع, کرڈالو۔ یہ اس لئے کہا گیا، کیوں کہ پاکستان سنگین معاشی خرابیوں سے دوچار ہے،اس مرتبہ ایسے اقدامات کی امید تھی جو ماضی میں نہیں ہوئے۔
کیوں کہ سیاست دانوں اورسیاسی حکومتوں پر مجبوریوں کے الزامات لگتے ہیں ان پر تنقید ہوتی ہے، لیکن اس مرتبہ بجٹ بنانے والے وزیر خزانہ آزاد اور غیر منتخب شخصیت ہیں لہذا ان پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا، اور وہ اہم اقدامات کریں گے۔ لیکن کیا غیرمنتخب وزیر خزانہ کا بجٹ توقعات پوری کرسکا۔ کیا ہم معاشی لحاظ سے درست ٹریک پر گئے، کیا ہماری حکمت عملی درست ہے۔
کیا اس مرتبہ وہ تمام اقدامات کئے گئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے، ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو مزید کم ہوکر آٹھ اعشاریہ سات پر چلاگیا ہے کیا اسے ہم کم ازکم دس فیصد ریشو تک لے جاسکیں گے۔ کیا افراط زر میں کمی کا دعوی درست ہے۔
کیا بجٹ سے مہنگائی میں کمی آئے گی۔مجموعی طور پر جو اقدامات کئے گئے اس کے کیا نتائج نکلیں گے، ایسے بہت سے سوالوں کے جواب کے لیے آج ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں سید شبر زیدی (سابق چیئرمین، ایف بی آر)،عبدالقادر میمن (سرپرست، سابق صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن اور مشیر ایف بی آر) صاحب زادی ماہین خان (بانی صدر، وومن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، کورنگی) اپنی گفتگو کا آغاز شبر زیدی سے کرتے ہیں۔
جنگ: آپ بجٹ سے کتنا خوش ہیں اور کتنا ناراض ہیں؟
سید شبر زیدی: ہم بجٹ کو بہت اہمیت د دیتے ہی حالانکہ یہ صرف ایک سال کا میزانیہ ہوتا ہے، سالانہ بجٹ کسی بھی قوم کے پانچ سے لے کر پچاس سال تک کی منصوبہ بندی کا تسلسل ہوتا ہے، بدقسمتی سےپاکستان نے 1970 کے بعد سے کوئی طویل منصوبہ بندی نہیں کی۔ بجٹ کی خاص بات یہ موجودہ حکومت کا پہلا بجٹ تھا جس میں ہم کسی سمت کی امید کررہے تھے، لیکن اسلام آباد کے حالات کے بعد کوئی سمت دکھانا ان کے بس کی بات نہیں ہے، حکومت دباؤ میں ہے انہیں جلد آئی ایم ایف کا نیا پروگرام سائن کرنا ہے، میں جب چیئرمین ایف بی آر تھا تو مجھے بھی سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا آئی ایم ایف جو بھی ٹیکس وصولی کا ہدف دے گا میں اس پر دستخط کردوں گا کیوں کہ ہمارے پاس دوسری کوئی چوائس نہیں ہے۔
آج بھی یہ ہی ہورہا ہے،انہوں نے13ہزار پرٹیکس وصولی سائن کیا ہے اوپر سے پیٹرول لیوی علیحدہ سے ہے، بجٹ کسی ورکنگ پر نہیں ہے یہ بیلنسنگ اعدادوشمار ہیں۔ آمدنی سے خرچہ نکالے جاتے ہیں یہاں الٹا ہورہا ہے اپنے خرچے نکال کر آمدنی بتائی جارہی ہے۔ میں کئ برس سے پاکستان اکنامک سروے پڑھتا ہوں، پہلا پیراگراف پڑھنے کے بعد مجھے ہر سال یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پہلے غلط تھے اب درست رخ پر چل پڑے ہیں۔
اس مرتبہ بھی ایسا ہی کہا گیا ہے۔جب تک وزیرخزانہ ڈائس پر آکر یہ کہتے رہیں گے پہلے غلط ہورہا تھا ،اب سب ٹھیک ہورہا ہے، یہ کہنے سے حالات نہیں بدلیں گے،جس دن وزیرخزانہ نے ڈائس پر آکر یہ کہا کہ بہت خرابی ہے ہم اسے ٹھیک نہیں کرسکتے اس دن سے صورت حال بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔
بارہ ہزارنوسو ستر بلین میری آمدنی ہے جو طرح طرح کے بے جا دبائو سے جمع کی گئی ہے، اس انڈسٹری کو تباہ کیا کسی دوسری پر غیرضروری بوجھ ڈالا اور بارہ ہزار نوسو ستربلین جمع کرلیے۔ جس میں نوہزار سات سوبلین روپے سود کی مد میں اداکردیے، یعنی ہم سالانہ 130کھرب روپے ٹیکس جمع کررہے ہیں اور97 کھرب سود میں ادا کردیں گے۔
اس طرح کون سا ملک چل سکتا ہے،میں نے ایک سابق گورنراسٹیٹ بینک سےیہ ہی پوچھا کہ کوئی ایسا ملک ہے جس کی ٹیکس وصولی کا70فیصد سود کی مد میں جاتا ہو۔ان کا کہنا تھاکہ ملک نہیں چل سکتا اس ملک کوڈومیسٹک ڈیبٹ کا ڈیفالٹ ہرحال میں کرنا پڑے گا۔
سود تو ویسے ہی حرام ہےاسے بندکردیں،ایک طرف سود فری بینکنگ کا سنتے ہیں اور دوسری طرف پورا کاروبار سود پر چل رہا ہے اور ساری آمدنی سودمیں جارہی ہے۔ڈومیسٹک ڈیبٹ بڑا مسئلہ ہے،ہم الٹے لٹک جائیں اس کے باوجود لوکل کرنسی ڈیفالٹ ہونا یقینی ہے،لوکل کرنسی ڈیفالٹ سے مراد اندورنی قرضوں کا سود ادانہ کرنے کی صلاحیت۔ ہم اپنا پراناقرضہ اور اس کا سود ملاکر قرض لے رہے ہیں، بیرونی قرض کا سود کم ہے، تیرہ ہزار میں سےآٹھ ہزار چارسو اندرونی ہے۔
جنگ: وزیر خزانہ غیرسیاسی اور غیر منتخب ہے اور اوپر سے آیا ہے وہ کیوں ناکام ہورہا ہے؟
شبرزیدی: میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ پہلے240 سے 250 صفحے پر مشتمل بجٹ ہوتا تھا، اس مرتبہ123صفحات ہی ہیں۔ بجٹ میں آئی ایم ایف کے فیگر دئےگئے ہیں، تعلیم پر کتابوں پر ٹیکس، پروفیسرز اور دیگرکا ریبیٹ ختم کردیا گیا، پاکستان میں میڈیکل بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے،تمام میڈیکل ٹیسٹ پر سیلزٹیکس لگادیا گیا ہے، میڈیکل کی مشینوں پر سیلز ٹیکس لگادیا گیا ہے، فلاحی اسپتالوں کا استثنی ختم کردیا گیا ہے، عام آدمی کےلیے میڈیکل میں مشکلات میں مزیداضافہ کردیا گیا ہے، اخباری صنعت ویسے ہی بحران کا شکار ہیں اس کے نیوزپرنٹ پر سیلزٹیکس لگادیا گیا ہے۔
لیکن ان سب پرٹیکس لادنے کے باوجودبہت زیادہ کچھ نہیں آئےگا یہ گناہ بے لذت ہے، یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی خواہش پر کیا گیا ہوگا۔ میں جب چیئرمین ایف بی آر تھا تو اپنے اسٹاف سے کہا کہ بل میں جہاں بھی نان فائلر لکھا ہے اسے نکال دو،نان فائلر سے مراد ایک کریمنل جسے میں سزا نہیں دوں گا بس دو مرتبہ اٹھک بیٹھک لگاو اور جاو،نان فائلر سے مراد نان موشن جون لیگ حکومت کا پسندیدہ سبجیکٹ ہے، یہ نان فائلرز کا بجٹ ہے۔ بڑی مارکیٹوں میں بیٹھے اکثر دکان دار فائلر ہیں سارے سنار فائلر ہیں لیکن کسی ایک کا بھی ٹیکس دیکھیں تو وہ سالانہ دولاکھ سے زیادہ ٹیکس نہیں دیتا، مسئلہ نان فائلر کا نہیں انڈر ڈیکلریشن کا ہے۔
وزارت خزانہ پر ایک طرف سے ن لیگ حکومت کا دبائو کہ ریٹیلر پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے دوسری پیپلزپارٹی کا دبائو ہے کہ زراعت کو نہ چھیڑا جائے آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ بارہ ہزار نوسو ستر پورا کریں تو ان حالات میں وزیرخزانہ کیا کرے، جو بجٹ بارہ جون کو نظر آیا اس میں سے اسی فیصد چیزیں تیس جون واپس ہوجائیں گی۔
جنگ: بجٹ سے کاروباری خواتین اور خاتون خانہ پرکس طرح کےاثرات پڑسکتے ہیں؟
ماہین خان: میں کیوں کہ ویمن چیمبرز کی نمائندگی کررہی ہوں،بجٹ پر مجموعی اثرات اچھےنظر نہیں آرہے، بجٹ سے زیادہ آئی ایم ایف کی بات ہورہی ہے، کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کےلیے ہی اس طرح کا بجٹ بناگیا ہے، میں کوآپریٹ سیکٹر سے بزنس میں آئی ہوں، کاروبار کرنا ہرگزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہے، ہماری جو خواتین کاروبار کررہی ہیں وہ مال دارنہیں ہیں زیادہ تر اسمال انڈسٹریز سے وابستہ ہیں وہ کم منافع پرکام کرتی ہیں، اگر صرف پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ہرشے مہنگی ہوجاتی ہے ایسے میں کام کرنا مشکل ترین ہورہا ہے۔ یہاں دستاویزی معیشت کی بات ہوئی ،تو یہ تاثرعام ہے کہ جب این ٹی این ہوگا تو اس کے بعد مہنگائی کے ساتھ ایف بی آر بھی ماردے گا۔
مجھے آج بھی سب چیزیں صاف ستھری رکھنے کے باوجود ایف بی آرپرانی تاریخوں کا لیٹر جاری کردیتا ہے۔ ایسا ہی لیٹرابھی آیا ہوا ہے ،میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے مشورہ دیا ہے کہ کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔انڈر دی ٹیبل ڈیل کرلیں، دوسری دستاویزی ثبوت مہیا کرنے کے باوجود کسی نئے چکر میں پھنس جائیں گی، ایسے میں دیگر خواتین بزنس مین کو دیکھتی ہوں تو وہ ویسے ہی ڈری ہوئی ہیں۔
بجٹ میں آئی ٹی، ڈیجیٹلائزیشن سیکٹر کو بہت پروموٹ کیا گیا ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کل ڈی ای آئی کا ذکر ہورہا ہے، دنیا بھر میں کہا جارہا ہے کہ جی ڈی پی بڑھانے کے لیےخواتین کو زیادہ سے زیادہ آگے لائیں۔ خواتین آبادی کا پچاس فیصد ہیں لیکن کاروبار میں ان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے، معاشی مشکلات سے یہ ایک فیصد بھی کم ہورہا ہے، اس کے لیے ضروری ہے خواتین کو زیادہ سے زیادہ فیسلیٹیٹ کیا جائے ،کمرشل بینکوں کے پاس جو لون آتے ہیں وہ خواتین بزنس مین تک نہیں پہچتے۔
بجٹ میں خواتین کےلئے کوئی سہولت نظر نہیں آئی ہے۔ بجٹ میں ٹیکس سلیب بنائے گئے اس سے گھریلوخواتین کی پرچیزنگ پاور کم ہوجائے گی۔ مجموعی طور پر خواتین معاشی میدان میں آگے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہی ہیں۔ مڈل کلاس تو ختم ہوگئی ہے۔
جنگ: بجٹ میں مزید ٹیکس سے کچھ سیکٹرز پر کیا اثر آئےگا؟
عبدالقادرمیمن: موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھ کر بنایاگیا ہے، بجٹ سے ہمارا متوسط اور غریب طبقہ بہت متاثر ہوگا۔ نہ زراعت نہ ہول سیل اور ریٹیل جن پر ٹیکس کے لیے کام کی ضرورت تھی اس پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی، گروتھ بڑھانے والے اقدامات نظر نہیں آرہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بجٹ بنانے میں اب کسی اکانومسٹ کو شامل نہیں کیا جاتا، بجٹ میں ایکسپورٹ کو نارمل سیکٹر میں لے آئے ہیں ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم ختم کردی ہیں، اس پالیسی کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ترغیب کی ضرورت ہے۔ایف بی آر کو مزید پاوردے دی گئی ہے۔ پاکستان میں سالانہ ہرسال ایک بڑی تعداد غربت کی سطح سے نیچے جارہے ہیں، وفاقی یاصوبائی حکومت خود تو غریب کےلیے صحت کے لیے کچھ کرنہیں رہی اوپر سے جو رفاحی ادارے غریب کےلیے کررہے ہیں ان سے ٹیکس استثنی ختم کردیا گیا ہے، یہ چیزیں واپس ہونی چاہیے۔
رئیل اسٹیٹ پر کئے گئے سارے اقدامات منفی ہیں،کنسٹرکشن کی لاگت بڑھادی ہے۔ترقی کرتی اکانومی میں رئیل اسٹیٹ اہم کردار اداکرتی ہے۔ کیوں ان سے وابستہ تیس سے چالیس انڈسٹریاں ہیں، ہمیں دستاویزی ہرکام پر مراعات دینے کی ضرورت ہے۔جب تک ہم معیشت کودستاویزی، ڈیجیٹلائزیشن آٹومیشن کرنے میں مراعات نہیں دیں گے پاکستان اسی طرح مشکلات کا شکار رہے گا۔ فائلر نان فائلر کے بعد لیٹ فائلر کا بھی ذکر شروع ہوگیاہے۔لیٹ فائلر سے کیش اکانومی بڑھے گی۔
شبر زیدی: ہم نے بنیادی سوالوں کے جواب غلط لیے ہیں ،ٹیکس کسی سزا یا خوف سے نہیں آئے گا، اس کا بہترین طریقہ یہ ہے جوبھی ٹرانزیشن میں کرتا ہوں وہ کسی طرح ریکارڈ پر آجائے، پھر ٹیکس خود بہ خود آجائے گا۔
اگر پوری کراچی کے کمرشل ایریا جو میکلوروڈ، لارنس روڈ، ماری پورروڈ اور میری ویدر روڈ ہے یہ چارمیل پر پھیلا علاقہ کراچی کا کمرشل ایریا ہے، اس کے اندر پاکستان کی کمیوڈیٹیز کا اسی فیصدکاروبار ہوتا ہے، ملک کا اسی فیصد کاروبار اس علاقے میں ہوتا ہےاگر چار میل کے علاقے میں مکمل طورپر کیمرے لگا دیئے جائیں اس کی لاگت زیادہ سے زیادہ ایک ملین روپے ہوگی،سب معلوم چل جائے گا کون کیا کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔ اگر ہم کرنا چاہیں تو سب ممکن ہے۔
عبدالقادرمیمن: دنیا ٹیکس ٹرانزیشن ریکارڈ کے لیے بہت آگے جاچکی ہے سوئیڈن میں ٹیکس ریٹرن خود بناکر بھیجاجاتا ہے، وہاں سے بتایا جاتا ہےیہ وہ ٹیکس ہے جو بھرنا ہے اور اگر کوئی اعتراض ہے تو دی ہوئی تاریخ تک اعتراض داخل کردیں۔
شرجیل: ٹیکس تجاویز پر کون عمل درآمد کرائے گا؟
سید شبر زیدی: انقلاب سے آئے گا۔
عبدالقادرمیمن: دنیا میں ہمارے جیسی اور کمزور معیشت کے ممالک تھے انہوں نے بدلنے کی کوشش کی اور وہ تبدیل ہوئے جس میں برازیل میکسیکو، ترکیہ وغیرہ شامل ہیں،ترکیہ میں چھوٹا سے چائے والا بھی مشین سے پرچی نکلنے پر پیسے لیتا ہے۔انڈیا میں بھی یہ ہی طریقہ ہے۔
ضیا: بجٹ سے پہلے کئ ماہرین سے تجاویزلی جاتی ہیں کیا اس پر کبھی عمل درآمد ہوتا ہے اگر نہیں توایسی گفتگو کا کیا فائدہ ہے۔
سید شبر زیدی: ہماری تجاویز پر عمل نہیں ہوتا لیکن بہت بڑی برائی کے سامنے رکاوٹ ہیں۔
عبدالقادر میمن: گفتگو مسلسل جاری رہنی چاہیے۔
حسان: ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کیمرے پولیس سے مددلی جائے؟
سید شبر زیدی: انسان کے پاس نفس ہے جو گناہ کی طرف بھی جاسکتاہے مشین کا نفس نہیں ہوتا وہ غلط یا جھوٹ نہیں بولے گی۔
ماہین خان: بجٹ میں ہرشعبے کےلیے کچھ نہ کچھ ذکر کیا گیا ہے، خواتین کو آگے لےجانے کی بات کی جاتی ہے حکومتی خواہش بھی ہے تو خواتین کے لیے اسکیم ان کے کاروبار کےلیے مراعات کا بھی بجٹ میں ذکر کیا جائے جو ہمیں موجودہ بجٹ میں نظر نہیں آیا ہے۔
عبدالقادر میمن: ٹیکس دینے والے کو دنیا بھر میں ایمان دار سمجھاجاتا ہے، جب تک اسے ٹیکس آفیسر اسے چور ثابت نہ کردے تو جو ٹیکس ایمان داری سے دے رہا ہےحکومت کو چاہیے کے اسے اتنی سہولت دے کے وہ گروتھ میں اور بہتر طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکے۔
جنگ: تنخواہ دار طبقہ جو مہنگائی سے بری طرح متاثر ہوا ہے اس کے ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے؟
سید شبرزیدی:حکومت نے ٹیکس لگاتے وقت چھ لاکھ کو بھی تبدیل نہیں کیا اور بلند سلیب کو بھی تبدیل نہیں کیا وہ35 ہی رکھا۔ درمیان والے سلیب جو چھ لاکھ سے لے کر نیچے والے ہیں اس میں اضافہ کردیا گیا حالانکہ اس میں کچھ نہیں آتا دو تین سو ملین روپے تک خزانے میں آجائیں گے، ان کے ساتھ غلط کیا گیا ہے۔