میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : جنید احمد
ڈاکٹر شاہد رسول (چیف ایگزیکٹو آفیسر، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر)
ڈاکٹر صابر میمن (چیف آپریٹنگ آفیسر، شہید محترمہ بےنظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما، کراچی) امین ہاشوانی (سوشل سائنٹسٹ)
جناح اسپتال کا سب سے بڑا مسئلہ اسٹاف کی قلت ہے، ایمرجنسی سہولیات کو مزید بڑھانےکی منصوبہ بندی کررہے ہیں، بجٹ کی کمی کاسامنا نہیں، ایمرجنسی میں روزانہ اٹھارہ سومریض آتے ہیں ۔ شہر کی ضرورت کےلیے ضلعی بنیادوں پرایمرجنسی سینٹر ہوں۔ سب سے بڑی تباہی سیکنڈری لیول کے اسپتال ہیں جو اپنا کردار بالکل ادا نہیں کررہے۔
پرائمری کیئر کا پورا جال بچھایا جائے اس میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی ضرورت پڑے گی، ہر ضلع میں ایسا اسپتال ضرور ہونا چاہیے جہاں تمام چیزیں دستیاب ہوں، ابراہیم حیدری سول اسپتال، ملیر سعود آباد اور کورنگی پانچ اسپتال میں تمام سہولیات اور اسٹاف موجود ہے لیکن کام اچھا نہیں ، مریض صرف جناح میں نہیں بلکہ مختلف اسپتالوں میں روانہ کیا جائے ،جناح کو خود مختار ادارہ بنایاجائے، جناح اسپتال ابتدائی طور پر کچھ اسپتالوں کی ایمرجنسی کو ٹیک اوور کرے اور ضلعی سطح پر سائنسی بنیادوں پرکام کرے۔
ڈاکٹر شاہد رسول
شہر میں سول، جناح یا کوئی اور اسپتال ہو سب کی ایمرجنسی دباؤ میں رہتی ہے، ہماری صحت کی سیکنڈری کئیر لیول کی سروسس انڈر یوٹیلائزڈ ہیں،جو سب سے بڑا المیہ ہے، ہمیں اس وقت اینٹی گریٹڈ ٹراما ایمرجنسی کی ضرورت ہے، ضروری سروسس کی ملازمتوں کی بھرتیوں پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، کراچی میں ابھی لنک روڈ سپرہائی وے اور نیشنل ہائی وے پر تین سو بیڈ کا ٹراما اور ایمرجنسی کئیر کی تیاری ہے عمارت کا اسٹرکچر تیار ہے یہ پورا کمپلیکس ہوگا، وہاں ٹراما اینڈسرجیکل کے ساتھ میڈیکل کی بھی سہولت میسر ہوگی۔
ہمیں کراچی کے بلدیہ ٹاون میں مزید ایک سو بستروں پر مشتمل اسپتال دیا گیا ہے، ہیلتھ میں جتنا زیادہ خود مختاری دیں گے یہ ادارے اتنا اچھا پرفارم کریں گے۔ ہمیں ٹرانسپورٹیشن میں1122 کے ساتھ کورڈی نیشن کی ضرورت ہے، ایدھی، چھیپا ان کی سروس بہترین ہے لیکن انہیں مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرصابر میمن
گلوبل وارمنگ بہت تیزی سے ہورہی ہے،کراچی پاکستان کا بڑا شہر ہے،آبادی اور انفرااسٹرکچر بہت دباو ہے،اس کے اوپر اگر اس طرح کے ڈیزاسٹر آئیں تو سوچیں کیا ہوگا۔ کراچی میں زلزلے کے خدشات کا بھی ذکرکیا جاتا ہے، اگر یہ مسائل ذہن میں رکھیں تو پھر سوچیں کہ ہم ٹائم بم پر بیٹھے ہیں، قوانین موجودہ دور کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے، یہ کوئی کاروبار نہیں ہے، بیورو کریٹک رکاوٹیں، عدالتی اسٹے، بنیادی ضروریات کے معاملات میں اسے ختم ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت سندھ بھرپور مدد کررہی ہے وہ فنڈنگ کررہے ہیں، لیکن مسئلہ فنڈنگ سے بھی حل نہیں ہورہا ہے، ان اداروں کی کارکردگی متاثر نہ ہو اس لئے سسٹم ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو خودمختار کریں، ان سے صرف یہ کہیں ہم پیسے دے رہے ہیں آپ مثبت نتیجہ دیں۔
امین ہاشوانی
آج ہمارا موضوع شہری زندگی کےلیےبنیادی اہمیت کا حامل ہے، آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کراچی میں ایمرجنسی کی سہولتیں اور ضرورتیں کس حد تک میسر ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ہم فورم میں اس بات کا جائزہ لیں گے کسی حادثاتی ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کےلیے شہریوں کو کیا سہولتیں میسر ہیں، اس میں ہم جائے حادثہ سے لےکر ایمبولینس سروس اور علاج تک تمام ضروریات کا جائزہ لیں گے۔
ایمرجنسی صورت حال میں وقت بنیادی اہمیت کاحامل ہوتاہے، جتنا جلد متاثرہ فرد کو فوری طبی امداد ملے گی رسک اتنا ہی کم سے کم ہوگا، دوران علاج ڈاکٹرز کی دستیابی، دوائیں، لیب سہولت، بلڈ بینک سب بنیادی ضرورت کی حامل ہیں، ایمرجنسی میں یہ کس حد تک میسر ہے، دنیا اور پاکستان کے دیگر شہروں کا کراچی سے موازنہ کرکے دیکھیں گے یہ شہر کہاں کھڑا ہے،ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ملکوں میں ایمرجنسی علاج میں کراچی کیا مقام ہے،کمی اور خامیاں کیا ہیں، بہتری کےلیے مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی کی گنجائش کیا ہے،اس میں اضافے کاکیا امکان ہے،اس حوالے سے کیا نئی منصوبہ بندی ہے۔یہ معلوم کرنے کےلیے ہمارے ساتھ موجود ہیں ڈاکٹر شاہد رسول (چیف ایگزیکٹو آفیسر، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر) ڈاکٹر صابر میمن (چیف آپریٹنگ آفیسر، شہید محترمہ بےنظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما، کراچی) اور امین ہاشوانی (سوشل سائنٹسٹ) ہم اپنی گفتگو کا آغاز ڈاکٹر شاہد رسول کرتے ہیں۔
جنگ: ہمیں جے پی ایم سی کے متعلق مریضوں سے بہت سی شکایت سننے کو ملتی ہیں جس میں بروقت داخلہ نہ ہونا،مناسب علاج نہ ہونا،توجہ نہ دینا ایمبولینس سروس کا نہ ہونا، اور سب سے اہم جو لوگ جناح اسپتال سے دور مقیم ہیں انہیں ایمرجنسی علاج کے لیے بھی شہر کے ایک کونے سےاسپتال تک کئی کلومیٹر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، ان تمام مسائل کے حل کے لیے جے پی ایم سی کیا کررہا ہے۔
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال کا سب سے بڑا مسئلہ اسٹاف کی قلت ہے، اسٹاف میں صرف ڈاکٹر کی کمی نہیں ہیں اس میں پیرامیڈیکل اسٹاف اور ہیلتھ کے دیگر معاون بھی شامل ہیں۔ دوہزار بارہ سے دوہزار چوبیس کے اسپتال کا مختصراً صورت حال کچھ یوں ہے۔ دو ہزار بارہ میں جناح اسپتال میں گیارہ سو بیڈز کی گنجائش تھی اور ایچ آر 3400افراد پر مشتمل تھی، دو ہزارچوبیس میں اسٹاف3400 سے کم ہوکر 1400 سے بھی کم ہے،جب کہ بیڈز کی گنجائش 1100سےبڑھ کر 2200ہوگئی ہے۔
دو ہزار بارہ میں جب جناح اسپتال وفاق سے صوبے کو منتقل ہوا تھا اس زمانے میں مختلف او پی ڈیز اور ایمرجنسی میں سات سے آٹھ لاکھ مریض سالانہ آتے تھے، آج 108 بیڈ کی گنجائش والی ایمرجنسی میں اوسطا یومیہ تعداد 1600 سے 1800 ہوگئی ہے، صرف رات میں یومیہ آٹھ سو مریض اسپتال میں آرہے ہیں۔ تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جناح واحد اسپتال ہے جہاں ہرطرح کے مرض کا علاج ہوتا ہے۔
صرف ایک مرض اسٹروک کی بات کی جائے تو اس کے مریضوں کو جناح اسپتال کےعلاوہ کراچی کا کوئی دوسرا اسپتال لینے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔اس طرح کےدباؤ کا ہمیں سامنا ہے۔ ہم ایمرجنسی سہولیات کو مزید بڑھانےکی منصوبہ بندی کررہے ہیں، سامنے ہی فلٹر کلینک ہیں اسے شامل کرنے سے تیس سے چالیس بیڈز کی مزید گنجائش ہوجائے گی۔ لیکن بڑا مسئلہ اسٹاف کی قلت کا درپیش ہے، ہمارے پاس 163افراد کا اسٹاف جو کوویڈ کے دنوں سےکام کررہا تھا، ان کا کنٹریکٹ رواں سال 30جون کو ختم کردیا گیا ہے، اس طرح مزید کمی کا بھی سامنا ہے،اسٹاف کے بغیر اتنے بڑے نظام کو چلانا ناممکن ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے حکومت سندھ نے بہت کچھ کیا ہے اس نے کئی فورم میں مدد کی ہے۔ ہم نے اپنی ریگولر پوسٹوں کو اشتہار دے کر بھرنے کی کوشش کی تھی، جس پرعدالت کا یہ اعتراض ہے اگر جناح اسپتال کی ریگولر اسٹاف کی بھرتی کررہے ہیں تو صرف سندھ ڈومیسائل پر کیوں کررہے ہیں یہ وفاق کے زیر انتظام اسپتال ہے۔ لیکن کیوں کہ حکومت سندھ اسپتال کو فنڈنگ کررہی ہے لہذا اس کی فطری خواہش ہے کہ بھرتی بھی حکومت سندھ کرے۔
یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گا آپ اگر کسی کرائے کےمکان میں رہتے ہیں تو ساری زندگی بھی گزاردیں توکرائے دارمالک نہیں ہوسکتا۔ جناح اسپتال ابھی 25 سال کی لیز پرہی دیا گیا ہے، لہذا ریگولر پوسٹ اگر بھرنی ہے تو پاکستان بھر کے کوٹے کے مطابق ہی ہونی چاہیے تاکہ اس میں کسی کی بھی دل آزاری نہ ہواور 25سال بعد بھی یہ مسئلہ نہ بنے۔
جنگ: اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ تو صوبہ میں ضم ہوگیا ہے؟
شاہد رسول: یہ بات ٹھیک ہے لیکن ہماراMOU ہوگیا ہےجس کےتحت حکومت سندھ نے لیزپریہ اسپتال لے لیا ہے، اگر ہم دو ہزار چار اور پانچ کی منظور شدہ پوسٹوں پر بھرتی کرنے میں حکومت سندھ یہ سوچتی ہے کہ فنڈنگ تو حکومت سندھ سے ہورہی ہے تو بھرتی صرف صوبے سے ہو،جب کہ عدالت وفاقی اسپتال ہونے کے سبب ملک بھر سے تعیناتی کی بات کرتا ہے تویہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ 2100 پوسٹیں ہیں جس میں 800 نرس،400 ٹیکنیشن اور ہیلتھ سپورٹنگ اسٹاف ہے۔
یہ ملازمتیں حکومت سندھ نے رکھی ہیں جس کے لیے اشتہاردیا گیا تھا، جب ہم ہائرنگ کی اسٹیج پر پہنچے تواس پرعدالت میں دو کیس دائر ہوگئے، جس میں وفاقی حکومت سے رکھے گئے ملازمین کاکہنا تھا کہ نئے اسٹا کےآنے سے ہمارے سروس اسٹرکچر پر فرق پڑے گا اور وہ کیس اسی طرح چل رہا ہے۔
عدالت کی خواہش ہے انہیں ریگولر پوسٹ پر لیا جائے، سندھ حکومت کے مطابق اسپتال 25سال کے لیے حکومت سندھ کے پاس آیا ہے اس لئے ریگولر اسٹاف تو رکھا ہی نہیں جاسکتا، موجودہ مالی حالات کو دیکھتے ہوئے خیال یہ ہی ہے کہ اگلے سال سے سندھ حکومت کوئی ریگولر ملازم نہیں رکھے گی۔
بعض ذرائع بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ آخری سال ہے جو حکومت سندھ ریگولر ملازم رکھ رہی ہے آئندہ ممکن نہیں ہے۔میری جنگ فورم کے وساطت سے عدالت سے گزارش ہے کہ اس کیس کا کوئی فیصلہ کریں۔ کیوں کہ اسپتال بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ ہے یہاں روزانہ جانیں بچائی بھی جاتی ہیں اور ضائع ہونے کا اندیشہ بھی رہتا ہے، اسپتال میں وفاقی حکومت کے رکھے گئے ملازم وہ ڈاکٹر ہو یاکسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہوکوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی ترقی بروقت نہیں ہوئی۔
جناح اسپتال سے جو شکایات سننے کو ملتی ہیں اس کی بنیادی وجہ اسٹاف کی قلت ہے اور کمی کی وجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں بجٹ کی کمی کا سامنا نہیں ہے، ہمارے پاس ایمرجنسی میں روزانہ اٹھارہ سو مریض آتے ہیں کسی کوبھی دوائی کےلیے باہر نہیں جانا پڑتا سب اسپتال فراہم کرتا ہے۔
جنگ: سول اسپتال اور ٹراما سینٹر میں ایمرجنسی کی صورت میں کن مسائل کا سامنا ہے؟
ڈاکٹر صابر میمن: شہر میں سول،جناح یا کوئی اور اسپتال ہو سب کی ایمرجنسی دبائو میں رہتی ہے، ہماری صحت کی سیکنڈری کئیر لیول کی سروسس انڈر یوٹیلائزڈ ہیں،جو سب سے بڑا المیہ ہے،بڑے اسپتالوں کی ایمرجنسی پر دباو بھی انڈریوٹی لائنزیشن کی وجہ سے ہے، ہماری ایمرجنسی ٹراما اور سرجیکل سینٹرمیں یومیہ560 کیس قریباً ہر دو منٹ میں کوئی نہ کوئی مریض کسی نہ کسی وجہ سے ایمرجنسی میں آتا ہے، سول اسپتال یومیہ ڈھائی ہزار سے زیادہ مختلف طرح کے میڈیکل ایمرجنسی کیس دیکھتا ہے،جس میں ہیٹ اسٹروک ،ڈائریا وغیرہ شامل ہیں۔
میں ایک چیز کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں بعض اسپتالوں میں بجٹ کا مسئلہ نہیں ہے فیکلٹی،سرجن اسٹاف ساری سہولیات ہیں،اس کے باوجود وہاں سے پین کلریا کوئی فرسٹ ایڈدے کر جناح یا سول ریفر کردیا جاتا ہے، یہ پریکٹس ختم ہونی چاہیے،اس پریکٹس کی وجہ سے دو مسائل کھڑے ہورہے ہیں ایک توٹریٹ منٹ کا ابتدائی ٹائم جو گولڈن ہوتا ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے، ہمیں اس وقت اینٹی گریٹڈ ٹراما ایمرجنسی کی ضرورت ہے، اس طرح بہت سے وسائل کے زیاں کو روکا جاسکتا ہے، ہم نے لاڑکانہ کا سینٹر پائلٹ کیا تھا، یہاں ہم بتاتے ہیں کہ سول اور جناح اسپتال علاج کی مفت سہولت دے رہا ہے لیکن اگر لاڑکانہ کامریض اپنے فیملی اٹینڈنٹ کے ساتھ چار پانچ گھنٹے سفر کرکے بذریعہ ایمبولینس جناح یا ہمارے اسپتال آتا ہے اور وہ ایک مہینہ زیرعلاج رہنے کے بعد واپس جاتا ہے۔
ہم اس علاج پر کلیم کرتے ہیں اس مریض کا مفت علاج ہوا ہے، لیکن پیچھے اس مریض کا گھر بک جاتا ہے،جس کی وجہ سفری یہاں ایک ماہ رہنے کے دیگر اخراجات ہیں۔ ہونا یہ چاہیے میڈیکل سہولت اسے گھر کے دروازے پر ہی ملے، اس سے بہت سے وسائل بچیں گے۔ ہم نے کامیابی سے اپنا پائلٹ پروگرام کیا ہے، لاڑکانہ سے کیس کراچی آنا بہت کم ہوگئے ہیں، سوائے ویسکولر انجری کے،وی سی صاحب سے بات ہوئی ہے ہماری کوشش ہے کہ یہ شعبہ بھی وہیں قائم کردیں۔
سکھر میں بھی ہم کوشش کررہے ہیں تو جو سہولتیں کہیں اور دستیاب نہیں ہم اسے نزدیک قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس طرح کراچی پر بھی دبائو کم ہوجائے گا۔جہاں تک سروسس کی بات ہے کوئی بھی سرجیکل اسپتال جہاں پڑھایابھی جارہا ہو ریسرچ بھی ہورہی ہو وہ مریضوں کے رش کے باوجود بہترین سروسز فراہم کررہے ہیں۔
یہاں بھرتی کے حوالے سے کورٹ اسٹے کی بات ہوئی ہے،ہم سے کورٹ کا اسٹے ختم ہوگیا ہے، ہم پچھلے ایک ماہ سے اسٹاف کی بھرتیاں کررہے ہیں، بغیر ڈاکٹر، ہیلتھ ورکر اور بغیر تھیٹر کے میڈیکل کی سہولت فراہم نہیں ہوسکتی۔ بجٹ ہمیں بھی مل رہا ہے لیکن درمیان میں غیرضروری دشواریاں جیسے کبھی کورٹ کی وجہ سےاسٹاف بھرتی پر پابندی یا کچھ اورمسئلہ آجائے تو رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہیں، میری رائے میں ضروری سروسس کی ملازمتوں کی بھرتیوں پر پابندی نہیں ہونی چاہیے اور جب اسٹاف خالصتاً کنٹریکٹ پر رکھا جارہا ہو۔ ٹراما سینٹر میں بھرتیاں کنٹریکٹ سسٹم پر ہیں، اب اگر یہ بھی پابندی میں شامل کردی جائے تو بہت مشکل ہوجاتی ہے۔
جنگ: سول اسپتال اور ٹراماسینٹر تو خالصتاً سندھ حکومت کے ماتحت ہے وہاں کیوں ملازمتوں پر پابندی لگائی گئی تھی۔
ڈاکٹرصابرمیمن: یہ بڑا کنفیوژن تھا، ایک سے پندرہ گریڈ کے خلاف لوگ کورٹ میں گئے تھے، بعد میں اس میں خود مختار ادارے ،ڈیلی ویجز اورکنٹریکٹ ملازم کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ ہم پارٹی نہیں تھے لیکن عدالت کے احترام میں ہم بھی رک گئے۔ ہمارے آٹھ مہینے بہت مشکلات میں گزرے۔
جنگ: کراچی میں ایمرجنسی علاج کی صورت حال کیسی ہے؟
امین ہاشوانی: میں کراچی میں کوویڈ جیسے بڑی صورت حال کے نتیجے میں علاج کی ایمرجنسی ضروریات پر بات کرنا چاہوں گا۔جیسے کلائمٹ چینج دنیا بھر کا مسئلہ ہے،پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو اس سے متاثر ہیں، گلیشیئر کا زیادہ پگھلنے کا اثر پاکستان پر زیادہ ہے، تو سوچیں آئندہ بیس تیس برسوں میں ہمیں کن حالات کا سامنا ہوسکتا ہے، گلوبل وارمنگ بہت تیزی سے ہورہی ہے، کراچی پاکستان کا بڑا شہر ہے، آبادی اور انفرااسٹرکچرکا اس پر بہت دباو ہے، اس کے اوپر اگر اس طرح کے ڈیزاسٹر آئیں تو سوچیں کیا ہوگا۔
کراچی میں زلزلے کے خدشات کا بھی ذکرکیا جاتا ہے،کراچی سے تین پلیٹ جارہی ہیں، یہاں کی تعمیرات کے معیار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں ،سوال یہ نہیں ہے کہ اگر اور کب، اگر یہ مسائل ذہن میں رکھیں تو پھر سوچیں کہ ہم ٹائم بم پر بیٹھے ہیں،کراچی بہت بڑا شہر ہے اس پر ہرطرح کا دبائو ہے نارمل حالات میں اسے قابو نہیں کرسکتے ،اگر ہنگامی طور پر ایسا کچھ ہوا تو پھر کیسے نمٹیں گے۔
ہمیں یہ نہیں سوچناچاہیے کہ یہ نہیں ہوسکتا ہمیں سوچنا ہےاگر ہوا تو کیا کریں گے۔اس کے تین پہلو ہیں پہلا ۔روک تھام کیسے ہو،ہمارے قوانین فرسودہ ہوچکے ہیں،ہمارے نظام میں بڑے مسائل ہیں، قوانین موجودہ دور کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے، ہمیں صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے یہ کوئی کاروبار نہیں ہے، بیوروکریٹک رکاوٹیں، عدالتی اسٹے، بنیادی ضروریات کے معاملات میں اسے ختم ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت سندھ بھرپورمدد کررہی ہے وہ فنڈنگ کررہے ہیں،لیکن مسئلہ فنڈنگ سے بھی حل نہیں ہورہا ہے،ان اداروں کی کارکردگی متاثر نہ ہو اس لئے سسٹم ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
جنگ: این آئی سی وی ڈی اور جے پی ایم سی کا کیس کیا ایک ہی ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: این آئی سی وی ڈی خودمختار باڈی ہے جب کہ جے پی ایم سی وزارت صحت کے ماتحت ادارہ ہے، ہمیں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا ہو تو اس کےلیے سیکریٹری صاحب کو لکھنا ہوتا ہے وہ فنانس سیکریٹری کو لکھتے ہیں پھر ہم خرچ کرتے ہیں۔
امین ہاشوانی: یہ خرابی سسٹم کی ہے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں خودمختار کریں پھر ان کی کارکردگی کو چیک کریں۔ کیوں کہ ہمارا لیگل سسٹم کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی کیس دائر ہوتا ہے تو وہ دس دس سال چلتا ہے، ان اداروں کواس طرح کی پریکٹس سے نکالیں۔ ان کو خودمختار کریں،ان سے صرف یہ کہیں ہم پیسے دے رہے ہیں آپ مثبت نتیجہ دیں، ان اداروں کو ایس آئی یوٹی کی طرح خودمختار کردیں پھر رزلٹ دیکھیں۔
ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے قوانین بناکر روک تھام کی جائے کراچی میں زلزلے کاجھٹکا آجائے آپ دیکھیں گے کتنی بلڈنگ ہلتی ہیں، بلڈنگ لاز میں سختی کی جائے، لوگوں کو ایمرجنسی حالات سے نمٹنے کا بتایاجائے جاپان میں بہت زلزلے آتے ہیں وہاں بچوں کو ابتداسے ہی پڑھا کر نمٹنے کےلیے تیار کیا جاتا ہے، اس کےلئے سول سوسائٹی کو اپنے ساتھ رکھنا پڑے گا۔
وفاقی صوبائی حکومتوں سول سوسائٹی، نصاب ہرجگہ ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کےلیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر نہیں کریں گے توبڑا نقصان ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد رسول: سول سوسائٹی کی بات ہوئی ہمارا شعبہ گائنی ملک کا مصروف ترین شعبہ ہے یہاں یومیہ سو سے سوا سو بچوں کی پیدائش ہورہی ہے۔ اس شعبے میں ساٹھ سے ستر بیڈز کی گنجائش ہے، ایک بیڈ پر تین تین مریض اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ان بچوں میں اکثر انڈرویٹ بچے بھی ہوتے جنہیں نرسری اور انکوبیٹر کی ضرورت پڑتی ہے، ہم نے پیشنٹ ایڈ فاونڈیشن کی مدد سے نرسری بنائی ہے جس میں دس بچے رکھنے کی گنجائش ہے، تمام چیزوں کو بندوبست پیف کرتی ہیں لیکن نرسری کے لیے ایک سرکٹ جس کی قیمت پندرہ ہزار روپے جسے تبدیل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے یہ خرچہ ہماری ذمہ داری ہے، اب اگر دن میں پندرہ بچے داخل ہوتے ہیں تو آپ روزانہ کی لاگت لگالیں،ان بچوں کے والدین سے یہ کسی کی ساتویں کسی کی آٹھویں اولاد ہے تو حکومت کا یہ ہی کام رہ گیا ہے لوگوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
جنگ: کراچی دو سے ڈھائی کروڑ کا شہر ہے کیا ایک جناح یا ٹراماایمرجنسی ضرورت پورا کررہا ہے اسے ڈسٹرکٹ کی بنیادوں پر قائم نہیں ہونا چاہیے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: شہر کی ضرورت کےلیے ضلعی بنیادوں پرایمرجنسی سینٹر ہوں۔ اس سے پہلے جو سہولت میسر ہے اسے مزید بہتر کیا جائے سول اسپتال کو مزیدوسعت دی جائے اور سہولیات بڑھائی جائیں۔ لیکن سب سے بڑی تباہی وہ سیکنڈری لیول کے اسپتال ہیں جو اپنا کردار بالکل ادانہیں کررہے۔ ہمارے پاس آنے والے یومیہ اٹھارہ سو مریضوں میں سے ایک ہزار وہ ہیں جو سیکنڈری لیول ہیلتھ کئیر سینٹرسے ہی صحت یاب ہوسکتے ہیں۔
جنگ: آخر ایسا کیوں ہے وہ اپنا کام کیوں نہیں کررہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: وہ اپنا کام نہیں کررہے ملیر سعود آباد اسپتال میں ڈیڑھ سوکا اسٹاف ہے لیکن وہاں ڈیڑھ سو مریضوں کا بھی علاج نہیں ہوتا، اگر وہ کام کرتے توعوام وہاں جاتی۔
پرائمری کیئر کا پورا جال بچھایا جائے اس میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی ضرورت پڑے گی سیکنڈری کئیر اپنا کام کرے اور ہر ضلع میں ایسا اسپتال ضرور ہونا چاہیے جہاں تمام چیزیں دستیاب ہوں، پچھلے پندرہ سال میں سوائے ٹراما سینٹر کے کراچی میں کوئی نیا اسپتال نہیں بنا۔جب کہ آبادی تین کروڑ پر پہنچ گئی ہے۔
شوالہ: اگر جناح اور سول اسپتال کو بجٹ کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر مریضوں کو ایڈمیشن سے لے کر دوائی اور دیگر سہولتوں کے حوالے شکایت کیوں ہورہی ہے،انہیں آج بھی معمولی دوائی بازار سے خریدنا پڑرہی ہے؟
ڈاکٹر صابر میمن: یہ مسئلہ مریضوں کے بے پناہ دباو کی وجہ سے ہوتا ہے۔اگر پرائمری کیئر ہیلتھ سینٹر اپنا کام کرلیں تو معمولی کیس کے مریض ہمارے پاس نہیں آئیں گے ہم پر سے پچاس فیصد دباو کم ہوجائے گا جس سےشکایت بھی دور ہوجائے گی۔
کراچی میں ابھی لنک روڈ سپرہائی وے اور نیشنل ہائی وے پر تین سو بیڈ کا ٹراما اور ایمرجنسی کئیر کی تیاری ہے عمارت کا اسٹرکچر تیار ہے یہ پورا کمپلیکس ہوگا، وہاں ٹراما اینڈسرجیکل کے ساتھ میڈیکل کی بھی سہولت میسر ہوگی۔
ہمیں کراچی کے بلدیہ ٹاون میں مزید ایک سو بستروں پر مشتمل اسپتال دیا گیا ہے،بلوچستان سے آنے والا حب ریور روڈ سے آنے والا مریض اور ڈسٹرکٹ ویسٹ کی بڑی آبادی بھی اس سے مستفید ہوسکے گی۔ اس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ مریضوں کےلیے اضافی سہولت بھی میسر ہوجائے گی۔
ڈاکٹر شاہد رسول: کراچی میں حکومت سندھ کے ابراہیم حیدری سول اسپتال،ملیر سعود آباد اور کورنگی پانچ کا اسپتال یہاں تمام سہولیات موجود ہیں اسٹاف موجود ہے لیکن ریکارڈ نکال کرچیک کریں وہاں کام کی صورت حال کیا ہے۔ یہ اگر اپنی ذمہ داری پوری کریں تو ہمارےپاس دباؤ بہت کم ہوجائے گا۔
جنگ: ایمرجنسی میں خون کے بندوبست کا کیا انتظام ہوتا ہے؟
صابرمیمن: بلڈ بینک جناح اسپتال اور ٹراما سینٹر دونوں کے پاس موجود ہے جہاں خون وافر مقدار میں موجود رہتا ہے، پھر فاطمید میں موجود بلڈ ہمارے لیے بیک اپ کے طور پر تیار رہتا ہے۔ہماری خودمختار باڈی ہے، اپنے بجٹ کا خود انتظام کرتے ہیں،جناح اسپتال ،سول اسپتال کابجٹ فکسڈ ہے، ہیلتھ میں جتنا زیادہ خودمختاری دیں گے یہ ادارے اتنا اچھا پرفارم کریں گے۔
ہمیں ٹرانسپورٹیشن میں1122 کے ساتھ کورڈی نیشن کی ضرورت ہے شہر کی بڑی ایمبولینس سروس سے مدد لی جائے کیوں کہ جن مریضوں کو ہم بچا سکتے ہیں ان می سے اسی فیصد بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب مرجاتے ہیں۔ ایمبولینس سروس کو معلوم ہو اسے مریض کوکہاں لے کرجانا ہے اور جہاں وہ جارہی ہے وہاں کے اسٹاف کو معلوم ہو کہ کس نوعیت کا مریض ہے اسے کس چیز کی ضرورت ہے تاکہ وہ تیار رہیں۔
جنگ: شہرمیں اتنی زیادہ نجی این جی اوز کے زیرانتظام ایمبولینس سروس کام کررہی ہیں ان سے رابطہ کیوں نہیں کیا جارہا ان سے مدد لی جاسکتی ہے؟
صابر میمن: ایدھی،چھیپا ان کی سروس بہترین ہے لیکن انہیں مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے،ان کےپاس میڈیکل کا تربیت یافتہ اسٹاف نہیں ہے،1122 نے تربیت یافتہ اسٹاف بھرتی کیا ہے، ایدھی سینٹر کا بھی انسٹی ٹیوٹ ہے وہ بھی تربیت دیتے ہیں لیکن ساری ایمبولینس سروس اس طرح کی نہیں ہیں، مریض کی ہینڈلنگ کرنا بڑا مسئلہ ہے، اگر سروائیکل انجریز،اسپائنل انجریز کے ساتھ ایمبولینس اسٹاف مریض کو اٹھاتے ہیں تو اگر ان کی تربیت نہ ہو تو مریض کا موقع پر ہی نقصان ہوجاتا ہے۔ہمارے پاس آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر شاہد رسول: کچھ برس پہلے بے نظیر بھٹو مرحوم کی آمد پر کارساز پر بم دھماکا ہوا تھا،صرف ایک گھنٹے میں جناح کی ایمرجنسی میں ساڑھے پانچ سو مریض ڈال دئے گئے تھے، یہ انٹیگریشن کا مسئلہ تھا اگراسی وقت کوئی کمیٹی بن جاتی کہ کتنے مریض جناح میں اور کتنے کہیں اور بھیجے جائیں گے کیوں کہ اس کے بعدکئی مریضوں سول اسپتال بھیجا گیا تھا۔
مستقبل میں ناگہانی حالات میں ایمرجنسی کی صورت میں انٹیگریشن نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی کسی بھی وقت ہوسکتی ہے، اس موقع پر انٹی گریشن سسٹم متحرک کردیں ایسی صورت میں مریض کسی ایک اسپتال میں نہ بھیجے جائیں بلکہ مختلف اسپتالوں میں روانہ کیا جائے شہر میں بہت اسپتال ہیں۔
جنگ: ایمرجنسی صورت حال میں پرائیوٹ سیکٹر کو کیوں شامل نہیں کیا جاتا؟
ڈاکٹر شاہد رسول: کراچی بڑا شہر ہے پچھلے دنوں ہیٹ اسٹروک کے موقع پر ہم نے جناح میں 20بیڈ مختص کردیے لیکن اس سے شہر کی ضرورت تو پوری نہیں ہورہی، میں نے رائے دی تھی کہ ہمیں شہر کے تمام اسپتالوں میں دو بیڈ مختص کرنے کے احکامات دینے کی ضرورت ہے۔
جس کی ادائی بعد حکومت سندھ کردے۔کیوں اس طرح کے علاج میں میں کوئی بڑا خرچ نہیں ہے۔ پرائیوٹ اسپتال شہر سے لاکھوں کروڑوں کمارہے ہیں تو اگر وہ تھوڑا سا کبھی پبلک سروس میں خرچ کردیں گے تو ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جنگ: کاروباری برادری کئی اسپتالوں کی امداد کررہی ہے ٹراما سینٹر یا جناح ان سے مدد کیوں نہیں لیتےفنڈنگ کی کوششیں کیوں نہیں کررہے ۔
صابرمیمن: برادری کی بنیاد پر بنائے گئے تمام اسپتال کراچی کےشہریوں کے لیے نعمت سےکم نہیں،اس طرح کے ادارے کسی اور جگہ نظر نہیں آتے۔ ورنہ کراچی کا پبلک سیکٹر اتنا دباؤ برداشت نہیں کرسکتا، کمیونٹی بیس اسپتال پچاس فیصد مریضوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
زاہد فاروق: نئی کراچی ،نارتھ کراچی،اورنگی ٹاون ایک بہت بڑی آبادی رہتی ہے یہاں کا کم آمدنی والا ایمرجنسی میں عباسی شہید اسپتال جاتا ہے، کیا اسے جناح یا ٹراما سیٹر کی طرح اپ گریڈ نہیں کیا جاسکتا، کراچی کے سات ضلع ہیں ان میں اس طرح کے اسپتال کی ضرورت ہے جہاں کسی حادثے یا کسی بیماری کی ایمرجنسی کی صورت میں مکمل ٹریٹمنٹ مل جائے اس پر کام کیوں نہیں ہورہا؟
صابر میمن: عباسی شہید اسپتال ایک زمانے میں بہترین اسپتال تھا،لیکن ابھی بھی وہ اسپتال بہترہوسکتا ہے،ہماری میئر کراچی مرتضی وہاب سے اس سلسلے میں گفتگو ہوئی ہے ہم نے انہیں سفارشات بھی پیش کی ہیں،انہوں نے کچھ اقدامات کئے ہیں، لیکن وہاں بھی جناح اور سول اسپتال کی طرح اسٹاف کی کمی کا مسئلہ ہے، مجھے امید ہے جلد وہاں بہت سے چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔
شہر کے کم آمدنی والے اکثر علاقوں میں سندھ حکومت کے اسپتال موجود ہیں،ہم نے ان اسپتالوں کی کارکردگی بہتر کرنے کےلیے کئی مشورے دیئے ہیں اگر اس پر عمل درآمد ہوجائےتو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان آبادیوں میں قائم اسپتالوں میں اسٹاف موجود ہے،ہرطرح کی کافی حد تک سہولیات موجود ہیں لیکن وہ ٹھیک سے کام نہیں کررہے۔
امین ہاشوانی: ہمارے لئے فنانس مسئلہ نہیں ہے، ہمیں انسٹی ٹیوشن اور سسٹم کی خرابیوں کا سامنا ہے،ان اداروں کو خودمختاری دے کر سسٹم ٹھیک کردیں ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا، حکومت سندھ تنقید کے نشانے پر رہتی ہے لیکن انہوں نے بعض کام بہت اچھے کئے ہیں، ایک پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ،وہ پورا ایک ڈیپارٹمنٹ ہے وہاں پروفیشنل موجود ہیں،وہاں جائیں یہ ایک حل نہیں لیکن اس جانب جانا پڑے گا۔ ڈیجیٹلائزیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔
ڈاکٹر صابر میمن: اداروں کو خودمختار باڈی بنا کر چلایا جائے ،فنڈنگ اتنا بڑا مسئلہ نہیں،صوبے کےاسپتال ہیڈ کے انتظامی پاور کے بغیر نہیں چلائے جا سکتے۔
ڈاکٹر نوشین: سروسز انٹی گریٹڈ ہونی چاہیے اور سیکنڈری لیول ہیلتھ کئیر کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے اگر وہ کام کرنا شروع کردیں تو ان اداروں پر لوڈ بہت کم ہوجائے گا۔
ڈاکٹر عرفان: ایمرجنسی صورت حال میں ایک بڑا مسئلہ نامعلوم مریضوں کا ہوتا ہے ایک نامعلوم دس مریض کے برابر ہوتا ہے۔
ان کو لانے والی این جی اوز کی ایمبولینس سروس اسٹاف دوران ٹریٹمنٹ ایسے مریض کے ساتھ رہے تو اس سے علاج میں بڑی آسانی ہوگی۔
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال کو خود مختار ادارہ بنایاجائے جس طرح این آئی سی وی ڈی اپنی حدود سے نکل کر کام کررہی ہے میری خواہش ہے کہ جناح اسپتال ابتدائی طور پر کچھ اسپتالوں کی ایمرجنسی کو ٹیک اوور کرے اور ضلعی سطح پر سائنسی بنیادوں پرکام کریں۔
پاکستان میں اپنی مثال آپ
حکومت سندھ کے زیرانتظام کراچی کا14منزلہ آرٹ آف اسٹیٹ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما کا شمار ایشیا کے بڑے سینٹرزمیں ہوتا ہے، جب کہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ٹراما سینٹر ہے، ٹراما اور سرجیکل کی اتنی سہولیات وہ بھی ایک چھت کے نیچے پورے پاکستان میں دوسراکوئی سینٹر نہیں ہے۔
صحت کی سہولتوں میں اضافے کے خواہش مند حکومت سندھ کا منصوبہ ہے، پانچ سو بیڈ پر مشتمل یہ مرکز ٹراما اینڈسرجیکل سینٹر کے طور پر کام کررہا ہے، یہاں سرجیکل اسپیشلسٹ کے تمام وارڈ موجود ہیں،جس میں نیورو سرجری, آرتھوپیڈک سرجری,،تھوراسک سرجری، پلاسٹک سرجری، ویسکولر سرجری سے متعلق تمام سروسز دستیاب ہیں، یومیہ یہاں500 سے زیادہ ٹرامٹیک مریض چیک ہوتے ہیں، ہر دومنٹ میں ٹراما مریض آرہا ہوتا ہے، جسے اسٹیٹ آف آرٹ سروسز اور کوالٹی سروس فراہم کی جاتی ہے، جس مریض کو سرجری کی فوری ضرورت ہوتی ہے، اسے سہولت فراہم کی جاتی ہے، مریضوں کے داخلے کے لیے وارڈ کی سہولت بھی ہے، سینٹر میں تمام انویسٹی گیشن، ریڈیولوجیکل ٹیسٹ مکمل مفت اور فوری فراہم کئے جاتےہیں، یہ خدمات پچھلے آٹھ سال سے جاری ہے، اب تک لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کیا جاچکا ہے، حکومت سندھ کے تعاون سے جاری اچھی مفت اور معیاری خدمات کے توسیع منصوبے جاری ہیں۔
یہاں کراچی سمیت پورے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان سے بھی مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔یہ سینٹر علاج کے ساتھ ٹریننگ بھی کررہا ہے، یہاں ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اور نرسنگ اسٹاف کو ٹراما سے متعلق فیلڈ میں تیار کیا جاتا ہے،ٹراما اور سرجیکل مرکز کا سینٹر کالج آف فزیشن اور سرجن کے ساتھ الحاق ہے، سرجیکل کےتمام وارڈ کا پی جی شپ سے الحاق ہے، ڈاکٹر یہاں چار اور پانچ سالہ تربیت لیتے ہیں اور سرجن بننے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، یہاں ایک ریسرچ سینٹر بھی ہے جہاں دنیا کے مختلف ملکوں کی آرگنائزیشن کے ساتھ مختلف موضوعات پر ریسرچ بھی ہوتی رہتی ہے، ہمارے کئی مقالے قومی اور بین الاقوامی جرنل میں شائع ہوچکے ہیں، اس کےلئے پورا نظام قائم ہے۔
یہ ادارہ ڈاؤ یونی ورسٹی سے بھی وابستہ ہے، ہمارے ڈاکٹرز ان کی فیکلٹی کے طور پر جانے جاتے ہیں، ہم نے یہاں ٹراما پر پچھلے سال بھی تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کرائی تھی جس میں ملک اور بیرون ملک سے صف اول کے سرجن نے پری کانفرنس بیس ورکشاپ کرائی تھیں، جس میں سرجیکل میں ہونے والے جدید علاج پر سیشن بھی ہوا تھا،اس کانفرنس کے اختتام پر عوام میں آگاہی کے لیے واک کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ رواں سال یہ کانفرنس ستمبر میں ہوگی۔
ہم ٹراما سینٹر کے بینرتلے سندھ بھر میں اینٹی گریٹڈ سینٹر کی طرف بڑھ رہے ہیں، پورے سندھ میں اس کے سیٹلائٹ سینٹر قائم کئے جائیں گے، پچھلے سال پہلاسیٹلائٹ سینٹر لاڑکانہ میں قائم کیا جاچکا ہے جو کامیابی سے عوام کی خدمت کررہا ہے وہاں یومیہ دوسو سے زیادہ مریض آرہے ہیں،دوسرا سکھر اور اس کے بعد جامشورو میں قائم کیا جائے گا۔
اس کے بعد پورے سندھ میں سول اسپتال کے ساتھ موجود ایمرجنسی کو ٹراما سینٹر سے اینٹی گریٹڈ کیاجائےگا، ایمبولینس سروس کےلیے سندھ حکومت کےایمرجنسی1122 سے منسلک کریں گے، تاکہ مریض بروقت مطلوبہ جگہ پہنچیں اور اسپتال کو بھی پیشگی معلوم ہو کہ مریض کو کس طرح کی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے اور ٹیم وہاں تیار ہو۔