میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : جنید احمد
یوسف نذر (پولی ٹیکل اکنامسٹ)
حارث گزدر (سوشل سائنٹسٹ)
پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران آئی ایم ایف سے کہیں بڑا ہے، دنیا کے چند ممالک بحران کی صورت میں آئی ایم ایف کے پاس گئے لیکن پھر دوبارہ نہیں گئے، کچھ ہم جیسے ہیں جو ہرتین سال بعد آئی ایم ایف کے دروازے پرجاتے ہیں، اس کی وجوہ بڑی پیچیدہ ہیں، اکنامکس کسی ماڈل کا نام نہیں یہ حکومت اور عوام کا رویہ ہے کہ وہ کیسے چلتے ہیں اسی کے نتائج سامنے ہوتے ہیں، چین نے ترقی کی تو انہوں نے کسی مغربی یونی ورسٹی یا ماڈل سےرجوع نہیں کیا، جنوبی کوریا جسے ترقی کی بڑی مثال قرار دیا جاتا ہے ان کے لیڈر تو فوجی جنرل تھے، جن ملکوں نے ترقی کی وہاں پہلا کام لوگوں کو تعلیم دینا تھا۔
اگر لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے تومیرا نہیں خیال کہ پاکستان کی ایکسپورٹ کبھی انڈیا یا کوریا کے برابر ہوسکے گی، پاکستان کا بڑا مسئلہ جمہوریت ہے نہ آمریت نہ نواز شریف ، بلاول بھٹو اورنہ ہی عمران خان، سب سے بڑا مسئلہ معیاری تعلیم ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے، ہمیں قومی مباحثے کی سمت میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ریاست کے موجودہ یا ماضی کے کرتا دھرتا کوتاہ نظر ہیں وہ فوری فائدہ دیکھتے ہیں۔
ہماری اشرافیہ سمجھتی ہے کہ فلاں ٹیکس کے کم ہونے سے ہمیں یہ فائدہ ہوجائے گا ،وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اگر ملک بھر میں بجلی سستی ہوجائے تو اس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا، لاگت کم ہونے سے ایکسپورٹ بڑھے گی اور اس سے ہماری روپے کی قدر مستحکم ہوگی، پاکستان کو اپنی صنعتی پیداوار پاوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے اور برآمدات کی صلاحیت بڑھانی ہوگی۔
یوسف نذر
آج کی جام معیشت میں سب سے بھاری گزشتہ قرضوں کا بوجھ ہے جو ناقابل برداشت ہے اس نے پاکستانی معیشت کو جکڑ لیا ہے اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، ہم نے اب اپنی معیشت کو سویلائیزکرنا ہے، اس سے نکلنے کےلیے ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی معیشت استحکام کی طرف جارہی ہے، افراط زر اور شرح سود میں کمی ہورہی ہے، روپیہ مستحکم ہورہا ہے، اس کے بعد کیا ہوگا اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، بجلی کے بل میں اضافہ ہوا، پٹرول مہنگا ہوا لوگوں پرمنفی معاشی اثرات پڑے ہیں، سول حکومت، ملٹری یا آئی ایم ایف جو نظام چلارہے ہیں انہیں معاشی پالیسی کے خلاف کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔
حزب اختلاف اپنے مسائل میں ہی الجھے ہیں ان کی سیاست کا محورصرف ایک شخصیت ہے، جب کہ ان کے پاس نادر موقع تھا وہ اس پرکوئی سیاست کرتے لیکن انہوں نے یہ موقع ضائع کردیا، مجموعی طور پرپاکستان ایک غریب ملک ہے۔
پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ اسلام آباد اور لاہور آمدن نہ رکھنے کے باوجود کراچی سے بہتر ہیں، وہ سرمایہ کہاں سے آیا اور اس میں لگائے ہوئے سرمائے کی معاشی افادیت ہے بھی یا نہیں، جو بڑے بڑے پراجیکٹ اسی نوے کی دہائی میں بنے اور ابھی بھی بن رہے ہیں یہ سفید ہاتھی ہیں، اس سے ترقی آگئی لیکن یہ اندر سے کھوکھلے ہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے
حارث گزدر
پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال بڑے شہر کے اس مصروف چوراہے کی مانند ہے جسے جلد آگے نکلنے والی بے ترتیب غیرمنظم چلنے والی گاڑیوں نے بری طرح جام کردیا ہے اور پورا ٹریفک پھنس چکا ہے، سب تکلیف میں آچکے ہیں ، پاکستان سیاسی ، معاشی ، سماجی ، توانائی سمیت دیگر بحرانوں کے سبب الجھا ہوا ہے۔
ان سے کیسے نکلیں گے اور آگے کی جانب سفر کیسے کیا جائے ، ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا آج کا موضوع ہے پاکستان ۔۔۔۔۔ آگے کا راستہ کیا ہے۔ جس میں ہمارے ساتھ یوسف نذر (پولی ٹیکل اکنامسٹ) اور حارث گزدر (سوشل سائنٹسٹ) شریک گفتگو ہیں۔ اس موقع پر انڈس یونی ورسٹی کے چانسلر خالد امین کو بھی خوش آمدید کہتے ہیں ، فورم کا آغاز حارث گزدر سے کریں گے۔
جنگ: پاکستان مجموعی طور پر سیاسی اور معاشی طور پر ڈوبا ہوا ہے، اس سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
حارث گزدر: پاکستان کی موجودہ صورت حال واقعی ایک ٹریفک جام چوراہا صورت حال کی طرح ہے ، چوراہے سے سب کو گزرنا پڑتا ہے بعض اوقات جب لوگ ٹریفک رولز نظرانداز کرکے وہاں سے جلد نکلنے کی انفرادی کوشش کرتے ہیں توٹریفک جام ہوجاتا ہے، جسے معمول پر لانے کےلیے ٹریفک پولیس کوشش کرتی ہے وہ کبھی ایک لائن کو نکلنے کے لیے دوسرے کو روکتے ہیں اور کبھی پہلے کو نکلنے کا راستہ دیتے ہیں جس میں کافی وقت خرچ ہوتا ہے لیکن کچھ دیر میں صورت حال معمول پر آجاتی ہے۔
پاکستان کی معیشت جس مقام پر کھڑی ہے ہر کچھ عرصے بعد اسے ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے اس مرتبہ کچھ خاص وجوہات کی بنا پر زیادہ محسوس کررہے ہیں ، 80 کی دہائی ہمارا زمانہ طالب علمی ہے میں اکنامکس پڑھ رہا تھا ، اس زمانے میں ڈیٹا جمع کرتے ہوئے ہم دیکھتے تھے کہ ہمارے بجٹ کا زیادہ حصہ کہاں خرچ ہوتا ہے، موازنہ کیا جاتا تھا ڈیبٹ سروسز میں کتنا رکھا گیا ہے یعنی بجٹ کا کتنا حصہ قرضوں اور اس کے سود کی ادائی میں خرچ ہوگا اوردفاعی اخراجات کتنا مختص ہے،80 کی دہائی میں قرضوں کی ادائی اور دفاعی اخراجات برابر تھے، اس وقت یہ رقم بھی بہت زیادہ سمجھی جاتی تھی۔
لیکن آج صورت حال بہت مختلف ہے ہمارے اخراجات میں دفاع کے مقابلے میں قرضوں کی واپس ادائی میں پانچ گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔ آپ کی جام معیشت میں سب سے بھاری گزشتہ قرضوں کا بوجھ ہے جو ناقابل برداشت ہے اس نے پاکستانی معیشت کو جکڑ لیا ہے اور اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، صرف ایک ہی راستہ ہے جو پسند آئے یا نہ آئے آپ نے اپنی معیشت کو سویلائیز کرنا ہے ، اپنی منزل پر کیسے پہنچیں گے اور وہاں کیا کرنا چاہتے ہیں وہ مستقبل کی بات ہے ،آج سب سے پہلے معیشت کے ٹریفک جام سے نکلنا ہے۔
جس سے نکلنے کےلیے ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے ۔ آئی ایم ایف یہی کررہا ہے وہ صورت حال معمول پر لانے کےلیے کبھی ایک کو رکنے کی ہدایت کررہا ہے کبھی دوسرے کو نکلنے کا راستہ دے رہا ہے ۔ اس طرح معیشت کے ٹریفک جام سے ہم نکل جائیں گے اس میں کوئی اہم بات نہیں ہے ، آئی ایم ایف کی اہم ہدایتوں میں اخراجات کم کرنا، ٹیکس بڑھانے کی ہدایت کرنا ، سرکلر ڈیبٹ ختم کرنے کا کہا جاتا ہے، بجلی اور دیگر اشیا پر دی جانے والی سبسڈی ختم کریں، اپنے غیرملکی زرمبادلہ کو عالمی منڈی کے ساتھ جوڑیں ، مصنوعی اقدامات سے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مداخلت نہ کریں کیوں کہ آخر میں روپے کی قدر وہی ہوگی جو اصل میں ہے۔
آئی ایم ایف کے ان اقدامات سے بہت سے لوگ جو سبسڈی سے مستفید ہوتے ہیں ان لوگوں کی جیبوں پر فرق پڑتا ہے انہیں نقصان ہوتا ہے ، سبسڈیز دینا ٹھیک تھا یا نہیں یہ الگ بات ہے ۔ جس طرح ٹریفک جام ختم کرنے کےلیے پولیس کو مداخلت کرنی پڑتی ہے اور پھر ٹریفک نارمل رواں دواں ہوجاتا ہے آئی ایم ایف بھی یہی کررہا ہے ۔ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کوصورت حال معمول پر لانے کے لیے ان مشکلات کا بار بار کیوں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور کیوں آئی ایم ایف جانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت جتنی اہم قوتیں جس میں سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی ، ملٹری اور جوڈیشری اور سرمایہ دار تمام اسٹیک ہولڈرز اس پرمتفق ہیں کہ ٹریفک پولیس کے احکامات پرعمل کرکے ٹریفک جام سے نکلنا ہے لیکن موجودہ سیاسی کشمکش میں کچھ چیزیں نظر نہیں آرہی ۔ سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہیں یہاں سے بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے ، لیکن جب تک لوگ پوچھیں گے نہیں جواب نہیں ملے گا اور وہ چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔
ملک میں بہت زیادہ سیاسی کشمکش جاری ہے جس میں لوگوں نے سخت پوزیشن لے رکھیں ہیں، اب اس میں پوچھنا یہ ہے کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جو ایک صوبے کی حکمران بھی ہے کیا وہ ٹریفک پولیس کی ہدایت کے علاوہ مزید بہتری کے لیے کچھ کررہی ہے تو وہ ایسا کچھ نہیں کررہی، جیسا کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ اس نے پاکستان سے کہا ہے تمام صوبے کچھ سرپلس جنریٹ کرکے وفاق کو دیں اگر حزب اختلاف یہ شرط تسلیم کرنے سے انکار کرتی وہ یہ کام اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے کرسکتے تھے لیکن حزب اختلاف نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس بنیادی فارمولے پراندرون خانہ سب متفق ہیں لیکن صرف دنیا کو دکھانے کے لیے وہ مختلف سوچ کا اظہار کررہے ہیں۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ جب یہ ہوجائے گا جیسا کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی طرف جارہی ہے ،افراط زر اور شرح سود میں کمی ہورہی ہے ، روپیہ مستحکم ہورہا ہے ،اس کے بعد کیا ہوگا اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔
جنگ : ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ہماری معیشت پر اس کے کتنے اثرات پڑتے ہیں ؟
حارث گزدر : اس پر مختلف آرا ہیں ایک کے مطابق جن لوگوں پر اثر پڑے گا جیسا کہ بہت سے لوگوں پر پڑ چکا ہے ، بجلی کے بل میں اضافہ ہوا، پٹرول مہنگا ہوا لوگوں پرمنفی معاشی اثرات پڑے ہیں تواس کے سیاسی اثرات تو ہونے تھے ، پنجاب اور کے پی کے میں حزب اختلاف کی مقبولیت کی بڑی وجہ وہاں کی عوام کا یہ سمجھنا ہے کہ موجودہ دور میں معاشی استحکام نہیں آرہا ہے، حکومت کے پاس ایک طریقہ تو یہ تھا جب تک آئی ایم ایف اپنا کام مکمل نہیں کرتی حزب اختلاف کو منائیں۔
دوسری سوچ کے مطابق جو چیزیں ہورہی ہیں اس سے عوام کو بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی ہوگی اس میں بہت سے لوگ سیاسی طور پر اہم بھی ہیں، حزب اختلاف کی سیاست نے تمام توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی ہے، سول حکومت ، ملٹری یا آئی ایم ایف جو نظام چلارہے ہیں انہیں معاشی پالیسی کے خلاف کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہے، حزب اختلاف چاہنے نہ چاہنے پر بھی ان ایشوز پر خاص ردعمل نہیں دے سکی ہے۔
شاید وہ اپنے مسائل میں ہی بہت الجھے ہیں ان کی سیاست کا محور صرف ایک شخصیت ہے، حزب اختلاف کے پاس نادر موقع تھا وہ اس پر کوئی سیاست کرتے لیکن انہوں نے یہ موقع ضائع کردیا ہے۔
جنگ : حزب اختلاف نے اوور سیز پاکستانیوں سے ریمی ٹینس نہ بھیجنے کی اپیل تو کی ہے۔
حارث گزدر : یہ غیرسنجیدہ بات ہے اوور سیز پاکستانی ریمی ٹینس اسٹیٹ بینک کو خوش کرنے کےلیے نہیں بھیجتے وہ اپنے گھروں میں بھیجتے ہیں۔سنجیدگی تو یہ تھی وہ یہ کہتے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے فارمولے پر نہیں چلنا خیبرپختون خوا حکومت کو اس معاملے پر تعاون کرنے سے منع کردیتے ، لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے۔ موجودہ سیاسی کشمکش میں اہم پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا وغیرہ میں ہمیں بہت کچھ ہوتا نظر آرہا ہے لیکن عملاً کوئی سنجیدہ کام نہیں ہورہا ہے۔
جنگ: سیاسی انتشار کے اثرات ہرجگہ پڑ رہے ہیں حتی کہ انٹرنیٹ جو آج ترقی کازینہ ہے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو بھی بندش کا سامنا ہے ان حالات سے کیسے نکلیں گے؟
یوسف نذر: یہ بڑا اہم اور مشکل سوال ہے کیوں کہ یہاں ہرشخص جماعت اور لیڈر یہ کہتا ہے ہمارے پاس یہ پروگرام ہے اور اس کا جواب اپنے مشاہدے اور تناظر میں دیتا ہے۔ میں کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم ہوں اسی کی دہائی میں پاکستان چھوڑ دیا تھا اس دوران آنا جانا لگا رہا ہے ، مجھے تین سے چار سال سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔
جب پاکستان کے مختلف سیاسی معاشی بحرانوں کی بات ہوتی ہے اس سلسلے کا آغاز پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا ، قیام پاکستان کے فوری بعد نارتھ ویسٹ صوبہ کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا، ایک سال بعد سندھ کی صوبائی حکومت برطرف کردی گئی، چند سال بعد 1954 میں مشرقی پاکستان میں الیکشن ہوئے جس میں حکمراں جماعت مسلم لیگ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دو مہینے بعد حزب اختلاف کی جماعت جگتو فرنٹ جس نے وہاں کی 90 فیصد سیٹیں جیتیں تھیں اس کو برطرف کردیا گیا تھا ، ہماری تاریخ بحرانوں سے بھرپور ہے ، پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران آئی ایم ایف سے کہیں بڑا ہے، آئی ایم ایف کئی مرتبہ مصر اور ارجنٹائن میں رہا ہے، لیکن ہم آئی ایم ایف کے پاس سب سے زیادہ 24 مرتبہ گئے ہیں۔
آئی ایم ایف قرضے کےلیے اپنے پاس نہیں بلاتا لیکن جب ہم قرض لینے جائیں گے تو جو بھی پیسہ دیتا ہے وہ اپنی شرائط تو نافذ کرے گا ، قرض لینے والے کے پاس اس پر اتفاق کرنے کے علاوہ دوسری کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ جنوبی کوریا کی مثال لیں وہ 1997 اور98 کے بعد آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہیں گیا، انڈیا 1992 میں آخری مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا، تو کیا وجہ ہے کہ دنیا کے چند ممالک بحران کی صورت میں آئی ایم ایف کے پاس گئے لیکن پھر دوبارہ نہیں گئے۔
پھر کچھ ہم جیسے ہیں جو ہرتین سال بعد آئی ایم ایف کے دروازے پرجاتے ہیں، اس کی وجوہات بڑی پیچیدہ ہیں ،اکنامکس کسی ماڈل کا نام نہیں ہے یہ حکومت اور عوام کا رویہ ہے وہ کیسے چلتے ہیں وہی نتائج سامنے ہوتے ہیں۔
اس کےپیچھے بہت سنجیدہ وجوہات ہیں ،ہمارے یہاں فیصلہ سازی میں جو بھی لوگ رہے ہیں انہوں نے ڈاکٹرائن پالیسی اپنائی ہے، ان کا تجربہ یا تو اکیڈمک رہا یا کسی بیوروکریسی میں جیسے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک وغیرہ کا، ڈینی ہاربرٹ ہارورڈ یونی ورسٹی میں پولیٹیکل اکنامکس پڑھاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں جب چین نے ترقی کی اس کےلیے انہوں نے کسی مغربی یونی ورسٹی یا ماڈل سےرجوع نہیں کیا ، جنوبی کوریا جسے ترقی کی بڑی مثال قراردیاجاتا ہے ان کے لیڈر تو فوجی جنرل تھے۔
یہ جو ہماری تھیوری جو پاکستان میں بتائی جاتی ہے کہ انسٹی ٹیوشن جمہوری ہونے چاہیئے یہ آدھا سچ ہے ۔ 20ویں صدی میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں شرح خواندگی یونی ورسل ہوچکی تھی، 19ویں صدی میں فرانس میں تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا ۔20ویں صدی کے آغاز میں یہاں شرح خواندگی 100 فیصد ہوچکی تھی۔ کوریا میں 60 کی دہائی 90 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔
پاکستان کی 60 فیصد آبادی آج بھی تعلیم یافتہ نہیں ہے اور اگر یہ شرط لگادی جائے کہ وہ دو تین صفحے لکھے تو بعض کے خیال میں یہ شرح 80فیصد پر آجائے گی۔ تاریخ بتاتی ہے جن ملکوں نے ترقی کی وہاں پہلا کام لوگوں کو تعلیم دینا تھا۔
اگر لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے تومیرا نہیں خیال کہ پاکستان کی ایکسپورٹ کبھی انڈیا یا کوریا کے برابر ہوسکے گی ،کیوں کہ یہ زمانہ نالج کیپیٹل کا ہے۔ لہذا جب تک اصل شرح خواندگی زیادہ سے زیادہ نہیں ہوگی پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔
پاکستان کی دوتہائی آبادی کی عمر 29 سال سے کم ہے اور مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کا بڑا مسئلہ جمہوریت ہے نہ آمریت ہے نہ نواز شریف ، بلاول بھٹو اورنہ ہی عمران خان ہیں سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ، جب تک ہماری یونی ورسٹی، میڈیا اور ہمارے ادارے اسے نمبر ایک مسئلہ قرار نہیں دیں گے پاکستان کے حالات ایسے ہی رہیں گے۔ ہمیں قومی مباحثے کی سمت میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
میڈیا میں عدالتی فیصلوں کی ہیڈ لائن چلتی ہے یہ خبر تو ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں، لوگوں کو بتایا جاتا ہے ملک میں جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی ترقی نہیں کرے گا لیکن میں چیلنج کرتا ہوں تاریخی طور پر یہ سچ نہیں ہے۔ برطانیہ میں سپریم کورٹ آزاد کرنے کا قانون2006 میں پاس ہوا تھا سپریم کورٹ دوہزار نو میں بنی تھی۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ برطانوی پارلیمنٹ ہاوس آف لارڈ کا حصہ تھا جسے پری کونسل کہتے ہیں ، برطانیہ اس مقام پر صدیوں میں پہنچا ہےہمارے بعض جج قانون دان چاہتے ہیں ہم اس مقام پر فوری پہنچ جائیں اور ایسے ملک میں جہاں کی 70 فیصد آبادی تعلیم یافتہ نہیں ہے۔
جنگ :ریاست تعلیم کو بنیادی ترجیح کیوں قرارنہیں دیتی ،اسے لاپرواہی کہیں یا حکمرانی قائم رکھنے کے لیے کسی کی کوئی منصوبہ بندی ہے؟
یوسف نذر : ریاست کے موجودہ یا ماضی کے کرتادھرتا کوتاہ نظر ہیں وہ فوری فائدہ دیکھتے ہیں، پاکستان کی معیشت کا سائز 375 بلین ڈالر کے قریب ہے یہ ون ٹریلین ڈالر بھی ہوسکتی ہے لیکن اگر وہی کرتے رہے جو پچھلے کئی سال سے کررہے تھے تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکے گا۔
اب سوال ہے کہ کیا مختلف کرنا پڑے گا ،ہماری اشرافیہ دیکھتی ہے کہ اس ٹیکس کے کم ہونے سے ہمیں یہ فائدہ ہوجائے گا ،وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اگر ملک بھر میں بجلی سستی ہوجائے گی اس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا ہماری لاگت کم ہونے سے ایکسپورٹ بڑھے گی تو اس سے ہماری روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔
جنگ : دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں نظام حکومت جمہوریت پر قائم ہے۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے۔
یوسف نذر: جمہوریت اور ترقی ساتھ ساتھ چلتے ہیں، سوئٹزر لینڈ یورپ کا ترقی یافتہ جمہوری ملک ہے وہاں عورتوں کا ووٹ دینے کا حق 1971 میں دیا گیا تھا، یعنی اس سے پہلے وہاں کی عورت ووٹ ڈالنے کا حق سے محروم تھی۔ اگر ہم یہ کہنے لگیں ملک کی طویل المیعاد ترقی کےلیے سب سے اہم ضرورت تعلیم ہے تو اس پر توجہ دیں گے۔ جب تک کسی بات کو فوکس نہیں کریں گے اس کا حل بھی نہیں نکلے گا۔
خالد امین : میں تمام مہمانوں کو خوش آمدیدکہتا ہوں ، میں25 سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں، پاکستان کی ترقی کے لیے سب سے پہلی ترجیح تعلیم ہونی چاہیے، یہاں تعلیمی ادارے تو بہت بن گئے ہیں لیکن شاید یہاں وہ پڑھایا نہیں جارہا جس کی دنیا کو ضرورت ہے ، ہمیں جدید دنیا کے مطابق سلیبس پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوانوں کو دنیا بھر میں برابری کی بنیاد پر موقع ملے۔
اختصام احمد : ٹیکس میں اضافے کی بات جب آتی ہے اس کا بوجھ مال دار کے بجائے عام عوام پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے؟
حارث گزدر: ٹیکس بڑھانا یا نہ بڑھانا کوئی سزا اور جزا کا عمل نہیں ہے ، ٹیکس وہاں لگائے جاتے ہیں جہاں سے زیادہ آمدنی کو توقع ہوتی ہے، پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس بڑی کمپنیاں دیتی ہیں ہمارے یہاں زیادہ ٹیکس ان ڈائریکٹ لیا جاتا ہے ان ڈائریکٹ سے مراد جیسے سیلزٹیکس وغیرہ ، مال دار لوگ کم ٹیکس دے رہے ہیں اعداد و شمار کے حساب سے یہ ٹھیک نہیں ہے ، مڈل کلاس پر ٹیکس کا بوجھ کم ہونا چاہیے، لیکن ملکی اکانومی چلانے کےلیے کوئی نہ کوئی راستہ تو نکالنا پڑے گا۔
عبدالحمید : وہ کون سے اقدامات ہیں جس پر عمل کرنے سے ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچ جائیں گے؟
یوسف نذر: ہمیں اس کےلیے ان ممالک کا جائزہ لینا پڑے گا ان ملکوں کے اقدامات دیکھنے پڑیں گے جو کئی برسوں پہلے آخری مرتبہ آئی ایم ایف گئے تھے۔ ان ممالک میں جنوبی کوریا ، انڈونیشیا ملائیشیا اور انڈیا شامل ہیں ، ان ملکوں نے تعلیم کے ساتھ اپنی معیشت کو اوپن کردیا۔
پاکستان میں غیرملکیوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، دنیا کی کسی بھی ملک کی تقدیر بیرونی امداد سے نہیں بدلی ، پاکستان کو اپنی صنعتی پیداوار پاوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی برآمدات کی صلاحیت بڑھانی چاہیے ، دوسرا انہوں نے ڈی ریگولیشن کیا ،دبئی امیر ریاست ہے لیکن اگر کوئی سرمایہ دار کچھ کرنا چاہے تو وہ آگے بڑھ کر رعائتیں دیتے ہیں جب کہ پاکستان میں بے تحاشا رکاوٹیں ہیں ۔
عبدالمتین : کیا وجہ ہے کراچی کی آمدن سب سے زیادہ ہے لیکن وہ ترقی میں اسلام آباد اور لاہور کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے؟
حارث گزدر: ٹیکس آمدنی اور تجارت پر لگتا ہے کیوں کہ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے ملک کی بڑی کمپنیوں کے صدر دفاتر کراچی میں ہیں وہ ٹیکس بھی یہیں سے فائل کرتے ہیں تو فیڈرل ٹیکس کی زیادہ وصولی یہیں سے ہوتی ہے، ہمارے یہاں زیادہ ٹیکس بڑی کمپنیاں ہی دیتی ہیں۔ ایک تاریخی غلطی درست کرنے کی ضرورت ہے یہ کہنا پاکستان کے قیام سے پہلے کراچی مچھیروں کا شہر تھا ،ایسا نہیں ہے۔
یہاں مچھیروں کی بستی تھی اور بھی کئی برادریاں آباد تھیں ، کراچی شہر بندرگاہ کے گرد بنا جسے تاجر برادری نے بنایا اسی وجہ سے اس شہر کا کلچر تاجرانہ ہے ، اسی وجہ سے پنجاب کے مقابلےمیں کراچی زیادہ ٹیکس دیتا ہے ۔ کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے حکومت انویسٹمنٹ کیوں نہیں کرتی ، اس کا جواب دوسرے انداز میں دیا جاسکتا ہے۔
انگریزوں کے دور میں بھی پنجاب اور سندھ اور پاکستان کے حصہ بننے والے دیگر علاقے معاشی طور پر خوش حال تھے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت چلتے تھے۔ وہ کون سے معاشرے ہیں جو قرض دار رہتے ہیں اس کا آغاز انگریزوں کے آنے کے بعد ہوا انگریزوں کو پڑوس سے روس اور دیگر ممالک سے خطرہ تھا تو اس نے سوچا کہ یہاں ایسی سرمایہ کاری کرکے ایسے لوگ تیار کریں جنہیں مسلسل مراعات دیتے رہیں یعنی ان کی معیشت کے علاوہ مزید مراعات فراہم کریں، بس جب سے ایک کلچر بن گیا ہے خاص طور پر پنجاب میں۔ انہیں اپنی معیشت کے علاوہ مزید مراعات کی عادت پڑگئی ہے ، یعنی سبسڈی ملتی رہے گی ، پانی زمین مفت ملے گی ، قرضے معاف کیئے جائیں گے یہ عادت ان کے مزاج کا حصہ بنادی گئی۔
مجموعی طور پر پاکستان ایک غریب ملک ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ اسلام آباد اور لاہور آمدن نہ رکھنے کے باوجود کراچی سے بہتر ہیں، وہ سرمایہ کہاں سے آیا اور اس میں لگائے ہوئے سرمائے کی معاشی افادیت ہے بھی یا نہیں۔ جو بڑے بڑے پراجیکٹ 80 اور 90 کی دہائی میں بنے اور ابھی بھی بن رہے ہیں یہ پراجیکٹ سفید ہاتھی ہیں اور یہ بھی سوچئے کہ جن منصوبوں کی بدولت آپ ان شہروں کو ترقی یافتہ کہہ رہے ہیں وہ دراصل ہیں کیا؟ میں تو انہیں ملکی معیشت پر سفید ہاتھی سمجھتا ہوں، جن کا خمیازہ آج پورا ملک بھگت رہا ہے، پاکستان کےکچھ علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے یہاں ترقی آگئی لیکن یہ اندر سے کھوکھلے ہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ایشا : دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی میں زیادہ لوٹ مار کی وجوہات کیا ہیں ؟
حارث گزدر : کراچی میں ہرچیز زیادہ ہے روزگار کے مواقع زیادہ ہیں، اس لیے جرائم زیادہ ہیں کیوں کہ موٹر سائکلیں زیادہ ہیں،موبائل فون زیادہ ہیں ہرطرح کی معاشی سرگرمی زیادہ ہے، پاکستان بدقسمتی سے ان ملکوں میں آتا ہے جہاں جرائم بھی معاشی سرگرمیوں میں شمار ہوتی ہے۔
ملک بھر میں مشہور ہے کراچی کے حالات خراب ہیں لیکن اس کے باوجود ملک بھر سے زیادہ لوگ یہی مزدوری کےلیے آتے ہیں۔ اس وقت لاہور اور اسلام آباد میں بھی کرائم ریٹ زیادہ ہے۔
علی: یورپ کے کئی ملک جنہوں نے دو عالمی جنگیں بھی لڑیں ان کا ہم سے زیادہ حال برا تھا آج وہ بہت آگے ہیں ہم ان جیسی پالیسی کیوں نہیں بناتے۔آج کے بحران سے نکلنے کے لیے ہم کس ملک کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔
یوسف نذر : ملائیشیا اور سنگاپور سول وار میں تباہ ہوگیا تھا، ویت نام تباہ ہوگیا تھا ، یہ سارے ملک ہم سے بہت آگے جاچکے ہیں ، ملک ایلیٹ کلاس چلاتی ہے دنیا بھر میں ایسا ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کی ایلیٹ کلاس طویل المیعاد آگے کی سوچ رکھتی ہے، ہمارے یہاں اگلے مہینے اور اگلے سال کے فائدہ کا سوچتے ہیں۔
مریم : مسائل اور ان کے حل کےلیے مختلف فورمز میں گفتگوکی جاتی ہے کیا اس سے تبدیلی آسکتی ہے؟
یوسف نذر: ترقی کا سفر بڑا طویل ہوتا ہے ، اور بات ہونی چاہیے اسی سے آگے کے راستے نکلتے ہیں۔
حارث گزدر : کلچر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے انسانوں کا دیگر جان داروں کے مقابلے میں افضل ہونے کی وجہ الفاظ ہیں وہ بات کرسکتا ہے، انسانوں کی اجتماعی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے گفتگو بہت ضروری ہے۔
جنگ: پاکستان میں 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پاکستان کے جمہوری اور آئینی سفر کےلیے کتنی اہمیت کا حامل ہیں اور اس کے نفاز سے کوئی تبدیلی آئے گی۔
حارث گزدر : یہ تاریخی تبدیلیاں ہیں، ہم مختلف حلقوں سے اسے ختم کرنے کا سنتے ہیں لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ پاکستان کی سیاسی اورسماجی حقیقت ہے اس کے لیے ضروری ہے یہاں صوبے اور پھر مزید آگے مقامی حکومت زیادہ مضبوط ہوں۔