میزبان: محمداکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: جنید احمد
شرکاء: ڈاکٹر ہما بقائی (ریکٹر، میلنیم انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹرپنوریرشپ، سابق مشیر، وزارت خارجہ)
ڈاکٹرنوشین وصی (شعبہ بین الاقوامی تعلقات، کراچی یونی ورسٹی)
سردارمحمد اشرف خان (سیاسی اور معاشی تجزیہ کار، ماہر کشمیر امور)
کشمیر کا وائلڈ کارڈ چین ہے اور چین بھارت کومسلسل یہ بارآور کررہا ہے ،وہ لداخ ہو یا گلگت بلتستان ،انڈیا ریڈ لائن کراس نہ کرے ورنہ جواب ہم دیں گے ،خطے میں چین کے مفادات امریکا سے کہیں زیادہ ہیں۔ چین نفرت انگیز رویوں کی کبھی حمایت نہیں کرتا اس کا فوکس معیشت ہوتا ہے۔
بھارت نے جو سختیاں مقبوضہ کشمیر میں کررکھی ہیں اس میں کمی آسکتی ہے یہ بھارت کے اپنے مفاد میں ہوگا ورنہ جس طرح دنیا بھر میں اسرائیل کا وحشی تشخص بنا ہے وہ شناخت انڈیا کی بھی ہوجائے گی۔
پاکستان کسی صورت خودمختار کشمیر کی اجازت نہیں دے گا۔ اگر چین اپنے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے اور معیشت کے لیے پاکستان اور انڈیا کو فنکشنل تعلقات کی طرف لانے میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر کشمیر کےحالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ کشمیر میں بھارت کی فوجی طاقت کے استعمال کا سوال ضرور اٹھے گا، کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حق خود ارادیت کا پاکستان کا واضح اور اچھا موقف ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی
بھارتی بیانیہ کشمیر کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اس موقف کی بالا دستی اب نہیں رہی ہے۔ بھارت نے حملہ کیا اور پاکستان نےاس کا منہ توڑ جواب دے کر یہ بازی جیت لی، بھارت کے چین سے بھی تعلقات خراب ہیں جس کا اثر مسئلہ کشمیر پر پڑے گا، اب چین بھی کشمیر تنازعے میں شامل ہوگیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کشمیری قیادت حالات سے بہت مایوس ہے، ایک آدھ بار فاروق عبداللہ بھی کہہ بیٹھے ہیں ہمیں چین کے ساتھ بات کرنی پڑے گی۔ خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے روس، چین بھارت اور پاکستان ایک ساتھ بیٹھیں، سب کےلیے وہاں بہت کچھ ہے۔
پاکستان سیاسی طور پر تقسیم اور اقتصادی طور پر کمزور ہونے کے باوجود دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کی عوام کے لیے زمین تنگ کردی ہےوہاں سے ڈی ملٹرائزیشن ضروری ہے۔
سردار اشرف خان
صدر ٹرمپ کی ثالثی کی خواہش سے ایک مثبت فرق آیا ہے ،پاکستانی بیانیے کو دنیا میں دوبارہ اہمیت مل رہی ہے، سفارتی سطح پرپاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے، اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس ہورہے ہیں او آئی سی نے وہاں کشمیر پر بھی سیشن کیا ہے ،جس میں وادی کشمیر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دونوں طرف کی کشمیریوں کی بڑی تعداد آزاد خود مختار کشمیرکی خواہش مند ہے لیکن یہ آپشن پاکستان اور بھارت دونوں کو قبول نہیں ،پاکستان کوکشمیراس لیے چاہیے کہ وہاں سے پانی آتا ہے، انڈیا کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ اسے وسطی ایشیا سے جوڑتا ہے۔
پاکستان کے پاس 34 فیصد کشمیر ہے 16 فیصد چین کے پاس اور45 فیصد انڈیا کے پاس ہے، کشمیر کا بڑا حصہ انڈیا کے پاس ہے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کس طرح کا ہوم ورک کریں کہ آگے چل کر کشمیریوں کو فائدہ ہوجائے۔
ڈاکٹر نوشین وصی
جنگ فورم میں ہمارا موضوع جنوبی ایشیا کا دیرینہ مسئلہ کشمیر نیا منظرنامہ ہے۔ پہلا منظر پاک بھارت جنگ سے پہلے کا ہے جب خاموشی تھی اور بظاہر ہمارے لیے بہت مایوس کن صورت حال تھی، لیکن رواں سال بھارت نے ایک بار پھر جنگ چھیڑ دی جس میں پاکستان کو کامیابی ملی اس کامیابی سے پاکستان دنیا بھرمیں بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔
جنگ نے سیاست کا رخ تبدیل کردیا ہے یہ کامیابی ہماری خارجہ پالیسی کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئی اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا سیاسی پلڑابھاری ہوگیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں ہوئیں، چین سے مزید قربت بڑھی ہے، تازہ ترین پیش رفت سعودی عرب سے ہمارا دفاعی معاہدہ ہے ۔ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان حالات کا مسئلہ کشمیر پر کیا اثر پڑے گا۔
سیزفائر کے بعد امریکا نے تنازعہ کشمیر پرثالثی کی جو پیش کش کی ہے اس پربھارت کا ردعمل کیا ہوتا ہے، امریکی پیش کش اور اس کی نئی پالیسی سے مودی سرکار پر دباؤکتنا آیا ہے، اگر بھارت پرمعاشی دباؤ بڑھا ہے توکیا اس کا کشمیر پالیسی پر کوئی مثبت اثر پڑسکتا ہے۔
کشمیر پر چین اور بھارت کے درمیان بھی تنازعہ ہے ۔بھارت سے جنگ میں چین نے پاکستان کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، مسئلہ کشمیر پر چین ہمارے لیےکس طرح مزید مددگار ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ کا اثر کشمیر پر کس حد تک پڑے گا۔ اس طرح کے مزید سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی (ریکٹر، میلنیم انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹرپنوریرشپ) ،ڈاکٹر نوشین وصی (شعبہ بین الاقوامی تعلقات)اور سردار اشرف خان (سیاسی اور معاشی تجزیہ کار) یہ ماہرین بین الاقوامی سیاست اور امور کشمیر پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔گفتگو کا ڈاکٹر نوشین وصی سے کرتے ہیں۔
جنگ: وزیراعظم شہبازشریف اور فیلڈ مرشل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہونے جارہی ہے ،امریکی صدرنے کشمیر پرثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے تنازعہ کے حل کے لیے مثبت رول ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس سے امید ہے میٹنگ میں کشمیر پر بھی گفتگو ہوسکتی ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
ڈاکٹر نوشین وصی: صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش ضرور ظاہرکی ہے لیکن میرے خیال میں بھارت اس پرراضی نہیں ہوگا ۔صدر ٹرمپ کی ثالثی کی خواہش سے ایک مثبت فرق آیا ہے، پاکستانی بیانیے کو دنیا میں دوبارہ اہمیت مل رہی ہے اور سفارتی سطح پرپاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے لیکن دوسری طرف تنازع کشمیرپر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی : پاکستان کا کشمیری موقف مضبوط ہوا ہے، اس کی بنیادی وجہ مودی سرکار کی ناکام پالیسیاں ہیں ،اس کی ناکام پالیسی کا شور اندرون اور بیرون ملک دونوں مچ رہا ہے، پالیسی ناکام ہونے کی بڑی وجہ مودی سرکار کا انڈیا کا سوسائٹی فیبرک تباہ ہونا ہے، سیکولرازم ،آئین پرستی، جمہوریت پسندی ان کی شناخت سمجھی جاتی تھی۔
اگر بھارتی سماج میں یہ واپس آجائیں تو کشمیر کے لیے جگہ بنتی ہے ،مودی کے اقدامات سے مقبوضہ کشمیر میں شدید حبس کا ماحول ہے ، کشمیری عوام کے لیے زمین تنگ سانس لینا دوبھر کردیا گیا ہے ۔مودی سرکار کشمیر میں حملوں کو صرف اپنی ذاتی سیاست چمکانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے۔اس حکومت کی پوری خارجہ پالیسی منفی اقدامات سے بھرپور ہے ،مودی سرکار کے منفی عزائم سے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو نئی زندگی ملی ہے۔
جنگ : وزیراعظم شہباز شریف کی ٹرمپ سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کی کتنی اہمیت حاصل ہوسکتی ہے ؟
سردار اشرف خان: صدر ٹرمپ کا یہ کہنا ہم کشمیر پرثالثی کے لیے تیار ہیں ،دونوں میرے دوست ملک ہیں وہ میری بات سنیں گے ان کی یہ بات اپنی جگہ اوران کے کہنے سے کیا اثرات پڑیں گے یہ بعد کی بات ہے، لیکن فوری طور پر مسئلہ کشمیر کو ٹرمپ کے کہنے سے جو فائدہ ہوا ہے، تنازع کشمیر دنیا میں دوبارہ دیرینہ مسئلہ بن کر اجاگر ہوا ہے، دوسری اہم فائدہ یہ ہوا بھارتی بیانیہ کشمیر کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کے اس موقف کی بالا دستی اب نہیں رہی ہے۔ پاکستان کو جگانے پر صدرٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
اگر طاقت کے زعم میں بھارت ہم پرحملہ آور نہ ہوتا تومعاملات مختلف تھے۔ بھارت نے حملہ کیا اور پاکستان نےاس کا منہ توڑ جواب دے کر یہ بازی جیت لی ہے۔ اس جنگ میں انڈیا نے بری طرح مار کھائی ہے۔ اس کی کمزوریاں دنیا کے سامنے آگئ ہیں۔
بھارت کے چین سے بھی تعلقات خراب ہیں، جس کا اثر مسئلہ کشمیر پر پڑے گا ۔2019 میں مودی سرکار نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات ختم کردیئے گئے تھے جس سے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا تھا۔
گوکہ اس بھارتی اقدام سے مقبوضہ جموں و کشمیرکی صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑا، وہ پہلے سے ہی تمام حقوق پر قابض تھے ۔ لیکن 2019 کے بھارتی اقدام سے ایک اہم بات ہوئی، اب چین بھی کشمیر تنازعے میں شامل ہوگیا ہے۔
بہت عرصے پہلے پاکستان نے لداخ کا بڑا حصہ چین کے حوالے کردیا تھا ،جس کی وجہ سے چین بھی کشمیر کا اہم فریق ہے ۔حالیہ جنگ میں بھی چین نے پاکستان کی بڑی مدد کی ہے۔ ایک معروف بھارتی تجزیہ کار کے مطابق 2019 میں پاکستان میں اسٹریجک کانفرنس ہوئی جس میں وہ بھی شریک تھا۔
اس کے مطابق میں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے پوچھا تھا کہ آپ نے پاکستان اسٹریجک مفاد پربات تو کی لیکن اس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا، جواب میں جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ میں اور وزیراعظم چین گئے تھے وہاں چینی قیادت نے ہم سے کہا ہے کہ آپ اقتصادی صورت حال کو بہتر کرو، پاکستان کی نیشنل سیکورٹی ہم دیکھ لیں گے، ان کا یہ کہنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی مسئلہ بن کر مرکز نگاہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اسے کیسے لے کر آگے بڑھیں گے کشمیری کیسے لے کر چلتے ہیں اور انڈیا کیا کرتا ہے۔
بھارت کا ایک باخبر طبقہ یہ کہہ رہا ہے، بھارت پاکستان اور چین کو مشترکہ دس سال کے لیے خطے میں امن کے لیے کچھ کرنے کی ضروت ہے، امریکی اقدامات کے بعد مودی نے علاقائی کانفرنس میں شرکت کی تھی وہاں چینی صدر سے بھی ان کی یہ ہی بات ہوئی ہے علاقائی تنازعات کو مل کر حل کریں، چین بڑی طاقت ہے جس کا مقابلہ بھارت نہیں کرسکتا، ٹرمپ کی زیادہ دلچسپی کاروبار سے ہے۔
جنگ: تنازعہ کے حل اور ثالثی کے لیے وہ کیا ممکنات ہیں جس میں فریقین اتفاق کریں؟
ڈاکٹر نوشین وصی: مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر 2019 میں دوبارہ اجاگر ہوگیا تھا، مودی سرکار370 اور35 اے ختم کرنے پر سوچ رہے تھے کہ اس کا خاص ردعمل نہیں آئے گا لیکن اس اقدام کی لداخ میں بھی مخالفت دیکھنے میں آئی تھی ،2019 کے بعد پاکستان نے سفارتی سطح پر بڑی سرگرم پوزیشن لی تھی جو بالکل ٹھیک تھا۔
تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کی کونسلز وغیرہ شامل ہیں وہ روزانہ کی بنیاد پرانسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بتارہے ہیں ،مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں گرفتاریاں ہوئی ہیں، ماورائے عدالت قتل ہوئے ہیں ، بلاوارنٹ گرفتاریاں ہیں، اظہار رائے پر پابندیاں ہیں۔
پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی سرکار کو زیادہ اختیار مل گیا ہے وہ اب کشمیریوں کے گھر مسمار کررہے ہیں ۔مودی کے تازہ ترین ردعمل نے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو مزید تیزی دے دی ہے،اس کی وجہ سے ہم بھارت کے مقابلے میں بہت بہتر ہوگئے ہیں، لیکن ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ثالثی بہتر طریقے سے ہوگی ایسا آئندہ پچاس سال میں بھی ممکن نہیں ہے ،کیوں کہ ہمارے اپنے سفارتی حلقوں نے اس کے حل کے متعلق نہیں سوچا ہے۔
ہماری اب تک 17 میٹنگ ہوچکی ہے ،لیکن یہ سارے مل کراب تک غزہ کا مسئلہ حل نہیں کرواسکے ۔ سب کی خواہش ہے تنازعہ حل ہونا چاہیے لیکن حل کےلیے جوہونا چاہیے وہ اب تک نظر نہیں آرہا ۔ہم حالیہ کامیابی کو بیانیہ بنا کر خارجہ امور میں مدد کے لیے استعمال کریں لیکن اس بیانیے سے نفرت نہ بڑھائیں، اگر دونوں طرف کامیابی اور نفرت بیانیہ ہوگا تو ماحول سازگار نہیں رہے گا اور تعاون کی بات نہیں ہوسکتی اگر ہم واقعی تنازعے کا حل چاہتے ہیں تو ہوم ورک کا ہونا ضروری ہے جس میں اہم ترین رائے عامہ تیار کرنا شامل ہے۔ ہمارے پاس چناب فارمولا سابق صدر مشرف کا چار نکاتی فارمولا ،آزادی فارمولا۔ خود مختاری کا فارمولا اور تھرڈ آپشن بھی موجود ہے۔
بہت عرصے سے کہا جارہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ٹرسٹیز کونسل کے حوالے کردیتے ہیں جس سے مراد اگلے دس سال کے لیے اس معاملے کو سیز کردیا جائے ،کیا ہم تنازعہ کو منجمد کرکے تعاون کرنے کی بات کی پوزیشن میں ہیں، ہم ایسی باتوں کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں لہٰذا رائے عامہ کا رویہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، نریندر مودی نے سیاسی مقبولیت کےلیے نفرت کی سیاست کو فروغ دیا ہے ،جہاں ہمارے فیصلہ سازوں کا اثررسوخ ہے وہاں وہ بھی سیاسی فائدے کےلیے یہ ہی کچھ کررہے ہیں۔
جنگ : پاکستان اپنے مفاد کو لے کر کیسے آگے بڑھے؟
ڈاکٹر نوشین وصی: خراب معیشت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے آج اگر ہم کسی کی اسٹرٹیجک ضرورت ہیں تو وہ اس کے بدلے ہمیں ریال یا ڈالر فراہم کرے گا، اس طرح کی لین دین کی بنیاد پر تو آپ کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا۔ ہم پر ہرتھوڑے دن ڈیفالٹ کرجانے کا دباؤ آتا ہے ،وہ اب نہیں ہوگا ، ہمیں چین سعودی عرب دونوں بیل آوٹ کریں گے۔
جنگ: آج اچھی پوزیشن میں ہیں، چین سعودی عرب امریکا کی مدد سے ہم کس حد تک کشمیر کے حوالے سے فائدے لے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی: ان حالات میں کشمیرکو غیرمحسوس فائدہ ہوسکتا ہے ، براہ راست کوئی فائدہ نہیں ہوگا ،نہ یہ مسئلہ بات چیت کے لیے کسی میز پر ہے ، صرف پروپیگنڈا کے طور پر علاقائی اور سیاسی فائدے کےلیے استعمال ہورہا ہے۔ عالمی فورمز پر پاکستان کا ایجنڈا دہشت گردی ہے، اس میں افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی بند کروانا، مجید بریگیڈ اور بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی خوشی درست منائی گئی ہے۔ لیکن ایک فائدہ ممکن ہے اقوام متحدہ کے 80 ملکوں نے فلسطین کو ریاست کا درجہ دے دیا ہے، یہ اقدام پاکستان کے لیے ایک بڑی امید ہے۔
دنیا میں اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے دنیا کے دو بڑے ملکوں میں ایک اسرائیل اور دوسرا بھارت ہے۔ بھارت کو اسرائیل جیسی پشت پناہی حاصل نہیں ہے ۔بھارت کی دوسری کوئی بڑی جماعت کشمیر کے اسٹیٹس میں بہت بڑی تبدیلی کی بات نہیں کرسکتی ہے۔
کشمیر کا وائلڈ کارڈ چین ہے اور چین بھارت کو مسلسل یہ بارآور کررہا ہے، وہ لداخ ہو یا گلگت بلتستان ،انڈیا ریڈ لائن کراس نہ کرے ورنہ جواب ہم دیں گے۔ کچھ عرصے قبل انڈیا نے گلگت بلتستان کو بھی اپنا حصہ قرار دینا شروع کردیا تھا تو ہم نے اس موقع پر کہا تھا کہ اگر انڈیا نے گلگت بلتستان پر حملہ کیا تو وہ کشمیر پر نہیں چین کی سرمایہ کاری پر حملہ کرے گا۔
اس خطے میں چین کے مفادات امریکا سے کہیں زیادہ ہیں۔ چین نفرت انگیز رویوں کی کبھی حمایت نہیں کرتا، اس کا فوکس معیشت ہوتا ہے، اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں لیکن دونوں کے درمیان کاروبار بہت اچھا ہے جس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، افغانستان بنگلہ دیش میں بھی اس کی سرمایہ کاری ہے۔
کشمیر کے اسٹیٹس میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئے گی البتہ بھارت نے جو سختیاں مقبوضہ کشمیر میں کررکھی ہیں اس میں کمی آسکتی ہے یہ بھارت کے اپنے مفاد میں ہوگا ، ورنہ جس طرح دنیا بھر میں اسرائیل کا وحشی تشخص بنا ہے وہ شناخت انڈیا کی بھی ہوجائے گی۔
جنگ : کیا مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے چین وائلڈ کارڈ ہے ؟
سردار اشرف خان: چین تنازعے میں ایک فریق ہے ،2019 میں جموں و کشمیر پر بھارتی اقدامات کے بعد چین بھی کشمیرمیں عملی طور پر سرگرم ہوگیا ہے۔جس کی وجہ لداخ کا بڑا حصہ چین کے پاس ہونا ہے، چینی صدر نے انڈیا میں مودی سے کہا تھا کہ ہمیں تنازعات حل کرنے چاہیں ،پاکستان اور بھارت سب ساتھ بیٹھ کر تنازعات حل کرتے ہیں اور پھر مل کر اقتصادی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ لیکن اس زمانے میں مودی جی امریکا کے بہت قریب تھے۔
آج کے حالات میں چین فیکٹر طاقت کے ساتھ تنازعہ کشمیر میں شامل ہوگیا ہے۔ پاکستان نے کبھی کوئی چیز مناسب منصوبہ بناکر نہیں کی ہے۔ آج کے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے، مقبوضہ کشمیر کی کشمیری قیادت حالات سے بہت مایوس ہے، ایک آدھ بار فاروق عبداللہ بھی کہہ بیٹھے ہیں ہمیں چین کے ساتھ بات کرنی پڑے گی ۔خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے روس، چین بھارت اور پاکستان ایک ساتھ بیٹھیں، سب کےلیے وہاں بہت کچھ ہے۔
ڈاکٹر ہمابقائی : چین پاکستان کو60 کی دہائی سے تنازعات سے بچنے اور خود کو سیاسی معاشی اقتصادی طور پر مضبوط کرنے کا مشورہ دے رہا ہے، یہاں یہ سوال ہے کہ وہ کون سی منظم کشمیری قیادت ہے جس نے کشمیر کاز کو نہ بیچا ہو۔
سردار اشرف خان: کوئی غلط فہمی میں نہ رہے پاکستان فلسطین نہیں۔ پاکستان سیاسی طور پر تقسیم اور اقتصادی طور پر کمزور ہونے کے باوجود دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی: پاکستان کو دس سال اپنی معیشت کی بہتری کے لیے درکار ہیں۔
جنگ: کیا بھارت میں مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرنے کے لیے رائے عامہ موجود ہے۔
سردار اشرف خان: جنگ کے بعد وہاں کے دانشور مشورے دے رہےہیں کہ ہمیں دس سال امن کے لیے چاہیے۔ بھارتی معیشت اور دفاع پر کشمیر بہت بڑا بوجھ ہے اگر چین بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کرتا ہے تو شاید پاکستان کو کچھ نہ ملے لیکن آزاد غیرجانب دار خود مختار کشمیر بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی: آزاد خود مختار کشمیری ریاست یہ ناممکن ہے ،پاکستان اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ہمارا اسٹرٹیجکلی ملٹری فریم ورک دیکھیں تو پاکستان کسی صورت خودمختار کشمیر کی اجازت نہیں دے گا۔ اگر چین اپنے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے اور معیشت کے لیے پاکستان اور انڈیا کو فنکشنل تعلقات کی طرف لانے میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر کشمیرکےحالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
جنگ: اوآئی سی ہے اسلامی بلاک موجود ہے کیا مسئلہ کشمیر وہاں گیا ہے؟
ڈاکٹر نوشین وصی: مسئلہ کشمیروہاں گفتگو تک گیا ہے ،اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس ہورہے ہیں او آئی سی نے وہاں کشمیر پر بھی سیشن کیا ہے، جس میں وادی کشمیر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وادی کشمیر کی حرکیات کئی حوالوں سے مختلف ہے ، کشمیر کا اگر کوئی مناسب حل ہے تو وہ صرف لائن آف کنٹرول کا انٹرنیشنل بارڈر ہے۔
میرے نزدیک فی الحال دوسرا کوئی حل نہیں ہے۔ پاکستان نے ہر چیز آزمالی ہے۔جموں و کشمیر میں بھارت نے بڑے مظالم کئے ہیں، وہاں صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ آزادی کے حق میں تھے ایسی مقامی قیادت ختم ہوگئی ہے۔
جموں کشمیر کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ وہاں عمرعبداللہ کی حکومت ہے جس کا اتحاد کانگریس کے ساتھ ہے، جس پر بی جے پی حکومت الزام لگا رہی ہے کہ لداخ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کانگریس کی وجہ سے ہے، کانگریس بھی کشمیر کو آزادی دینے کے حق میں نہیں ہے وہ اسے مزید خود مختاری دینے کی بات کرتی ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی تنازعہ ہونے کی صورت میں سب سے مضبوط طاقت ریاستی رٹ ہوتی ہے ایسے موقعوں پر مقامی سطح پر ظلم بڑھ جاتا ہے، ظلم، پابندیوں اور سختیوں کی صورت میں کشمیریوں پر بھی کڑا وقت ہے۔
حالیہ جنگ میں پاکستان جیتا ہے جس کے بعد وادی کشمیر میں سختیوں میں اضافہ ہوگیا ہے، کشمیریوں کے گھر مسمار کئے جارہے ہیں ،صحافیوں پر کریک ڈاؤن ہورہا ہے۔
پچھلے سال مقبوضہ کشمیر کے الیکشن میں زیادہ تر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی کشمیری عوام نیوٹرل ہوکر اپنی مشکلات کو کم کرنا چاہتا ہے وہ کسی پارٹی کی پوزیشن نہیں لے رہا۔
جنگ: بھارتی وزیراعظم مودی کا مستقبل کیا ہے اس کے جانے سے کشمیر کے معاملے پر کوئی فرق پڑے گا ؟
سردار اشرف خان : مودی پر کئی طرح کا دباؤ ہے ،ان کی عمر 75 سال ہوگئی ہے کئ لوگوں کی خواہش ہے وہ اب گھر جائیں ۔ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی مکمل ناکام ہوچکی ہے، اس کے بعد وہاں کے دانشور میڈیا کہہ رہا ہے کہ مودی حکومت معاشی، دفاعی اور خارجہ پالیسی میں ناکام ہوچکی ہے۔ کانگریس امریکا کے ساتھ چین سے بھی متوازن تعلقات کی خواہش مند ہے۔ ان حالات میں مودی کا 2027 تک رہنا مشکل ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی: بھارت اپنی آزاد حکمت عملی پر واپس آنا چاہتا ہے ،مودی کے خلاف بی جے پی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مودی کو ہٹا دیا تو ہم دوبارہ مقبول ہوسکتے ہیں۔
جہاں تک کشمیر کی بات ہے اگر کانگریس حکومت میں آتی ہے تو وہ بی جے پی سے زیادہ مشکل صورت حال کا شکار ہے، ابھی سب مودی سے فاصلہ کررہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پرو کشمیر ہوجائیں۔
عبدالصمد :آزاد خود مختار کشمیر ریاست کا امکان کتنا ممکن ہے ؟
ڈاکٹر نوشین وصی: دونوں طرف کی کشمیریوں کی بڑی تعداد آزاد خود مختار کشمیر کی خواہشمند ہے لیکن یہ آپشن پاکستان اور بھارت دونوں کو قبول نہیں ہیں۔ اس جنگ نےمودی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ،اس کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔ اگر کشمیر آزاد ریاست ہوجاتا ہے اس کے ساتھ وسائل جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو کشمیر اس لیے چاہیے کہ وہاں سے پانی آتا ہے ،انڈیا کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ اسے وسطی ایشیا سے جوڑتا ہے، پاکستان کو پانی چاہیے اور بھارت کو وسطی ایشیا کا راستہ درکار ہے، اب جو ایل او سی ہوئی ہے اس میں پانی انڈیا کے پاس چلا گیااور سینٹرل ایشیا کا راستہ پاکستان کو مل گیا ہے ۔ پاکستان کو نقصان ہوا ہے اسے تو لڑنا پڑے گا۔
جنگ: اگر کشمیر آزاد ریاست بن جاتی ہے تو تعلقات تو دونوں سے رہیں گے ؟
ڈاکٹر نوشین وصی: ایسی صورت میں عالمی برادری اسے استعمال کرے گی، ایسی ریاستی عالمی سیاست کے لیے بہتر نہیں ہوتی ۔مستقبل میں اگر یہ افغانستان جیسی ریاست بن گئی عالمی برادری کو اس طرح کے خطرات کا بھی خدشہ ہے۔ اس لیے وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
ڈاکٹر اظہر: اگر کشمیر غیرجانب دار ریاست بن جائے اور وہاں چین بیٹھ جائے تو اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں ؟
ڈاکٹر نوشین وصی: اے آئی کے دور نے جغرافیائی صورت حال بھی بدل دی ہے، ثالث کےلیے ضروری ہے اس پر دونوں شکایت کنندہ اعتماد کرتے ہوں ۔ ایک زمانے میں ہم امریکا پر اعتماد کرتے تھے لیکن اس
پر بھارت کو نہیں تھا، اور جب بھارت کو ہوا تو ہمارا اعتماد ختم ہوگیا ۔آج ہم چین پر اعتماد کرتے ہیں لیکن بھارت چین پر نہیں کرتا۔ بھارت چین سے مقابلہ کرتا ہے، بھارت کی ساری منصوبہ بندی چین سے مقابلے کی ہے۔
پہلے چین تنازعہ میں نیوٹرل تھا لیکن اب چین ہماری کھل کر حمایت کرتا ہے اب اگر چین آجائے گا تو بھارت سوچے گا کہ دشمن تو ہمارے سرحد پر آگیا ہے، اس لئے بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ یہاں چین آئے۔ تو کوئی ریاست نیوٹرل نہیں ہوتی اس کی پالیسی ہوتی ہے۔
جنگ: کیوں کہ طاقت کے بل بوتے پر ہی کشمیر پر قبضہ کیا گیا ہے اس کےحصول کےلیے طاقت کا استعمال کوئی آپشن ہوسکتا ہے ؟
ڈاکٹر نوشین وصی: اس کے امکانات کو نظرانداز نہیں کرسکتے، لیکن کیوں کہ دونوں جانب نیوکلئیر فیکٹر موجود ہے اس لیے اس کا امکان کم ہے۔
سردار اشرف خان: اس تنازعے میں ایک اور بات سامنے آئی، انڈس واٹرکی وجہ پاکستان پر ایگزییشنل تھریٹ آگیا ہے، چین نے انڈیا سے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ہم برہم پترا روک دیں گے۔
چین بڑا فیکٹر ہے۔ پاکستان پر دباؤ بڑھ گیا ہے ۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کشمیر میں ان کی حمایت برقرار رہے۔ جب تک کشمیری عوام اور وہاں کی لیڈر شپ کو اعتماد میں نہیں رکھیں گے بات آگے کیسے بڑھے گی۔
ڈاکٹر ہما بقائی: آج کل آزاد کشمیر میں بھی مسئلے کھڑے ہوئے ہیں،دو سیاسی جماعتوں نےاسے سیاسی مہرہ بنایا ہوا ہے۔
سردار اشرف خان : آزاد کشمیر میں نیا سیاسی فیکٹر پیدا ہوگیا ہے۔ سیاسی طاقتوں کو نظرانداز کرکے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔
جنگ: موجودہ حالات میں کشمیر کے ممکنہ حل کیا ہیں ؟
سردار اشرف خان: ابھی کشمیریوں کو گلا گھونٹا ہوا ہے ، انہیں کچھ سہولت ملنی چاہیے، بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کی عوام کے لیے زمین تنگ کردی ہے، وہاں سے ڈی ملٹرائزیشن ضروری ہے ۔کشمیری انتہائی مشکل میں ہیں، انہوں نے اپنا سب کچھ بھارت کو بیچ دیا ہے، عبداللہ اور مفتی خاندان دونوں کبھی بھی پاکستان کی طرف نہیں آئے ،نتیجہ یہ ہوا کہ اب ان کا کوئی وارث نہیں ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی :اسرائیل اور فلسطین تنازعے کے بعد نئے زاویے سامنے آئے ہیں،کوئی کتنی بڑی طاقت ہوں قابض ہونا ممکن نہیں، کشمیر میں بھارت کی فوجی طاقت کے استعمال کا سوال ضرور اٹھے گا، کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حق خود ارادیت کا پاکستان کا واضح اور اچھا موقف ہے۔
ڈاکٹر نوشین وصی :قابض ہونا مشکل ہے لیکن جب تک ریاستیں طاقت ور رہتیں ہیں وہ قبضہ برقرار رکھتی ہیں، ہم روتے رہیں اور وہاں ظلم ہوتا رہے گا، کشمیریوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہورہی۔ ایک سابق سفارتکار نے مجھے بتایاتھا کہ پاکستان کی پالیسی اگلے پچاس سال تک اسٹیٹس کو رکھنا ہے۔
اقوام متحدہ میں جنوری 1949 کی قرارداد ہے اس کی کنڈیشن پر پاک بھارت دونوں نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ مودی کا ایجنڈا یہ تھا کہ وہ 370 ختم کرکے آزاد کشمیرلے گا، لیکن اس جنگ کے بعد انہیں پتا لگ گیا کہ یہ ناممکن ہے، اس جنگ میں کامیابی سے ایک ریڈ لائن ڈیولپ ہوگئی ہے۔
پاکستان کے پاس 34 فیصد کشمیر ہے 16 فیصد چین کے پاس اور45 فیصد انڈیا کے پاس ہے،کشمیر کا بڑا حصہ انڈیا کے پاس ہے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح کا ہوم ورک کریں کہ آگے چل کر کشمیریوں کوئی فائدہ ہوجائے۔