میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : جنید احمد
عارف حبیب ( چیئرمین، عارف حبیب گروپ)
محسن شیخانی ( بلڈر، ڈویلپر/ سرپرست، آباد)
محمد حسن بخشی ( چیئرمین، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز)
شہر کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں ہورہی وجہ قوانین پرعمل نہ ہونا ہے، شہر کے ذمہ دار کہیں اور مصروف ہیں ، تعلیم اور تربیت پرسرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے ، کراچی آنے والوں میں زیادہ تعداد ان پڑھ لوگوں کی ہے یہی لوگ مسئلے پیدا کررہے ہیں ، حکومت میں صلاحیت کی کمی ہے ورنہ روک تھام کے لیے قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے، کچی آبادی ماڈل پر میں آئیڈیا دینا چاہوں گا، اگر لوگ زمین سرینڈر کریں تو حکومت کے تعاون سے انہیں مفت نیا گھر اور بنیادی سہولتیں بھی مل سکتی ہیں، کچی آبادیوں کو نیا ناظم آباد جیسا بنایا جاسکتا ہے، صدر پاکستان کی رئیل اسٹیٹ بزنس میں دلچسپی ہے آباد انہیں منصوبہ اچھے طریقے پیش کرے ، کراچی کا امیج بہتر کرنے کے لیے اہم مرکزی شاہراہوں اور مقامات پرپبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں کام کیا جائے ، کارپوریٹ کو چاہیے وہ اہم شہری علاقوں کو گود لیں ، ایس آئی ایف سی میں زراعت ، آئی ٹی ، مائننگ ، انرجی کے ساتھ شعبہ کنسٹرکشن بھی ہونا چاہیے ، پلاٹ پر قیاس آرائی اور ڈیولمپنٹ دو الگ چیزیں ہیں
عارف حبیب
حکومتیں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوں گی تو معیشت بھی غیریقینی رہے گی ، معیشت کی بہتری کےلیے طویل المیعاد ویژن اور پالیسی کی ضرورت ہے ، لوگ سرمایہ کاری کےلیے گارنٹی چاہتے ہیں ، حکومت سندھ کچی آبادی پر کام کرنے جارہی اس پرہائی پاور میٹنگ ہوئی ہے ، ابتدا میں ایک ماڈل بنانے کا کہا گیا ہے ، کراچی کو ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت ہے ، ہرکام اورادارے تک آن لائن رسائی ہو ،اس میں اجازت ، منظوری، کاغذی کارروائی پیسوں کا لین دین، قبضہ شکایت اور عمل درآمد سب ریکارڈ پر ہو ، ہاوسنگ کے کاروبار سے سرمایہ باہر نہیں گیا لیکن نصف سے کم ہوگیا ہے ، زمین ، پلاٹ ، فلیٹ اور مکان کی سرمایہ کاری میں لگے پیسے پھنس گئے ہیں ، ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے ہاوسنگ سیکٹر میں اوورسیز پاکستانیوں کا پیسہ نہیں آرہا ، حکومتی توجہ دے ہاوسنگ سیکٹر میں بہت ریمی ٹینس آسکتا ہے ، اگر حکومت سہولت فراہم نہیں کرے گی تو پانی بجلی ، شادی ہال، اسکول ، روزگار کے لیے ٹھیلہ تجاوزات سے عوام جینے کا راستہ خود نکال لیتے ہیں ، شہر کو رنگ روڈ ، کوسٹل ہائی وے کی ضرورت ہے ، فنڈ کا مسئلہ ہے تو حکومت میرٹ پر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں کام کرے
محسن شیخانی
شہر کی مجموعی صورت حال اطمینان بخش نہیں ، انفرا اسٹرکچر ہے نہ لا اینڈ آرڈر ، نہ ہی شہریوں کو صحت ، تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولتیں میسر ہیں ، نوجوانوں کو میرٹ پر حق نہیں مل رہا ، بے روزگاری ہر گھر کا مسئلہ ہے، تعمیرات بغیر کسی اتھارٹی، اجازت نامے، انجینئر ، سپروائرز اور ٹھیکیدار کے بغیر جاری ہیں، حکومت سندھ کے پاس بہت زمین ہے وہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ہاوسنگ کے مسئلے حل کرنے کے لیے آباد کو زمین فراہم کرے، سرکاری پالیسی میں مستقل مزاجی ہونی چاہیے ، عمران دورحکومت میں ہاوسنگ سیکٹر کو ترجیح حاصل تھی ، نیا پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی آج بھی موجود ہے ، ڈھائی سال گزرگئے ہیں اس کے بعد سے حکومت سے ہاوسنگ سیکٹر پر کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ، ہمارے کئی ممبرز دبئی ، سعودی عرب، یوکے اور یوایس جا چکے ہیں کچھ اپنا مال بیچنے کے بعد چلے جائیں گے، خواہش ہے لوگ پاکستان اور کراچی میں ہی کام کریں
محمد حسن بخشی
ہمارا آج کا موضوع ہے بدحال کراچی کی بحالی کیسے ممکن ہے ہم ملک کے سب سے بڑے شہر کے متعلق عام تاثر اور زمینی حقائق کا جائزہ لیں گے۔ پیپلزپارٹی کو کراچی کی مئیر شپ پہلی مرتبہ ملی ہے ان کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ بہترین کام کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھائیں۔
میڈیا میں کراچی کی شناخت اچھی نہیں ہے ، لوگوں کو بنیادی ضرورتوں کی شکایت عام ہے ، سب سے زیادہ رپورٹ گندگی صفائی ستھرائی کے فقدان پر ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار جو ٹریفک جام کا بھی سبب ہیں، لوگ شہر کو موہن جوداڑوں سے ملاتے ہیں ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سڑکوں کی بحالی کے لیے ایک کھرب دس ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے، اب اس پرعمل درآمد کا انتظار ہے، کراچی میں آبادی میں اضافے کی شرح دوگنی ہے، آبادی میں اضافے کی حقیقی شرح دو اعشاریہ 5فیصد اور دوسرے مقامات کی ہجرت سے آنے والوں کی شرح دوفیصد ہے ، آبادی کے دبائو سے شہری مسائل میں دوگنا اضافہ ہورہا ہے، اس لیے مکانوں کی ضرورت زیادہ ہے۔ بنیادی سہولت سے محروم شہر کا نصف کچی آبادیوں میں رہتا ہے ، متعدد علاقوں میں پانی کی فراہمی بہت کم یا نہیں ہے ، جس میں ڈیفنس جیسے علاقے بھی شامل ہیں ، پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ ہے۔
دیگر مسائل میں ناجائز تجاوزات ، نالوں ، سڑک ، فٹ پاتھ اور میدان پر قبضوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، سیاسی عدم استحکام جس کی وجہ سے سارے مسائل جنم لیتے ہیں یہاں کا بڑا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف سندھ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت کئی منصوبے بڑی کامیابی سے جاری ہے وفاقی وزیر خزانہ نے بھی کہا ہے کہ سندھ کے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ منصوبوں کو دیگر صوبے کو بھی کاپی کرنا چاہیے۔
پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ منصوبوں میں ملیر ایکسپریس وے بن رہا ہے ، تھر کول اور سندھ میں سڑکیں بن سکتی ہیں تو ہاوسنگ کے منصوبے کیوں نہیں ہو سکتے ، ان پر گفتگو کےلیے ہمارے ساتھ موجود ہیں عارف حبیب ( چیئرمین، عارف حبیب گروپ) محسن شیخانی( بلڈر، ڈویلپر/ سرپرست، آباد) اور محمد حسن بخشی ( چیئرمین، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز) گفتگو کا آغاز محمد حسن بخشی سے کریں گے۔
جنگ: کراچی میں ہاوسنگ کے مسائل کیسے کم یا ختم ہوسکتے ہیں ، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت کتنی مدد ہوسکتی ہے؟
محمد حسن بخشی: ایک زمانے میں کراچی کو ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا،لوگ چھٹیاں گزارنےدنیا بھرسے آتے تھے ۔ آج شہرآبادی میں ساتواں اور گندگی میں دنیا کا چوتھا بڑا شہر کہا جاتا ہے۔ شہر کی مجموعی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے، انفرا اسٹرکچر نہ لا اینڈ آرڈر ہے نہ عام متوسط طبقے کو صحت، تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولت میسر ہے، شہر کے نوجوانوں کو میرٹ پر حق نہیں مل رہا، بے روزگاری ہر گھر کا مسئلہ ہے، والدین بڑی مشکل سے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں پھر وہ نوجوان نوکری کے لیے شہر میں نکلتا ہے تو کہیں سفارش تو کہیں ڈومیسائل رکاوٹ ہے ، پچھلے سال تو کراچی کے طالب علموں کے نتائج بھی منفی نیت سے مینج کئے گئے تھے۔ جو شہر ان حالات میں بھی ایس آربی سے صوبے کو98 فیصد اور وفاق کو 65فیصد ریونیو دے رہا ہو ، اس کا یہ حال حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ یہاں کچھ چیزیں بہت اچھی ہورہی ہیں۔
پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں ملیر ایکسپریس وے جیسے منصوبے بن رہے ہیں، کراچی کے50 سے 52 فیصد لوگ کچی آبادیوں میں آباد ہیں ، یہاں تعمیرات کے نام پرموت کا کھیل چل رہا ہے ، چالیس مرلے رقبے میں آٹھ سے دس منزلہ عمارتیں کھڑی ہورہی ہیں ، تعمیرات بغیر کسی اتھارٹی کے اجازت نامے، انجینئر ، سپروائرز ، ٹھیکیدار کے بغیر ہے، تعمیر میں سریہ استعمال نہیں ہوتا اور سیمنٹ کو مضبوط کرنے کےلیے پانی سے ترائی کا بندوبست بھی نہیں ہے، خدانخواستہ شہر میں کبھی سات ریکٹر اسکیل کا زلزلہ آیا تو تباہی کو سنبھالنا ناممکن ہوگا۔
کراچی کی زمین مہنگی ہونے کی وجہ سے فلیٹ اور مکان کی قیمت زیادہ ہے، اس لیئے عام آدمی کے لئے گھر کا حصول بہت مشکل ہوگیا ہے ۔ آباد ایسوسی ایشن 1972 سے قائم ہے ، اس کے بنیادی مقصد میں اپنے اراکین کی مدد سے کراچی کے عوام کو کم قیمت اسکیم کے ذریعے گھر فراہمی میں کردار ادا کرنا شامل تھا ، ابتدا میں یہ کام ہوا لیکن پھر یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ کیوں کہ کراچی کی زمین کا بطور کمیوڈیٹی استعمال شروع ہوگیا ، کسی وزیر نے نوازنا ہے تو زمین دے دی ، وہ زمین کئی لوگوں سے بکتے ہوئے مارکیٹ ریٹ پر بلڈرز کو ملتی ہے ، زمین ہزار روپے گز میں الاٹ ہوتی ہے لیکن ہمارے رکن تک پچاس ہزار روپے گز ہوجاتی ہے وہ زمین اور تعمیرات کے اخراجات اور نفع رکھ کر فروخت کرتا ہے۔
حکومت سندھ پندرہ سال سے پیپلزپارٹی کے پاس ہے ، روٹی کپڑا مکان ان کا منشور ہے، حکومت سندھ کے پاس بہت زمین ہے وہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ہاوسنگ کے مسئلے حل کرنے کے لیے آباد کو زمین فراہم کریں ہمارے ساتھ مل کر کراچی کے عام آدمی کو اپنی چھت جو اس کا بنیادی آئینی حق ہے ہاوسنگ کے منصوبے کریں۔ شہر کا بڑا مسئلہ زمین، سڑک ، فٹ پاٹھ پر قبضے بھی ہیں۔
شکایت کی جاتی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے ،اینٹی انکروچمنٹ سیل، آئی جی پولیس یا کورکمانڈر کراچی ہوں، قبضوں کے خلاف کہیں سے بھی سخت کارروائی نہیں ہورہی ہے ، ہمارے ایک رکن کے پراجیکٹ کے سامنے سو فٹ سڑک اور دوسرے رکن کے چالیس فٹ سڑک پر قبضہ ہوگیا ہے ، یہ کام انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیرممکن نہیں، یہاں مختلف سرکاری اداروں میں بیٹھے افراد بنیادی طور پر کراچی سے نہیں ہے، یہ مخصوص مائنڈ سیٹ کے ساتھ یہاں صرف پیسے کمارہے ہیں۔
جنگ: مشرف حکومت سے لے عمران خان تک وفاقی حکومت نے کئی ہاوسنگ اسکیمیں دی ہیں ، آباد کا کیا کردار رہا اور منصوبے ناکام کیوں ہوئے؟
محمد حسن بخشی : عمران خان دور حکومت میں کراچی کے لیئے ہاوسنگ اسکیم نہیں صرف ہاوسنگ پالیسی بنی تھی جس کا فائدہ سب نے اٹھایا تھا۔ ہاوسنگ بھاری سرمایہ کاری کا کاروبار ہے اس میں صرف زمینیں اربوں روپے کی ہیں ۔ سرکاری پالیسی میں مستقل مزاجی ہونی چاہیے ، عمران دورحکومت میں ہاوسنگ سیکٹر کو ترجیح حاصل تھی۔
اس دور میں وزیراعظم کے زیرصدارت ہاوسنگ سیکٹر کےلیے78 میٹنگ ہوئیں تھیں ، پاکستان کی72 سالہ تاریخ میں کسی دوسرے وزیراعظم نے ہاوسنگ سیکٹرز سے اتنی ملاقات نہیں کیں ۔ اس کی وجہ سے ہاوسنگ سیکٹر بہت مصروف تھا ۔ اسلام آباد ، لاہور ، کراچی میں کام نظر آرہے تھے۔
اس کے بعد کی حکومت کے لیے ہاوسنگ سیکٹر ترجیحی نہیں رہا ہے ۔ نیا پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی آج بھی موجود ہے ، ڈھائی سال گزرگئے ہیں اس کے بعد حکومت سے ہاوسنگ سیکٹر پر کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے ، پچھلے دور میں جن لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی ان میں سے اکثرلوگ بینک ڈیفالٹ کے قریب ہیں جو حکومتی پالیسی تبدیل ہونے کی و جہ سے ہے ، ٹیکس اور ڈاکومینٹیشن زیادہ کردی گئی، ہر بڑا پالیسی میکر کہتا ہے کہ اس کاروبار میں دو نمبر پیسے انویسٹ ہوتے ہیں، کبھی کراچی رہائش کے لیے چالیس سے ستر لاکھ میں فلیٹ مل جاتا تھا ، وہ پانچ سال میں ادائی کرتا ، لون بھی ملتا تھا، ایک بینکر کے مطابق عمران خان دور میں ہم نے بلڈرز کو بہت فنانسنگ کی اب اس میں سے بیشتر پھنس گئے ہیں۔
میں نے جواب دیا اس زمانے میں 160 روپے کا ڈالر تھا آج پونے تین سو کے قریب ہے،سریہ ایک لاکھ چالیس ہزار سے دولاکھ اسی ہزار سیمنٹ 600 سے 1100 کا ہوگیا ہے ہرچیز دوگنے روپے کی ہوگئی ہے بلڈر نے اپنا مال5000 اسکوائر فٹ پر فروخت کیا تھا جب کہ آج لاگت ہی 8000 اسکوائر فٹ ہے تو وہ اتنے خسارے کے ساتھ کیسے بیچیں ۔ ہمارے کئی ممبرز دبئی ، سعودی عرب، یوکے اور یوایس جا چکے ہیں کچھ اپنا مال بیچنے کے بعد چلے جائیں گے۔ ہماری خواہش ہے لوگ پاکستان اور کراچی میں ہی کام کریں۔
جنگ: ہاوسنگ بڑا سیکٹر اور آباد بڑا پلیٹ فارم ہے ۔آپ کے کام کے ساتھ اس سے جڑی 70 انڈسٹریز اس کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں ۔ آپ لوگوں کی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ سے ان مسائل پر ملاقات اور بات نہیں ہوتی ؟
محمد حسن بخشی : علی پرویز کے ہمراہ وزیر خزانہ سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے ہر ایک سے ڈیڑھ ماہ بعد میٹنگ کی یقین دہانی کرائی ہے ہم نے وزیر خزانہ کو بتایا دوہزار گز کی ورٹیکل بلڈنگ ڈھائی ارب روپے کی بنتی ہے ڈھائی ارب روپے کا مینوفیکچر مال رکھتا ہے لوکل لیبر کام کرتی ہے زمین اور خریدار دونوں یہیں کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس زیادہ لگنے کا اعتراف کرکے اسے بتدریج کم کرنےکا کہا ہے اور مستقبل میں اعتماد میں لے کرچلیں گے۔
نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم میں 31500 لون گرانٹ ہوئے تھے اس میں ایک فیصد بھی ڈیفالٹ نہیں ہے لوگوں نے 5 سے نوفیصد شرح سود پر لون لیا تھا اس وقت جس نے پچاس لاکھ پر گھر لیا تھا اس کی مالیت سوا کروڑ ہوگئی ہے، اس طرح درمیانے طبقے کی جائیداد بن گئی ہے حکومت کو چاہیے اس پر دوبارہ غور کرے لوگوں کو تھوڑی سی سبسڈی دیں یہ صرف پہلا گھر لینے والوں کو دیں ، اس سے انڈسٹری بھی کام کرےگی جب انہیں اس شہر صوبے اور ملک سے ملے گاتو ان میں اونر شپ کا احساس ہوگا۔
جنگ: آباد بہت بڑے سیکٹر کی نمائندگی کرتی ہے پچھلے دور حکومت میں ہاوسنگ سیکٹر میں پراجیکٹ کے اشتہاروں سے اخبارات بھرے تھے لیکن اب یہ کاروبار متاثر ہے ایسی کیا پالیسی ہو جوعوام کو گھر ملے اور انڈسٹری بھی چلے؟
محسن شیخانی : معیشت اور ہاوسنگ سیکٹر پچھلے تین سال سے زوال پذیر ہیں۔ اس کا آغاز عمران حکومت کے آخری چھ ماہ سے شروع ہوا تھا ، جب سو روپے کی چیز ڈھائی سو کی ہوجائے تو صورت حال مکمل بدل جاتی ہے، انڈسٹری کے بحران کی سب سے بڑی وجہ قیمتوں میں نمایاں فرق ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں ہم تین ہزار اسکوائر فٹ میں ایک پراجیکٹ ڈیزائن کررہے تھے جس میں کوشش تھی کسی منافع کے بغیر عوام کو کچھ دیں، حکومت فنڈنگ بھی کررہی تھی پھر پتا نہیں کیا ہوا ، اس موقع پر نیسپاک کو شامل کیا گیا انہوں نے شاید اسے بہت زیادہ منافع بخش سمجھا تھا ، اس رویے پر ہم پیچھے ہٹ گئے اور بچت ہوگئی ورنہ آج ہم بھی ملک سے باہر ہوتے اور یہاں احتساب چل رہا ہوتا۔
جب کرنسی کی قدر کم اور بینکوں کا شرح سود بڑھ جائے عالمی دبائو ہو اور ڈی فالٹ ہونے کا کہا جارہا ہو تو اس طرح کے شور پر مانگنے والے ایک ساتھ آجاتے ہیں ۔ کسی بھی بحرانی معاملے کو بری طرح پیش نہیں کیا جاتا لیکن ہم نے ایسا ہی کیا ۔ جب تک حکومتیں سیاسی عدم استحکام کا شکار نظر آئیں گی معیشت بھی غیریقینی رہے گی ، معیشت کی بہتری کےلیے طویل المیعاد ویژن پالیسی کی ضرورت ہے۔ لوگ سرمایہ کاری کےلیے گارنٹی چاہتے ہیں۔
جنگ : سندھ میں سیاسی استحکام ہے، صوبے میں مسلسل تیسری مرتبہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اب میئر کراچی بھی پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی کا ہے، میئر کراچی سے ان ایشوز پر آباد کی کوئی بات ہوئی ہے؟
محسن شیخانی : ہماری درخواست پر میئر کراچی ملاقات کے لیے آئے تھے، ہمیں ان سے اچھی امیدیں ہیں۔ پہلے سیاسی طور پر کراچی اور حیدرآباد ملک سے علیحدہ نظر آتے تھے ، اب ایسا نہیں ہے اب تو میئر کراچی بھی پیپلزپارٹی کا ہے ۔ لیکن توقعات کے مطابق اب تک کام نظر نہیں آیا ہے۔
جنگ : کچی آبادی ختم کرنے کےلیے پبلک پرائیوٹ منصوبوں میں کیا آپ بھی شامل ہیں ، 1996 کی پی پی حکفومت نے کراچی کے علاقے لائینز ایریا کے طویل عرصے سے زیر التوا آباد کاری کے لیے منصوبہ بنایا تھا وہاں ہائی رائز بلڈنگ بنا کر لوگوں کےلیے رہنے کے قابل بنانا تھا لیکن حکومت ختم ہونے کے سبب منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ کیا اب بھی اس طرح کے منصوبے آباد کے پائپ لائن میں ہیں ؟
محسن شیخانی : دس سال پہلے ہم نےحکومت سندھ کو یہ پروپوزل دیا تھا، اس دور میں لا اینڈ آرڈر زیادہ خراب تھا ، کچی آبادیوں میں مخصوص لوگ رہتے ہیں جو علاقے کی ہرطرح کی یوٹیلٹی پر اپنی گرفت کرلیتے ہیں، وہاں رہنے والے ان ہی کے زیرتسلط ہوتے ہیں مافیا طرز نظام چل رہا ہوتا ہے، ہمارا پروپوزل تھا کچی بستیوں کو قانونی کر کےلوگوں کو یہیں آباد کردیں، حکومت دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتی تھی۔ ہمارا خیال تھا لوگ منتقل نہیں ہوں گے اور سیاسی الجھنیں پیدا ہوں گے۔
ہم نے حکومت کو منصوبہ دیا تھا کہ ایسی بستیوں رہنے والوں کو 30فیصد جگہ پر ورٹیکل میں آباد کرکے بالکل فری گھر دیں گے ان کے بچوں کو انشورنس کے ذریعے تعلیم اور صحت کی سہولت دس سال تک فراہم کریں گے اور 30فیصد زمین ایمنٹی کے لیے چھوڑدیں گے باقی کی 40 فیصد زمین ڈویلپرز کے حوالے کریں وہ اپنے پراجیکٹ بنا کر کاروبار کرے گا اور آپ کی چیزوں کو بھی بنائے گا لوگوں کو مفت گھر اور اپنے لیے آمدنی پیدا کرے گا۔ آبادی اس طرح ریگولرائز ہونے سے حکومت کو فائدہ ہوگا اس مشق سے اگلے دس سال میں کچی آبادی میں رہنے والوں کے حالات تبدیل ہوجائیں گے۔
حکومت سندھ نے ہمارے پرپوزل پر قانون بنایا تھا ، ایک ہائی پاور بورڈ بنایا گیا جس میں کورکمانڈر ، چیف سیکریٹری ، ڈی جی رینجرز اور دیگر وزارتوں کے سیکریٹری شامل تھے اور چیئرمین آباد کو بورڈ کا چیف ایگزیکٹیو بنا دیا تھا لیکن اس بورڈ کی کبھی میٹنگ نہیں ہوئی ۔ ہم نے دوبارہ کہا ہے کہ بورڈ کا سی ای او چیف سیکریٹری کو بنادیں آباد ممبر بن جائے گا ہمیں کام کرنا ہے۔
حکومت سندھ کچی آبادی پردوبارہ کام کرنے جارہی اس پرہائی پاور میٹنگ ہوئی ہے۔ جس میں پرانی باتوں کا ذکر ہوا ہے، ابتدا میں ایک ماڈل بنانے کا کہا گیا ہے آباد نے ایک ماڈل بغیر کسی مفاد اور منافع کے یہ کرنے کا کہا ہے تاکہ سب کو یقین آجائے کہ یہ ہوسکتا ہے یہ منصوبہ انڈرپروسیس ہے۔
کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا ، شہر کے اکثرنوجوان تعلیم مکمل کرتے ہی بیرون ملک جانے کا سوچ رہے ہیں وہ یہاں کے سسٹم سے فراد چاہتے ہیں، اس لیے شہر کو بہترکرنے کےلیے اجتماعی کوشش کرنی پڑے گی ۔ کراچی کو ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت ہے۔ یہاں دفاتر میں بیٹھے بعض لوگ سوچتے ہیں میرے دستخط کے بغیر آباد کا کام کا ہونا ناممکن ہے۔ اس لئے شہر کا ہرکام اور ادارے ڈیجیٹلائز اور ان تک آن لائن رسائی ہو اس میں اجازت ، منظوری ، کاغذی کارروائی پیسوں کا لین دین ، قبضہ شکایت اور عمل درآمد سب آن لائن ریکارڈ پر ہو۔
جنگ : ہاوسنگ کے شعبے سے کتنا سرمایہ باہر منتقل ہوا اور کتنا کام نہ ہونے کے سبب پھنس ہوگیا ہے۔
محسن شیخانی : ہاوسنگ کے کاروبار سے سرمایہ باہر نہیں گیا ہے ، لیکن سرمایہ نصف سے کم ہوگیا ہے بڑے پراجیکٹ کی قیمت چالیس فیصد کم ہوگئی ہے، زمین ، پلاٹ ، فلیٹ اور مکان کی سرمایہ کاری میں لگے پیسے پھنس گئے ہیں۔
اگر ریفنڈ کا دباو آتا ہے توہم واپس کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ ہماری ڈی ویلیوایشن ہوگئی ہے ، مارکیٹ پچاس سے ساٹھ فیصد گرگئی ہے۔ ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے ہاوسنگ سیکٹر میں اوورسیز پاکستانیوں کا پیسہ نہیں آرہا ، اوورسیز ہاوسنگ کا اچھا اور بڑا انویسٹر تھا۔
جنگ : اگر حکومت شعبہ ہاوسنگ پر توجہ کرے تو کیا اس سے ڈالر کی کمی کا مسئلے میں مدد مل سکتی ہے؟
محسن شیخانی : حکومتی توجہ سےہاوسنگ سیکٹر میں بہت ریمی ٹینس آسکتا ہے، کچھ عرصے پہلے تک دس سے 12 بلین ڈالر رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں پاکستان میں آتا تھا ابھی وہ بالکل غائب ہے۔ حکومت سندھ کو98 فیصد اور وفاق کو 60 سے 65 فیصد ریونیو شہر سے مل رہا ہے اگر دونوں حکومتیں تیس سے پچاس فیصد شہر پر لگا دے ہمارا دعویٰ ہے کہ حکومت کو ملنے والے آمدنی اگلے تین سال میں دوگنی ہوسکتی ہے ، لا اینڈ آرڈر اور انفرااسٹرکچر بہتر کرنے سے شہرکے مسائل حل ہوجائیں گے۔
جنگ : کراچی کا چہرہ کیسے بہتر ہوسکتا ہے ؟
عارف حبیب : کراچی ملک کا معاشی حب ہونے کے باوجود بدحالی کا شکار ہے، اس کا تصور زیادہ خراب ہے ،شہر اتنا خراب نہیں ، کراچی اچھا شہر ہے یہاں سڑکیں چوڑی اور کشادہ ہیں ، ماضی میں نئی دہلی اور ممبئی سے کراچی واپس آنا ہوتا تھا تو کراچی ان سے ہمیشہ زیادہ اچھا نظر آتا تھا۔ علاقائی اسٹاک ایکسچینج کی تنظیم جسے ساوتھ ایشین فیڈریشن ایکسچیجز کہا جاتا ہے ، نوے کی دہائی میں ایک ایسے ہی پروگرام کے ہم میزبان تھے اس میں انڈین بھی تھے، وہ کراچی سے بہت متاثر ہوئے ۔ اب شہر کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں ہورہی۔
قوانین پرعمل نہیں ہورہا ۔ شہر کے ذمہ دار کہیں اور مصروف ہیں ، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تربیت والی تعلیم کا ہے۔ ایسی تعلیم پرسرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے ۔ شہر میں اکثر قانون کی خلاف ورزیاں کرنے والے قانون شکن یہ ہی ان پڑھ ہیں ، کراچی آنے والوں میں زیادہ تعداد ان پڑھ لوگوں کی ہے یہی لوگ مسئلے پیدا کررہے ہیں ، حکومت میں صلاحیت کی کمی ہے ورنہ روک تھام کے لیے سختی سے قانون پرعمل درآمد کرائے۔
کراچی والوں میں اتحاد کی کمی ، حکمت عملی اور سمجھ کا فقدان بھی مسئلہ ہے ، یہاں والے غیر ضروری افراد کی حمایت کرکے آگے لاتے ہیں اور جن کی اہمیت ہے انہیں نظر انداز کرتے ہیں ، جب بااختیار لوگوں کو اہمیت نہیں ملے گی تو وہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم کراچی کے لیے کچھ بھی کرلیں یہ ہماری کبھی بھی حمایت نہیں کرے گا۔ ہم انہیں سمجھا رہے ہیں کراچی کا میدان سیاست خالی ہے تھوڑے سے کام کریں توآپ زیادہ مقبول ہوجائیں گے۔ یہ ہی لوگ سندھ میں حکمرانی کرتے ہیں لیکن ان کے حلقے کراچی سے باہر کے ہیں۔
دوسری طرف جنہیں کراچی والے ووٹ دیتے رہے ہیں میں ان کی ٹاپ لیڈر سے شکایت کرتا تھا اگر آپ نے ان سے ہی ڈیل کرنی تھی تو پھر ہم آپ کو درمیان میں کیوں رکھیں براہ راست خود یہ کام کرلیتے ہیں، وہ اپنی مختلف مجبوریاں بیان کرتے تھے۔
ہمیں ہر حکومت کے ساتھ مل کرچلنے کا شکوہ بھی کیا جاتا ہے ہمارا کہنا ہے ہماری مثال کھلاڑی کی ہے جسے کپتان کوئی بھی ملے ٹیم کی اچھی پرفارمنس کے لے مل کراچھا کھیلنے کی کوشش کرنا ہے ۔ تنظیم آباد ملک کا طاقت ور اہم ترین ادارہ ہے ہاوسنگ اینڈ ڈیولپرز ملک میں دوسرے نمبرپر سب سے زیادہ روزگار اور 70انڈسٹریز کو کاروبار دے رہا ہے اور حکومت کی بڑی آمدنی کا ذریعہ ہے۔
آباد میں بحثیت ادارہ یہ صلاحیت ہونی چاہیے وہ صاحب اقتدار سے پراعتماد طریقے سے بات کرے ۔وہ یقین دلائے آباد کراچی کی بہتری کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے حکومت کو بھی چاہیے جو شہر کا حق ہے وہ دے اور آباد سے جو مدد یا شراکت چاہیے آباد اس کےلیے تیار ہے ۔ کچی آبادی ماڈل پر آئیڈیا دینا دینا چاہوں گا ، جب سخی حسن چورنگی سے نیا ناظم آباد جاتے ہیں تو فلائی اوور بننے سے پہلے نصرت بھٹو کالونی سے راستہ کافی تنگ تھا۔
ہم نے اطراف کی جگہ خریدی اورسڑک کشادہ کرکے بائی پاس کےلیے فلائی اوور بنالیا ہے ۔ لیکن انکروچمنٹ وہاں ابھی بھی ہے ہیں جہاں غریب اور لینڈگریبرز دونوں موجود ہیں ۔ اگر لوگ زمین سرینڈر کریں تو حکومت کے تعاون سے انہیں مفت نیا گھر مل سکتا ہے اس کچی آبادی کو نیا ناظم آباد جیسا بناسکتے ہیں۔
صدر پاکستان کی رئیل اسٹیٹ بزنس میں دلچسپی ہے انہیں پروگرام اچھے طریقے پیش کریں ۔ کراچی کا مینڈیٹ دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کراچی کی مشکلات میں سڑکوں کی حالت زار صفائی اور بیوٹی فیکیشن کے مسائل ہیں ۔ کچھ دن پہلے لاہور دیکھا وہاں کچھ مقامات برے حال میں اور کچھ قابل دید نظرآئے ، وہاں پالیسی کے تحت اہم مرکزی شاہراہوں کو بہت اچھا سجایا گیا ہے۔
سڑک کے درمیان فٹ پاتھ پر گھاس اور رات کے لیے ڈیکوریٹڈ لائٹ لگا رکھی تھیں جو دیکھنے میں خوب صورت منظر تھا ، کراچی کا امیج بہتر کرنے کےلیے اہم مرکزی شاہراہوں اور مقامات پرپبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی مدد سے کارپوریٹ کو چاہیے وہ انہیں گود لیں جس سے شہر کا امیج بہتر ہوگا شاہراہ فیصل ، ایم اے جناح روڈ وغیرہ کو اس طرح بہتر کریں خوش گوار تبدیلی نظر آئے گی ، حکومت نے اس مرتبہ بارش کے بعد پیچ ورک بہت تیزی سے کیا ہے۔
آباد کو دفتر کے سامنے بیوٹی فیکیشن کا کام کرنا چاہیے ۔آباد کے پلیٹ فارم سے اسٹیٹ بینک سے انگیج ہونا چاہیے رئیل اسٹیٹ میں عموماً فنانسر کو نقصان نہیں ہوتا ۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو بتاناچاہیے کہ رئیل اسٹیٹ فنانسنگ کےلیے مختلف ریگولیشن ہونی چاہیے وہ بات کو سمجھیں گے۔ آبادکو ائٓوٹر ڈیولپمنٹ چارجز پر بھی بات کرنا چاہیے۔ اس مد میں ماسٹرپلاننگ ڈیپارٹمنٹ کروڑوں روپے لیتا ہے لیکن خرچ نہیں کرتا۔
ایس آئی ایف سی میں زراعت ، آئی ٹی، مائننگ ، انرجی کے ساتھ شعبہ کنسٹرکشن بھی ہونا چاہیے ، آرمی چیف نے اتفاق کرتے ہوئے آباد وفد کے ہمراہ جلد وزیراعظم سے ملاقات کا کہا ہے ۔ پلاٹ پر قیاس آرائی اور ڈیولمپنٹ دو الگ چیزیں ہیں پالیسی میکرز کو سمجھانے کےلیے آباد پلاٹ خریدنے اور بیچنے والوں سے دور رہے ،کیوں کہ آباد بلڈر اینڈ ڈیولپر روزگار اور ٹیکس دینے والا ادارہ ہے ۔ کئی ملکوں کا جی ڈی پی گروتھ کسٹرکشن پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
جنگ : 1973کے بعد کوئی کراچی کا ماسٹر پلان نہیں بنا ہے جوبنے وہ قابل عمل نہیں رہے، بغیر ماسٹر پلان کراچی جیسا شہر کی ترقی ممکن ہے ؟
محسن شیخانی : انتظامی طور پر یہ افسوس ناک ہے ایک ہونے کے بجائے ہردور میں ماسٹر پلان بنا بھی اورٹوٹا بھی ، حکومتوں نے سیاسی مفاد کے مطابق کام کیا ، کبھی کراچی میں صرف کے ڈی اے کے زیرانتظام کام ہوتا تھا، ماسٹر پلان سے لے کر ہرچیز اسی میں بنتی تھی ، پھر سیاسی مفاد کا ٹکراو ہوا تو کے ڈی اے سے ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے علیحدہ ہوگیا ، اب پچھلے تیس سال سے کراچی میں کوئی بہتری نہیں ہے۔ کبھی کے ڈی اے حکومت سندھ کو لون دیتا تھا آج وہ ادارہ ختم ہے۔
حکومتوں نے شہر کی بنیادی ضرورت پورا کرنے کی کوشش نہیں کی ، سن دوہزار مشرف حکومت میں 800 ایم جی ڈی پانی کا منصوبہ بنا تھا 24سال ہوگئے کراچی کو وہ ہی پانی مل رہا، اس میں دوسو چوری باقی چھ سو سپلائی ہورہا ہے۔ اگر حکومت سہولت فراہم نہیں کرے گی تو پانی بجلی، شادی ہال، اسکول ، روزگار کے لیے ٹھیلہ ناجائز تجاوزات سے عوام جینے کا راستہ خود نکال لیتے ہیں۔ آج شہر کو رنگ روڈ ، کوسٹل ہائی وے کی ضرورت ہے۔ فنڈ کا مسئلہ ہے تو حکومت میرٹ پر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں بنادے۔
افضل حمید : سٹرکشن انڈسٹری کی بحالی کے شارٹ ٹرم ، مڈٹرم ، لانگ ٹرم پالیسی کیا ہونی چاہیے۔
عارف حبیب : سب سے پہلے انڈسٹری کا وقار بحال کیا جائے ۔ معاشی سرگرمیوں میں ہاوسنگ کا مثبت کردار ہے لیکن پالیسی میکرزکی نظر اسے منفی نظر سے دیکھتے ہیں اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ابھی رئیل اسٹیٹ ڈی ویلیو کا شکار ہے ۔لیکن اب اچھا وقت آنے والا ہے کیوں کہ ایک سال سے روپیہ کی قدر برقرار اور اسٹیٹ بینک کا شرح سود کم ہورہا ہے، اسٹاک ایکسچینج اوپر جارہی ہے،اب متاثرہ سیکٹر صرف رئیل اسٹیٹ ہے جو آج رئیل اسٹیٹ اور ڈیولپمنٹ پر پوزیشن لے گا اس کے مسئلے حل ہوں گے۔ لوگوں نے حکومتی سیکورٹی میں پیسے لگائے ہوئے تھے اب شرح منافع کم ہونے پر پیسہ وہاں سے نکل کر دوبارہ کہیں اور انویسٹ ہوگا ۔ اگر کوئی بینک ڈیفالٹ میں پھنسا ہے تو ہم سب بینکوں سے میٹنگ کرکے حل نکال لیں گے۔
عبدالستارشیخ : خرابی میں چائنا کٹنگ اور پورشن مافیا کا بڑا کردار ہے ،آباد پورشن مافیا کے خلاف کیا کررہا ہے؟
محسن شیخائی : ہم بحثیت ادارہ نشاندہی ، شکایت اور اس کے خلا ف بول سکتے ہیں فیصلوں پر عمل درآمد ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ہم نے سرکاری اداروں کو تحریری طور پربتایا پورشن بننے کواگر نہیں روکا گیا تو جانوں کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ، سرکاری سطح پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ کچھ بن جائے تو ختم کرنا مشکل ہوتا ہے ، ایسی صورت میں لاکھوں لوگ سڑک پر آجائیں گے ۔ ہم نے سروے ڈیزائن کروایا ہے ، کسی طرح یہاں رہنے والوں کاڈیٹا آجائے جو بلڈنگ کنٹرول سمیت کسی ادارے کے پاس نہیں ہے۔
حسن بخشی : ہمیں ذمہ دار ایسوسی ایشن کی طرح واضح لکیرکھینچنے پڑے گی، ایک میٹنگ میں ہم نے رائے دی ہے کہ این ای ڈی یونی ورسٹی ، ایس بی سی اے، قانون نافذ کرنےوالے اداروں اور وزیرصاحب کو شامل کرتے ہیں کوئی بھی علاقہ منتخب کرکے پانچ کلومیٹر تک ایک سروے کرواتے ہیں ، جس میں چیک کیا جائے اس علاقے میں نئی میں کتنی قانونی اورغیر قانونی ہیں، اس طرح غیرقانونی کام کرنے والے لوگ سامنے آجائیں گے ، جوسرکاری لوگ غیرقانونی کام کروارہے ہیں وہ بھی سامنے آجائیں گے اس خرابی میں ہمارے ممبر بھی شریک ہیں تو وہ بھی سامنے آجائیں گے ،اس ڈیٹا کی مدد سے پھر ایکشن بھی لیا جاسکے گا ، ہمیں ایک ماڈل علاقہ بنا کراس طرح کام کرنا ہوگا ،سروے کے مکمل اخراجات آباد ادا کرے گا۔
ڈاکٹر اطہر : آباد کے کئی اراکین عرصہ دراز سے بلڈنگ اینڈ ڈیولپرز کے کام سے منسلک ہیں کیا ہمارے بلڈرز اور ہنرمند کے پاس صلاحیت کی کمی ہے جو وہ بیرون ملک اس طرح کا کوئی کام نہیں کررہے۔
محسن شیخانی : دوہزار سات سے آٹھ تک کراچی میں چار سے پانچ منزلہ عمارتیں تعمیرہورہی تھیں اب ہائی رائز بلڈنگز بن رہی ہیں۔ ہم سب کچھ بناسکتے ہیں، ہم باہر جاکر کچھ نہ کچھ سیکھ کر نئی ٹیکنالوجی بھی لاتے ہیں، ہمارے لوگ بیرون ملک کمپنیوں سے کام کرواکر زیادہ فخر کرتے ہیں لیکن اتفاق سے ایسےزیادہ تر پراجیکٹ فلاپ ہوئے ہیں۔
علی اصغر : زمین کی ذخیرہ اندوزی بھی ہورہی ہے ، آباد کی طرف سے ایک مرتبہ ایکسپو میں کہا گیا تھا گھر انسان کی شناخت ہوتا ہے ہم مڈل کلاس کےلیے معیاری ہاوسنگ پراجیکٹ لے کر آئیں گے۔ اس کے متعلق کچھ بتائیں۔
عارف حبیب : غریب کو شکایت ہے پلاٹ کی ذخیرہ اندوزی سے پلاٹ مہنگے ہورہے ہیں۔ حکومت پلاٹ خریدنے پر ٹیکس زیادہ لگائے اوراس کی تعمیر پر زیادہ تر ٹیکس واپس کردے اس سے پلاٹ کو آگے فروخت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور لوگوں کو رحجان تعمیرات پر زیادہ ہوجائے گا۔
اویس تھانوی : نیاناظم آباد کےدرمیان تنگ راستے کو بہتر کرنے کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ منصوبے کے تحت وہاں کے مکینوں اور دیگر اداروں کےساتھ کس طرح کام کیا تھا۔
عارف حبیب : مسائل زیادہ تر وہاں آباد برادریوں سے رابطوں کے ذریعے حل ہوئے ہم نے یہ زمین پبلک پرائیوٹ منصوبے میں لی تھی جس میں دو ڈھائی سو رقبے پر ناجائزتجاوزات تھیں،ہم دو طریقے سے آگے بڑھے تھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد اور ساتھ بزنس ڈیل دونوں رکھی تھی ، قبضہ مافیا کے خلاف سب سے
بڑا پلیٹ فارم آباد ہے اگر یہ کھڑا ہوجائے تو ناجائز قبضہ گیر کو ہٹنا پڑے گا۔
فاروقی : کراچی کے لیے پانی اور بجلی فراہمی کے نئے منصوبے پر پیش رفت نہیں ہورہی ؟
عارف حبیب : بجلی مسئلہ نہیں ہے ، پانی کی قلت ہے ، ٹینکر مافیا مسئلہ ہے۔ کے فور منصوبے کے متعلق حکومت کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔
جنگ : پہلے ہاوس بلڈنگ فنانس کا ادارہ طویل مدتی آسان اقساط پرقرض فراہم کرتا تھا ، کمرشل بینکوں کا لون بہت مہنگا ہے اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
عارف حبیب: اس ادارے سے غریب کو بہت فائدہ تھا، پچھلی حکومت میں نیاپاکستان ہاوسنگ منصوبے کے تحت آسان شرائط لون پر بہت کام ہواتھا تین سے چھ فیصد شرح سود پرہاوسنگ فنانس دیا گیا تھا بعد میں 22فیصد تک اضافہ ہوگیا تو نئی حکومت نے اسے ختم کردیا ہے۔
جنگ : مرتضی وہاب کے مئیرکراچی بننے پر تجویز دی تھی شہر کے داخلی راستے بس اسٹاب ، ریلوے اسٹیشن اور ائیرپورٹ خاص طور پر اچھا کریں تاکہ آنے والوں کو ابتدا میں ہی خوش گوار احساس ہو۔ بلاول بھٹو سے درخواست ہے کراچی کو فل ٹائم مئیر کی ضرورت ہے انہیں شہر کی ہی خدمت کرنے دیں۔
حسن بخشی : آپ کے کہنے پر مرتضی وہاب نے ڈی جی ایس بی سی اے کو بھیجا تھا انہوں نے سامنے کی بلڈنگوں پر دوبارہ رنگ کرنےکی درخواست کی تھی۔ بڑی مشکل سے ہم نے ان عمارتوں کے مالکان کو ڈھونڈااور اس پر رنگ کروایا اب بڑی شاہراہوں کی بلڈنگوں پر بھی کام کرنے جارہے ہیں ۔فٹ پاتھوںپر تجاوزات کے بجائے شجر کاری کی جائے۔
عارف حبیب : مرتضیٰ وہاب نوجوان اچھا چہرہ ہے وہ شہر کی بہتری کےلیے کوشش کر بھی رہے ہیں، ان کی صلاحیت کا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے ، کراچی کی عوام کو مئیرکراچی کی حمایت کرنی چاہیے ۔ان کی جماعت کی لیڈر شپ کوبھی معلوم ہونا چاہیے مئیر مرتضی وہاب کراچی کی نمائندہ آواز ہے۔ صوبائی حکومت کے وزیروں کو بھی یقین دلانے کی ضرورت ہے ہم عوام کے اجتماعی مفاد میں آپ کے ساتھ ہیں ، آپ کام کریں ہم اس میں مدد کریں گے، مرتضی وہاب کی والدہ مرحومہ فوزیہ وہاب بھی ہرفورم پر کراچی کا مقدمہ بھرپور لڑتی تھیں۔
محسن شیخانی : کراچی کی مئیرشپ ملنا مرتضی وہاب اور پیپلزپارٹی دونوں کے لیے بہترین موقع ہے ۔ وہ کراچی کی کاروباری اور دیگر برادری کے ساتھ مل کر کام کریں ہم پوری معاونت کریں گے۔
حسن بخشی : مرتضی وہاب کے پاس چارسال کا مینڈیٹ ہے وہ اپنی صلاحتیں بروئے کار لائیں اور شہر اور اپنی جماعت کا تاثر بہتر کریں۔