بھارتی سپریم کورٹ نے جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا، حکومت سے تدارک کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر رپورٹ طلب کرلی۔
اٹارنی جنرل تشار مہتا نے عدالت میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ مرکز اور صوبائی حکومتوں نے اس کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
جسٹس شاہ اور جسٹس ہیما کوہلی پر مشتمل بینچ نے مذہب کی جبری تبدیلی پر شدید اظہارِ تشویش کیا۔
عدالت نے کہا کہ ہر ایک کو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مذہب اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہے لیکن جبری طور پر یا کسی کو لالچ دے کر مذہب تدیل کروانا خطرناک عمل ہے جسے فوری روکا جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں غریب شہریوں سے چاول، گندم اور پیسوں کے عوض مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر قبائلی علاقوں میں ایسا کچھ ہو رہا ہے تو مرکز اور صوبائی حکومتیں اسے روکنے کے لیے کیا کر رہی ہیں؟
قبل ازیں ایڈووکیٹ اپدھیف نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی پٹیشن دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران بڑے پیمانے پر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کرسچین مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔