• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ فاطمہ

”کتنے خوش قسمت ہو تم طوطے میاں! سب کی زبان بول سکتے ہواور تمہاری آواز بھی پیاری ہے۔ میری طرح موٹی اور بھدی سی نہیں ہے۔“

کوے نے حسرت سے طوطے کی تعریف کی اور اس کے بعد اپنی برائی کرنے لگا۔

”کوے بھائی! کیا فائدہ میری خوبصورت آواز کا اور سب زبانوں پہ مہارت رکھنے کا؟ جب مجھے انسانوں نے قید کر کے ہی رکھنا ہے، میرا جڑواں بھائی مٹھو جسے بچپن میں ہی مجھ سے جدا کردیا گیا، مجھے آج بھی بہت یاد آتا ہے۔‘‘ طوطے میاں کی آواز دکھ سے بھرا گئی۔

قریب ہی گھونسلے میں بیٹھی مینا ان کی باتیں سن کر اُڑ کر اُن کے پاس آگئی۔ ”طوطے بھائی! اداس نہیں ہو ، تمھارا بھائی جہاں بھی ہو گا ان شاء اللہ خوش ہو گا۔ اللہ‎ پاک نے چاہا تو تم دونوں بھائی ضرور ملو گے، دل چھوٹا نہ کرواور کوے میاں اللہ‎ کی بنائی ہوئی کسی چیز کو برا نہیں کہتے تم اس طرح بول کر ناشکری مت کرو۔“ مینا نے کوے کو مخاطب کیا ہی تھا کہ کوے نے غصّے سے کہا۔”جاؤ جاؤ تم ،آئی بڑی مجھے سمجھانے والی، ہو کیا تم؟ اپنے بچوں کی حفاظت توکر نہیں سکی اور مجھے سمجھانے آ گئی ہو۔“ مینا جو پہلے ہی اپنے بچوں کو یاد کرکے غمگین تھی، کوے کی بات سن کر مزید اداس ہو گئی اور خاموشی سے اپنے گھونسلے میں جا کر بیٹھ گئی۔

دراصل ہوا یہ تھا کہ مینا اپنے بچوں، چُنوں اور مُنوں کےلیے کھانے پینے کا سامان لینے گئی، تب ہی ان بچوں کے پاس کبوتر آیا اور ان کو مینا سے بد ظن کرنے لگا۔

”دیکھو چُنوں مُنوں تم لوگ اب بڑے ہو گئے ہو، اڑنا بولنا ،چلنا، پھرنا سب سیکھ چکے ہو، اس گھونسلے سے باہر نکل کر کبھی باہر کا بھی نظارہ کرو، کتنا حسن بکھرا پڑا ہے قدرت کا، اپنی آنکھوں سے دیکھو، مینا تو چاہتی یہ ہے تم لوگ بس گھر میں رہو ۔“کبوتر نے بہت ہوشیاری کے ساتھ دونوں کو اپنی باتوں میں پھنسا لیا، جب اس نے دیکھا چُنوں مُنوں کے چہرے اس کی بات سے اتفاق کرتے نظر آ رہے ہیں تو اس نےکہا،” تم دونوں مینا سے کیسے کھلی ہوا میں گھومنے پھرنے کی اجازت لیتے ہو؟ یہ تم دونوں کا کام ہے ،میں تو چلا کسی باغ کی سیر کرنے۔“چنو ،منو گہری سوچ میں گم ہوگئے۔

مینا جب تھکی ہاری گھر آئی تو چُنوں مُنوں پہلے کی طرح سلام دعا کرنے کے بجائے منہ بنا کر بیٹھے رہے۔ مینا حیران ہوئی، چونکی تب جب دونوں نے کھانا کھانے سے بھی انکار کردیا اور باہر جانے کی رٹ لگا لی۔ مینا بہت پریشان ہوئی۔اس نے کہا،”دیکھو بچو! تم ابھی چھوٹے اور نا سمجھ ہو جب تھوڑے بڑےا ور سمجھدار ہو جاؤ گے میں خود تم لوگوں کو گُھمانے لے جاؤں گی، ابھی آؤ اور کھانا کھا لو۔“مینا نے محبت سے کہا مگر، چُنوں مُنوں اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔

”ہم اکیلے جائیں گے گُھومنے پھرنے اور کھانا بھی باہر سے کھا کر آئیں گے، نہیں تو ہم کھانا بھی نہیں کھائیں گے۔“دونوں نے یک زبان ہو کر کہا۔

بچوں کی ضد دیکھ کر مینا کو اجازت دینی ہی پڑی۔”ٹھیک ہے چلے جاؤ لیکن زیادہ دور نہ جانا۔ یہ نہ ہو کہ واپسی پہ گھر کا رستہ بھول جاؤ۔“مینا نے ہدایت دی۔چُنوں مُنوں نے ماں کی بات نظر انداز کی اور خُوشی خُوشی اپنے پنکھ ہلا تے باہر کی راہ لی۔ گُھومتے پھرتے دونوں گھر کا رستہ بھول گئے۔اسی پریشانی میں گُم اندھیرے میں ادھر ادھر بھٹک رہے تھے ۔”چنوں بھائی! اب ہم گھر کیسے جائیں گے؟ امی نے ہمیں منع بھی کیا تھا، کاش ہم ان کی بات مان لیتے۔ وہ بھی کتنی پریشان ہو رہی ہوں گی۔“منوں نے روتے ہوئے کہا۔

”وہ دیکھو سامنے کوئی گھر ہے ،جہاں سے روشنی نظر آ رہی ہے۔ ہم رات وہاں گزار لیتے ہیں، صبح ہوتے ہی گھر چلے جائیں گے۔ چلو ہمت کرو۔“چنوں اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولا۔ دونوں اُدھر جا کر ایک جگہ بیٹھ گئے، جب ہی انہیں کسی بچے کی آواز سنائی دی۔”بھائی دیکھو کتنے پیارے چڑیا کے بچے۔“چنوں منوں ان کے گھر آ کر پھنس چکے تھے، انہوں نے ان پر کپڑا پھینک کر دونوں کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا۔

اب انہیں صحیح معنوں میں ماں کی بات نہ مان کر پچھتاوا ہو رہا تھا۔روزانہ طرح طرح کے کھانے ،مشروب کھانے پینے کو ملتے تھے، مگر انہیں ماں کا لایا کھانا یاد آتا۔ وہ دل ہی دل میں روتے اور اللہ‎ سے مدد طلب کرتے کہ ہماری ماں سے ملا دے۔ـ ایک دن طوطے میاں کا ادھر سے گزر ہوا،چُنوںمنوں کو دیکھ کر پہلے وہ حیران پھر خوش ہوا۔ وہ دونوں بھی اسے پہچان گئے تھے۔طوطے میاں کا بھائی بھی اسی گھر میں تھا۔

اُس نے بچے سے کہا” کیوں قید کر رکھا میرے دوستوں اور بھائی کو؟ کیا تم انسانوں کو ترس نہیں آتا ہم جانورں پر؟ جیسے تم لوگ اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے دور نہیں رہ سکتے ایسے ہی ہم پرندے بھی اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ سے پیار کرتے ہیں۔ کیا تمہیں کوئی لے جا کر قید کردے تو تم خوش رہو گے؟مجھے میرا بھائی لوٹا دو اور میرے دوستوں کو بھی چھوڑ دو ان کی ماں بہت پریشان ہے اور میں بھی بہت یاد کرتا ہوں اپنے بھائی کو۔“

طوطے کی بات سن کر بچے نے شرمندہ ہو کر کہا،”مجھے معاف کردو دوست میں اپنی خوشی کے لیے انہیں قید کرلیا۔ میں انہیں ابھی آزاد کردیتا ہوں ۔“یہ کہہ کر بچے نے پنجرہ کھول دیا۔ یوں چُنوں مُنوں اور مٹھو میاں طوطے میاں کے ہم راہ خوشی خوشی اپنےساتھیوں کے پاس لوٹ گئے۔ مینا نے اپنے بچوں کو صحیح سلامت دیکھ کر اللہ‎ کا شکر ادا کیا۔ چنوں اور منوں نے مینا سے معافی مانگی اور دوبارہ ایسی غلطی دہرانے سے توبہ کر لی۔ مینا نے طوطے میاں کا شکریہ ادا کیا اور بچوں کو بھی معاف کر کے گلے لگا لیا۔