جس زمین پر ہم رہتے ہیں یہ ایک عام آدمی کے حجم سے تیس ارب کھرب گنا بڑی ہے اور ہمارا سورج ہماری زمین کے مقابلے 10 لاکھ گنا بڑا ہے۔ ہمارے سورج کے گرد زمین جیسے (شکل صورت میں) آٹھ سیارے گردش کرتے ہیں اور ہر سیارے کے گرد اس کے چاند چکر کاٹتے ہیں۔ یہ سب مل کر ایک نظامِ شمسی بناتے ہیں۔ سورج کا حجم کل نظامِ شمسی کا %99 ہے مگر سورج ہماری کائنات کا سب سے بڑا ستارہ نہیں۔
کائنات میں موجود Etacarine 9 نامی ستارہ ہمارے سورج سے بھی 50 لاکھ گنا بڑا ہے۔ بہت سارے ستارے مل کر کہکشاں بناتے ہیں اور جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں اس کا نام’’ملکی وے کہکشاں ‘‘ ہے اور اس کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے 300 ارب سے زائد ستارے موجود ہیں۔
یہ کہکشاں اتنی بڑی ہے کہ اگر ہم روشنی کی رفتار( یعنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر) سے سفر کریں تو اسے پار کرنے میں ہمیں ایک لاکھ سال لگ جائیں گے ،مگر یہ کہکشاں اتنی بڑی نہیں بلکہ ہماری پڑوسی کہکشاں Andromeda اس سے بھی دوگنی ہے ،مگر کہکشاںIC 1011 کی بات ہی الگ ہے ،یہ ہماری کہکشاں سے 600 گنابڑی ہے ،جس طرح ستارے مل کر کہکشاں بنا تے ہیں اسی طرح بہت ساری کہکشائیں مل کر جھرمٹ ( Cluster )بناتی ہیں اور جس جھرمٹ میں ہماری کہکشاں موجود ہے اسے Vico Cluster کہتے ہیں اور اس میں ہماری کہکشاں جیسی 47 ہزار کہکشائیں موجود ہیں۔
بات یہی ختم نہیں ہوتی جھرمٹ بھی مل کر Super Cluster بناتے ہیں اور جس Super Cluster میں ہم رہتے ہیں اس کا نام Local Super Cluster ہے اور اس میں 100 کے قریب جھرمٹ موجود ہیں۔ اور ہماری دریافت شدہ کائنات میں ایک کروڑ Super Cluster ہیں جو مل کر ایک خوبصورت ساخت بناتے ہیں۔
گو کہ کائنات کو ہم وسیع خلاؤں میں پھیلا ہوا پاتے ہیں لیکن عام طور پر کہی جانے والی خلا کوئی خالی جگہ تو نہیں ہے بلکہ اسپیس یا خلا تو وہ جگہ ہے جو کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں، خلائی چٹانوں جیسے ایسٹرائیڈ یا کومٹس اور مختلف گیسوں اور دھول یا مٹی کے ذرّات سے بنے ہوئے چھوٹے بڑے دلفریب خلائی گرد و گیس کے بادلوں سے بھری پڑی ہے اور ان خلائی بادلوں کو ماہرین فلکیات نیبولا( Nebula )کے نام سے پکارتے ہیں۔
ایک نیبولا میں ایسے عناصر بکثرت موجود ہوتے ہیں جو ستارہ سازی کے لئے بےحد ضروری اور اہم ہوتے ہیں۔ انہیں اگر ستارہ بنانے کی فیکٹریاں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ایک بڑا خلائی بادل یا نیبولا کئی نوری سالوں جتنی طویل جسامت بھی رکھ سکتا ہے۔
اسی وجہ سے ایک اکیلا نیبولا بہت سارے ستاروں کو جنم دے سکتا ہے۔ خلائے بسیط میں دھول کے بادلوں جیسا محو پرواز ایک خلائی بادل یا نیبولا ایٹمز اور مالیکیولز کا ایک گچھا یا گروپ ہی ہوتا ہے۔ان خلائی بادلوں کے لئے ’’نیبولا ‘‘جو کہ لاطینی لفظ ہے ،استعمال کیا جاتا ہے ،جس کے معنی بادل کے ہی ہیں۔ہماری کائنات کا سب سے پہلا اور ابتدائی نیبولا تقریباً 15 ارب سال پہلے بگ بینگ کے بعد ہی تشکیل پایا تھا۔ جو کہ ہائیڈروجن اور ہیلیم ایٹمز سے بنے تھے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم نیبولاز میں سب سے زیادہ اور عام پائی جانے والی سادہ گیسیں ہیں ۔ لہٰذا کائنات میں یہی دو عناصر سب سے کثیر مقدار میں موجود ہیں اور ستاروں کی تشکیل کا یہی لازمی جُز بھی ہیں۔
اس کے علاوہ، ایک نیبولا میں ٹوٹے پھوٹے پرانے ستاروں کے پیچھے رہنے والے ملبے اور کچھ بھاری عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔ کسی بھی نیبولا میں ہر جگہ پر گیسز یکساں کثافت کے ساتھ موجود نہیں ہوتیں اور کثافت کی پیمائش ماہرین کے لئے بےحد اہم ہے، چوں کہ ایک نبیولا میں موجود گیسسز یا ہوا کی کثافت جس قدر زیادہ ہوگی، اتنی ہی زیادہ وہ اس میں کشش ثقل قوتیں پیدا کرنے کی وجہ بنے گی ،چوں کہ گیسز کی زائد مقدار مادہ ان جگہوں پر زیادہ جمع ہوتی جائے گی اور ان ہی جگہوں پر پورا ماحول گیسز کو اور زیادہ دھکیلتا رہتا ہے اور یوں ایک نیبولا میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل چلتا رہتا ہے اور وہ کئی گھنے یا زیادہ کثافت کے بادلوں کے کلسٹر کی صورت تقسیم ہوتا جاتا ہے۔
خلائی بادلوں میں کلسٹر بننے کے اس عمل کو نیبولا کا Gravitational Collapse کہا جاتا ہے، جس کے بعد تیار ہوا ہر ایک چھوٹا جھرمٹ ایک ستارے کا روپ دھار لیتا ہے۔ خلاؤں میں ظہور میں آنے والے ابتدائی ستارے ان جگہوں پر ہی تشکیل پائے تھے جہاں دھول کی کثافت اس قدر زیادہ ہو گئی کہ کشش ثقل کی قوت Gravity نے وہاں موجود ایٹمز کو کھینچ کر ایک دوسرے سے اس قدر نزدیک کر دیا کہ ان کی نزدیکی نیوکلیئر فیوزن عمل انشقاق Nuclear Fusion کے آغاز کی وجہ بن گئی۔
لہٰذا ستاروں کے ظہور میں آنے سے قبل خلاؤں میں بے شمار خلائی بادلوں کے ڈیرے ہی تھے اور اس کے بعد اور زیادہ خلائی بادلوں کی تشکیل تب ہو ئی، جب ستارے سپرنوا Supernova بن کر کر پھٹ پڑے اور ان کے ٹکڑے اور ذرّات ہر جگہ پھیل گئے۔ سپرنووا ہوکر پھٹ پڑے ستاروں کے ملبے سے بنتے نئے خلائی بادلوں میں صرف ہائیڈروجن اور ہیلیم ہی نہیں تھی بلکہ یہ مختلف اقسام کے عناصر جیسے کاربن ، آکسیجن ، نائٹروجن ، سیلیکا ، آئرن اور تھوڑا سا بھاری عنصر جیسے سونے اور یورینیم بھی شامل تھےاور ساتھ ہی نئے خلائی بادلوں کے اندر ، ایٹمز نے مل کرسادہ مالیکیولز جیسے پانی ، شکر اور دیگر ہائیڈرو کاربن کے مالیکیولز بھی تخلیق کیے تھے۔
اس کے بعد ہی امینو ایسڈ Amino Acids جیسے مزید پیچیدہ مالیکیولز کی تشکیل ہوتی چلی گئی اور آخر کار کچھ بادلوں میں دھول کی کثافت اس حد تک بڑھ گئی کہ نئے ستاروں اور پھر ان کے گرد سیاروں کی تشکیل ممکن ہوگئی۔ کائنات آج بھی نیا نیبولا تشکیل دے رہی ہے اور اس کے لئے وہی سپرنواکے ہنر استعمال کرتی ہے۔
یعنی جب بھی کوئی ستارہ سپرنووا یا خلاؤوں میں پھٹتا ہے اور اس کی قریب ترین مثال کریب نیبولا Crab Nebula کی ہے ، جو 1054ء میں تشکیل پایا تھا۔ ان خلائی بادلوں یا نیبولا کا نظارہ کرنے کی خاطر آپ کو شہر سے دور دراز ویران مقام پر تاریک رات میں رہنا پڑے گا۔ جہاں ٹیلی اسکوپ کی مدد کے بغیر بھی آپ ان کو دیکھ سکیں گے۔
اگر آپ ہبل ٹیلی ا سکوپ سے لی گئی ہماری پڑوسی کہکشاں ’’اینڈرومیڈا‘‘ کی تصویر کا مشاہدہ کریں تو آپ کو سمندری ساحلوں پر موجود ریت کے ذرّات جیسا نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن یہ ریت نہیں بلکہ اس میں موجود ہر نکتہ ایک ستارہ ہیں اور اس میں ہر ستارہ دوسرے قریبی ستارے سے کافی فاصلے پر ہے۔ اس میں ہر نکتہ دوسرے نکتے سے اتنا دور ہے کہ ناسا کی جدید ترین ٹیکنالوجی دو نقطوں کے درمیان پائے جانے والا فاصلہ سو سالوں میں بھی طےنہیں کرسکتے۔ یہاں نکتےسے مراد ستارہ ہے۔
یہ کہکشاں ہماری زمین سے 2 ملین نوری سال دوری پر ہے۔ ناسا اسٹرونمرز کا ماننا ہے، کہ اس میں ایک ٹریلین ستارے اور بلین سے زیادہ سیارے موجود ہیں، اس اینڈرومیڈا کہکشاں کی لمبائی 260000 نوری سال ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہے کہ یہ سب سے بڑی کہکشاں ہوگی، تو یقیناً آپ غلط سوچ رہے ہیں، یہ کہکشاں، Alcyneus کہکشاں کے سامنے ایک ریت کی مانند ہے، چوں کہ Alcyneus اس کے مقابلے میں بہت بڑی ہے۔ Alcyneus کہکشاں ہم سے 16.3 ملین نوری سال دوری پر ہیں۔ اگر ہم ایک ایسے اسپس شپ میں بیٹھ جائے جو روشنی کی رفتار سے سفر کررہا ہو، یعنی ’’زمین کے گرد 7 چکر ایک سیکنڈ میں‘‘تو alcyneus کہکشاں کی ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لیے ایک 160 لاکھ سال کا وقت لگے گا۔
اس سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی ہوگی، لیکن یونیورس میں اِس سے بھی بڑی بڑی کہکشاں موجود ہیں۔ اسٹرنگ تھیوری کی مدد سے ہم بگ بینگ کے راز افشا ںکر سکتے ہیں۔ آئن ا سٹائن کے فارمولے عین بگ بینگ کے لمحے پر اور بلیک ہول کے مرکز میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ کائنات کی یہ دو سب سے زیادہ دلچسپ جگہیں ہیں جو آئن ا سٹائن کے فارمولے کی اس کمزوری کی وجہ سے ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ ہمیں اس سے بہتر نظریے کی ضرورت ہے اور اسٹرنگ تھیوری یہ ضرورت پوری کر سکتی ہے۔
اسٹرنگ تھیوری ہمیں بگ بینگ سے پہلے کے حالات کے بارے میں بتاسکتی ہے، جس سے ہم کائنات کی تخلیق کے محرکات سمجھ سکتے ہیں۔ اسٹرنگ تھیوری کا دعویٰ ہے کہ ہماری کائنات اکیلی نہیں ہے بلکہ ایک ملٹی ورس کا حصہ ہے، جس میں کھربوں اور کائناتیں بھی موجود ہیں۔ بگ بینگ کیسے ہوا؟ آئن ا سٹائن کی مساوات ہمیں یہ بتلاتی ہیں کہ ہم گویا ایک کیڑے کی مانند ہیں جو صابن کے ایک ایسے بلبلے پر ہے جو پھیل رہا ہے۔ یہ بگ بینگ تھیوری کا لبِ لباب ہے۔ا سٹرنگ تھیوری ہمیں بتلاتی ہے کہ اس قسم کے بہت سے اور بلبلے بھی ملٹی ورس میں موجود ہیں۔ ہر بلبلہ ایک کائنات ہے۔ جب دو بلبلے آپس میں ٹکراتے ہیں تو ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے۔
جب ایک بلبلہ دو بلبلوں میں تقسیم ہوتا ہے تو ایک کائنات دو کائناتوں میں بٹ جاتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بگ بینگ یا تو دو کائناتوں کے ضم ہونے سے وجود میں آیا اور یا پھر ایک کائنات کے دو کائناتوں میں تقسیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ اگر تین سے زیادہ سمتیں یا جہتیں (جنہیں انگریزی میں ڈایمنشنز کہا جاتا ہے) موجود ہیں۔ ورم ہولز محض ایک مفروضہ نہیں ہیں بلکہ یہ آئن ا سٹائن کی مساوات کا ایک حقیقی حل ہے۔ اسٹرنگ تھیوری بھی ورم ہولز کی پیش گوئی کرتی ہے۔کیا ورم ہولز میں سے گذرنا عملی طور پر ممکن ہے؟ ہمیں فی الحال اس کا علم نہیں ہے۔
ماہرین کے درمیان یہ بحث عروج پر ہے کہ کیا انسان ورم ہول سے گذر کر کسی دوسری کائنات میں جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو پھر ورم ہولز کو ٹائم مشین کے طور پر استعمال کرنا ممکن ہوگا۔ چوں کہ اسٹرنگ تھیوری کائنات اور ملٹی ورس کی ہر چیز کے بارے میں ہے۔ اس لیے یہ تھیوری وقت کے بارے میں بھی ہے۔ آئن ا سٹائن کی مساوات کی رو سے اصولاً ٹائم مشین بنانا ممکن ہے لیکن عملاً اسے بنانا بے انتہا مشکل ہے۔
ایسا کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہے جو ڈیلوریم اور پلوٹونیم سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب سے کھربوں سالوں بعد کائنات بے انتہا سرد ہوجائے گی ہمارا خیال ہے کہ کائنات کا مستقبل ہر چیز کا جم جانا ہے جسے ’’بگ فریز ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس وقت تمام ستارے ختم ہوجائیں گے اور کائنات بے انتہا وسیع اور بے انتہا سرد ہوجائے گی۔