• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:طلعت گل۔۔۔۔۔لندن
ہماری اس جگمگاتی اور دوڑتی بھاگتی دنیا میں دماغی صحت کے مسائل بہت عام ہو چکے ، ذہنی صحت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی دماغی صحت لیکن شعور کی کمی کے باعث ذہنی صحت کے مسائل سنگین ہوتے چلے جا رہے ہیں بڑے شہروںمیں لوگ کسی نہ کسی حد تک لوگ دماغی صحت کے بارے میں جانتے ہیں مگر چھوٹے شہروں اور گائوں میں اس بارے میں بالکل آگاہی نہیں ہے، دماغی صحت انسانی زندگی کے اہم ترین پہلوئوں میں سے ایک ہے ،دماغی صحت مجموعی صحت کا ایک لازمی حصہ ہے، دماغی صحت پاگل پن ہرگز نہیں کیونکہ ہم جب بھی دماغی صحت کی بات کرتے ہیں تو یہ اکثر پاگل پن میں الجھ جاتا ہے، دماغی صحت صرف مخصوص دماغی بیماریوں کے بارے میں نہیں بلکہ یہ زندگی کے رویوں، نفسیاتی اور سماجی پہلوئوں کے بارے میں ہے۔ دراصل دماغی بیماریاں اور ان سے جڑے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں کہ اس پر بہت زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہے دنیا کو لوگوں کو ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے، دماغی بیماری یا خرابی کے پیچھے بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں ،یہ خرابی مورثی، سماجی، معاشی یا ذاتی وجوہات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں، یہ ماحولیاتی مسائل،کشیدگی کے واقعات صنفی اور نسلی امتیاز، والدین کے خراب تعلقات اوربہت سے دیگر عوامل بھی ہوسکتے ہیں،دماغی صحت کے زیادہ تر مسائل کئی عوامل کا مجموعہ ہوتے ہیں بچوںمیں زیادہ تر دماغی مسائل کا تعلق حاملہ ماں کی صحت سے ہے، حاملہ ماں کی ذہنی و جسمانی کمزوری کم یا یا ناکافی خوراک، زچگی کے دوران مالی پریشانیاں، حاملہ ماں کی جسمانی بیماریاں، ماں کا منشیات یا الکحل کا استعمال، وقت سے پہلے بچے کی پیدائش ذہنی و جسمانی تشدد وغیرہ اس کے اسباب ہو سکتے ہیں، پاکستان اس وقت دماغی بیماریوں کے مریضوں کے حوالے سے ساتویں نمبر پر ہے مگر ان بیماریوں پرتحقیق اور آگاہی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم اور شعور کی کمی ہے، بچوں میں دماغی اور جسمانی بیماریوںکی سب سے بڑی وجہ کزنز کے درمیان شادیاں ہیں مگر اس کے باوجود وہاں باہمی شادیوں پر زور دیا جاتا ہے۔ اگر ان کو اس معاملے میں کوئی آگاہی دی جائے تو اس کو مغرب کی سازش قرار دے دیا جاتا ہے صرف اس سوچ کی وجہ سے پاکستان میں پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا کیونکہ پولیو کے قطرے پلانے کے حوالے سے مذہبی حلقوں نے جان بوجھ کر یہ پروپیگنڈہ پھیلایا کے پولیو کے قطے خاندانی منصوبہ بندی یا بچے کم پیدا کرنے کا سبب بنے گی اسی طرح ہم نے دیکھا کرونا ویکسین کے حوالے سے ایسی ہی گمراہ کن افواہیں پھیلائی گئی اورسیکڑوں لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں رائج توہم پرستی، کم اعتقادی اور مذہب کے غلط استعمال نے ان مسائل کو بڑھایا ہے، والدین میں تعلیم اور شعورکی کمی تو ایک وجہ ہے ہی مگر بہت سے پڑھے لکھے والدین بھی ان مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی فرد یابچے کی معمولی ذہنی کمزوری ایک مستقل بیماری کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اس میں سب سے خطرناک صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ کسی بھی شخص کے علاج معالجے کے بجائے تعویز گنڈا اور جادو ٹونے کاسہارا لیتےہیں، اس سے کسی بھی شخص یا بچے کی بیماری مزید بگڑ جاتی ہے، والدین کو چاہئے اگروہ اپنے بچے میں کوئی بھی غیر معمولی چیز دیکھیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں، خاص کر کم عمر بچے اگر وقت پر چل نہیں رہے، بول نہیں رہے،معمول سے ہٹ کر کھاتے ہیں یا کسی بھی جارحانہ ردعمل کا مظاہرہ کریں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ دماغی بیماریوں کی بروقت تشخیص ازحد ضروری ہے کیونکہ پاکستان اور اس جیسے قدامت پسند اور کم ترقی یافتہ ممالک میں ڈاکٹر کے بجائے دم درود اور تعویزوں کو ترجیح دی جاتی ہے جس سے یہ بیماریاں مزید بگڑ جاتی ہیں۔
یورپ سے سے مزید