• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابطے، ملاقاتیں اور حکمت عملی کی نشستیں، اسلام آباد پھر سیاسی مرکز

اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) وفاقی دارالحکومت ایک مرتبہ پھر سیاسی سرگرمیوں رابطوں، ملاقاتوں اور مشاورتی نشستوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس مرتبہ ان تمام سرگرمیوں کا مرکز اسلام آباد میں بلاول ہاؤس ہے اور محور سابق صدر آصف علی زرداری جو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں اور یہ تمام سرگرمیاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں سے بھی باہر نکلنے کے اعلان کے بعد اسی تناظرمیں ہیں۔

اطلاعات کے مطابق حکومت جو عمران خان کے اس اعلان کو ’’بلف کھیلنے ‘‘ سے تعبیر کر رہی ہے اور بلاول بھٹو نے تو کراچی میں ہونے والے اپنی پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے میں دعویٰ کر دیا ہے کہ عمران خان کسی صورت بھی اپنے اس اعلان پر فیصلہ نہیں کریں گے جبکہ حکومت نے پھر بھی فیصلہ کیا کہ وہ عمران خان کی ’’بلف کال‘‘ کو انجام تک پہنچائیں گے

 وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی اپنا یہ فیصلہ سنا چکے ہیں کہ’’ الیکشن وقت مقررہ پر ہی ہوں گے‘‘ اطلاعات کے مطابق مشاورت کے بعد اس صورتحال میں ذمہ داری آصف علی زرداری کو دی گئی ہے کہ وہ معاملہ فہمی، مہارت اس حوالے سے اپنی سیاسی بصیرت اور ماضی کے تجربے کی روشنی میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک، جوڑ توڑ، ارکان کو مائل کرنے کا سلسلہ کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے جس کیلئے بلاول ہاؤس میں تیاریاں اور حکمت عملی وضع کی جارہی ہے۔

عمران خان کی جانب سے حکومت کو عدم اعتماد کا شکار کرنے کیلئے اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان پر وزیراعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جو لندن واپس پہنچ چکے ہیں کہ درمیان فون پر رابطوں کی اطلاعات بھی ہیں جن میں آصف علی زرداری نے اسی حوالے سے اپنے لاہور مشن کے بارے میں بھی ان سے تبادلہ خیال کیا

جس کے بعد اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ وزراء نے بلاول ہاؤس میں آصف علی زرداری سے مشاورت کی تاہم فی الوقت پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں عدم موجودگی کے باعث اس منظر میں شامل نہیں ہیں اس طرح عمران خان کی جانب سے کئے جانے والے اعلان کے بعد ملک میں ایک بار پھر صورتحال سیاسی اضطراب کا شکار ہوتی آرہی ہے حالانکہ توقعات اور امیدیںبھی یہی تھیں اور قیاس بھی یہی کیا جارہا تھا کہ پاک فوج میں اہم تقرریوں کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد تلاطم خیز گرادب میں پھنسی ہوئی سیاسی صورتحال یں ٹھہراؤ آجائے گا.

 ملک میں بے یقینی اور سیاسی بداعتمادی کی فضا پر کئی ماہ سے چھائے ہوئے بادل چھٹ جائیں گے اور تقریباً نو ماہ بعد وقت مقررہ پر ہونے والے انتخابات سے قبل حکومت اور حکومت کے مخالفین الیکشن میں اپنی اپنی کامیابیوں کیلئے مثبت انداز میں سرگرمیوں کی طرف بھرپور توجہ میں مصروف ہوجائیں گے لیکن ؎ اسے بس آرزو کہ خاک شدہ کہ مصداق ایسا ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

اہم خبریں سے مزید