آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے تحت منعقدہ پندرہویں عالمی اُردو کانفرنس کے موقع پر چار روز تک میلے کا سماں رہا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مداح اپنے پسندیدہ شاعروں، ادیبوں اور فن کاروں کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ دُنیا کے مختلف ممالک سمیت ملک بھر میں عالمی اُردو کانفرنس کے چرچے رہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سربراہ احمد شاہ، جنرل سیکرٹری پروفیسر اعجاز فاروقی اور گورننگ باڈی کے اراکین کی دن رات کی کاوشوں سے اُردو کا میلہ شان دار انداز میں کام یاب رہا۔ اُردو کانفرنس کے پہلے روز سے آخری دن تک شوبزنس سے تعلق رکھنے والے فن کاروں نے اپنی عمدہ پرفارمینس سے شرکاء کو بے حد لطف اندوز کیا۔
پہلے روز ممتاز فن کارضیاء محی الدین نے اپنی روایتی پرفارمینس سے سب کے دل جیت لیے تھے، تو رات میں’’ قوالی نائٹ‘‘ نے رنگ جمایا۔ قوالی آہنگ خسروی میں کوک اسٹوڈیو سے شہرت حاصل کرنے والے نامور قوال ایاز فرید اور ابو محمد فرید قوال نے صُوفیانہ اور عارفانہ کلام پیش کرکے حاضرین کی سماعتوں میں رس گھولا۔ انہوں نے اُردو کلام کم، جب کہ فارسی کلام زیادہ پیش کیا۔ کانفرنس کے آخری روز شوبزنس شخصیات نے شان دار رنگ جمایا۔ ’’اکیسویں صدی میں فنون کی صورتِ حال‘‘ کے سیشن میں ریڈیو، تھیڑ، ٹی وی، فلم اور موسیقی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
امریکا سے تشریف لانے والی ٹیلی ویژن ڈراموں کی مقبول اداکارہ نیلوفر عباسی نے ٹیلی ویژن ڈراموں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاکستانی ڈرامے ’’ساس بہو کی لڑائی‘‘ سے باہر نہیں آرہے ہیں۔ ہمیں ماضی کے ڈراموں کی طرح اچھے موضوع پر ڈرامے بنانے ہوں گے۔ عالمی اُردو کانفرنس میں جیو ٹی وی سے وابستہ شخصیات اور اینکر حامد میر، سہیل وڑائچ اور عبداللہ سلطان بھی حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ مداحوں نے ان کے ساتھ خُوب سلفیاں بنوائیں، حسب روایت اختتامی سیشن میں عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار، اسکالر اور کمپیئر انور مقصود نے خُوب رنگ جمایا۔
انہوں نے پاکستان کے 75برس کی صورتِ حال پر عمدہ گفتگو کی اور اپنے کاٹ دار جملوں سے سب کو محظوظ کیا۔ انہوں نے ’’اکیسویں صدی کا پاکستان‘‘ کے حوالے سے مخصوص دل چسپ انداز میں کہا کہ آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے جتنے بڑے بڑے کام کیے، اس کے لیے انہیں تمغہ امتیاز کی ضرورت نہیں تھی، یہ تمغے تو اس سے کہیں کم تر کاموں پر بھی مل جاتے ہیں، احمد شاہ اس بے ادبی کے دور میں علم و ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، پاکستان میں غریب، حکم رانوں سے کہتے ہیں ،ہمیں بدنام نہ کریں، باہر جا کر اپنے لیے مانگیں، پہلے عالمی اردو کانفرنس میں ہندوستان سے شاعر اور ادیب آتے تھے، اب وہاں سے صرف دھمکیاں آرہی ہیں، پاکستان میں بہت غربت اور بدحالی ہے، کسی کو احساس ہی نہیں ہم کیا کر رہے ہیں، پاکستان کی فلم 75 برسوں سے بن رہی ہے، اس کا ہدایت کار پنجاب ہے، جب کہ اس کی شوٹنگ بلوچستان میں ہوتی ہے۔
احمد شاہ صاحب کہتے ہیں میں لوگوں کو اپنی باتوں سے خُوش کروں، میں کہتا ہوں، یہ حکومت کا کام ہے، مجھ سے کیوں کرواتے ہیں۔ اس موقع پرگورنر سندھ کامران خان ٹیسوری بھی انور مقصود کے شگفتہ جملوں پر بھرپور داد دیتے دکھائی دیے۔ اجلاس سے قبل سندھی کلچر ڈے کی مناسبت سے سندھ کی روایتی موسیقی بھی پیش کی گئی، جس کے دوران پُر جوش شائقین نے مقبول سندھی گیتوں کی دُھنوں پر رقص کیا اور سندھ کلچرل ڈے منایا۔
بعدازاں’’رقص کا سفر‘‘ نامی پروگرام شروع ہوا،جس میں معروف رقاص وہاب شاہ، عبدالغنی گروپ، خرم تال گروپ اور مانی چائو گروپ نے موسیقی کی دُھنوں پر اعضاء کی شاعری پیش کی۔ اس موقع پر صدر احمد شاہ نے وضاحت پیش کی کہ یہ رقص کی محفل ہے، کوئی مُجرا نہیں ہے۔ رقص کے سفر کے بعد موسیقی کا سفر شروع ہوا، جس میں نامور کلاسیکل گائیک استاد حامد علی خان نے آواز کا جادو جگایا۔
انہوں نے میر تقی میر کی غزلوں اپنی مدھر آواز میں پیش کی توحاضرین واہ واہ کی صورت داد دینے لگے۔ انہوں نے مختلف فوک گیتوں سمیت پٹیالہ گھرانے کی مشہور موسیقی سے رنگ جمایا۔ عالمی اردو کانفرنس کے اختتام بھی اسی محفل موسیقی پر رات گئے ہوا۔ اس طرح پندرہویں عالمی اُردو کانفرنس کا چار روزہ میلہ شاعری، موسیقی اور رقص کے خُوب صورت رنگ بکھیرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ آخری روز چوں کہ سندھ کا ثقافتی دِن بھی تھا، اس وجہ سے تمام مندوبین کو اَجرکیں بھی پیش کی گئیں۔
پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز ”اختتامی اجلاس“ کے مہمان خصوصی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری تھے، جب کہ اسٹیج پرکمشنر کراچی محمد اقبال میمن، سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسراعجاز فاروقی اور گورننگ باڈی کے دیگر اراکین سمیت معروف شاعر، ادیب اور دیگر نمایاں شخصیات بھی موجود تھیں، اجلاس سے گورنر سندھ اور سہیل وڑائچ نے بھی خطاب کیا، اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر ہما میر نے پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کا مختصر جائزہ پیش کیا اور کانفرنس کی شان دار کام یابی پر محمد احمد شاہ اوران کی ٹیم کو مبارک باد پیش کی، اس موقع پر اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے 14 قراردادیں پیش کی گئیں، جن کی حاضرین نے ہاتھ کھڑا کر کے منظوری دی۔
قبل ازیں اختتامی اجلاس میں ’’اکیسویں صدی میں فنون کی صورت حال“ پر سیشن کا انعقاد ہوا، جس میں عکسی مفتی، اسٹیفن ایم لیون، معروف اداکارہ نیلوفر عباسی، بی گل، شاہد رسام، اداکارخالد احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جب کہ نظامت کے فرائض کیف غزنوی نے ادا کیے۔ معروف افسانہ نگار و شاعر عکسی مفتی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے جدید دور میں ہمیں 5th جنریشن وار کا مقابلہ کرنا ہوگا، اپنی ثقافت و روایات کو برقرار رکھنے کے لیے ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی دھرتی، لباس، زبان اور ثقافت کو پیار کرنے سے ہم ایک قوم بن سکتے ہیں، کیوں کہ پچیس سال کے دوران آگے بڑھنے کے شوق میں ہماری ثقافت، موسیقی، آرٹ، تعمیرات اور دست کاری کا فن پیچھے رہ گیا ہے، ساز مرتے جارہے ہیں، جوکہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے، جس کے قصور وار ہم سب ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث ہم خطرات میں مبتلا ہوگئے اور اس کے ہم سب قصور وار ہیں، لہٰذا ماضی کی ثقافت اور آرٹ کو بچانے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار بہ خوبی ادا کرنا ہوگا۔ عکسی مفتی نے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو کام یابی سے ہم کنار ہونے والی عالمی اردو کانفرنس پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد سے اردو ادب کی مختلف جہتوں پر گفتگو کا شان دار موقع میسر آیا۔
معروف آرٹسٹ و مجسمہ ساز شاہد رسام نے کہا کہ ہم موجودہ زمانے میں بھیڑ چال کی وجہ سے اپنا ماضی بُھولتے جارہے ہیں، مگر نشیب و فراز کے باوجود ہم سب کو آگے کی جانب بڑھنا ہوگا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں فائن آرٹ تنزلی کی جانب نہیں، بلکہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ منفی رجحان کے بجائے مثبت رجحان کو اجاگر کرے۔
اس موقع پر بی گل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں فنون کی صورت حال تبدیل ہوگئی ہے، سوشل میڈیا نے فنون پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن اس کے باوجود ٹیلی ویژن کی اپنی اہمیت برقرار ہے، کیوں کہ پاکستان کے 65 فی صد علاقوں میں پاکستان ٹیلی ویژن رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی ٹیلی ویژن کا ختم ہوجانا ایک المیہ ہے، اگر ہم علاقائی میڈیا کو بحال رکھتے تو آج جن رجحانات سے سابقہ ہے، وہ نہیں ہوتا، کیوں کہ علاقائی میڈیا پاکستانی عوام کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔
ماضی کے سپر ہٹ ڈراموں کی معروف اداکارہ نیلوفر عباسی نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب چیزیں بدل جاتی ہیں اور توقع ہے کہ اگلے دس برس میں مزید تیزی سے تبدیلیاں آئیں گی، لہٰذا ہمیں مستقبل قریب میں آنے والی تبدیلیوں کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوگا۔ اسٹیفن ایم لیون نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں فنون کی تمام اصناف پر تبدیلیاں ضرور آئی ہیں، اس کے نقصانات اپنی جگہ ہیں، مگر جدید ٹیکنالوجی کے باعث ہمارے غم اور خوشیاں ایک دوسرے کے لیے مشترکہ ہوگئےہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلوبل میڈیا کے دورمیں ایک بڑا تضاد سامنے آیا ہے کہ وہ باتیں جو شہروں میں قابل توجہ نہیں ہوتیں، وہ دیہاتوں میں معیوب سمجھی جاتی ہیں۔
خالد احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فنون میں تبدیلیوں کے باوجود یہ کہنا غلط ہوگا کہ آرٹ جوانوں، بوڑھوں اور بزرگوں کے لوگوں کے لیے مختلف ہوتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آرٹس عمروں کی تخلیق سے بالاتر اور یکساں ہوتا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے تحت منعقدہ پندرہویں عالمی اُردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور اختتامی اجلاس میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے شرکت کی۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات دیکھنے میں آئے۔