• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں امن و امان کی صورت حال پر اگر بات کی جائے تو 90 کی دہائی میں صورت حال بہت زیادہ خراب تھی، چوری ڈکیتی لوٹ مار خاص طور پر اغوا برائے تاوان کی مختلف اضلاع کچے کے علاقوں میں متعدد انڈسٹریاں قائم تھیں، حیدر آباد سے کشمور اور گھوٹکی تک مختلف اضلاع جن میں دادو، خیرپور ،لاڑکانہ گھوٹکی جیکب آباد شکارپور کشمور خاص طور پر ان اضلاع میں شامل تھے، جہاں رات میں یا مغرب کے بعد سفر انتہائی مشکل تھا اور مسافر یا مال بردار گاڑیوں کے لیے رات کو پولیس کا کانوائے گاڑیوں کے ساتھ چلتاتھااور اغوا برائے تاوان کی فزیکل وارداتیں انجام دی جاتی تھیں۔ 

مسلح ڈاکو مختلف شاہ راہوں اور علاقوں سے لوگوں کو اغوا کرکے کچے میں لے جاتے تھے اور امن و امان کی اس خراب صورت حال کو بہتر بنانے میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور قیادت نے جو کام کیا، وہ قابل تحسین ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے سندھ میں قیامِ امن کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر دیرپا اقدامات کیے، جب کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں دادو، مورو پل قاضی احمد اور سیہون کے درمیان آمری پل خیرپور لاڑکانہ کے درمیان پل تعمیر ہونے اور کچے کے جنگلات میں آپریشن کئے گئے، جس کے بعد سندھ میں گزشتہ کئی سالوں سے ایسی فضا قائم ہوئی ہے کہ شہری 24 گھنٹے رات کے کسی بھی پہر کسی بھی علاقے میں باآسانی بلا خوف و خطر سفر کرسکتے ہیں۔ 

اس مثالی امن و امان کا سہرا پیپلزپارٹی کی قیادت خاص طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کے سر جاتا ہے۔ تاہم سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن آج بھی امن و امان کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں اور خاص طور پر کشمور سے گھوٹکی تک کچے کا جو دریائی سرکل ہے۔ یہ پولیس کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، یہ سرکل ڈاکوؤں کے لیے محفوظ اور پولیس کے مشکل ہونے کے باعث اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری کا روپ اختیار کرگیا ہے، بلاشبہ شہری علاقوں میں ان اضلاع میں پولیس کی گرفت مضبوط ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکو اب اغوا کی فزیکل وارداتیں کم اور نسوانی آواز میں دوستی کا جھانسہ دے کر ملنے، شادی دعوت کے بہانے بلا کر اغوا کرلیتے ہیں، مغوی خود اپنی خوشی اور خاموشی سے ڈاکوؤں کے پاس پہنچ جاتا ہے اور اس خطرناک کچے میں سیکڑوں نہیں ہزاروں افراد ڈاکوؤں کا شکار بن چکے ہیں اور یہ کچے کا خطرناک علاقہ یہاں موجود ڈاکوؤں کی بڑی تعداد پولیس کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ 

سندھ کے مختلف اضلاع میں اغوا برائے تاوان کی سنگین وارداتیں، گزشتہ کئی سالوں میں امن وامان کی خراب صورت حال کو مکمل طور پر کنٹرول نہ کرنا، جرائم کی وارداتیں خاص طور پر اغوا برائے تاوان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وارداتیں اور پولیس پر ڈاکووؤں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف سخت اور فیصلہ کن آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس آپریشن میں انتہائی جدید اسلحہ استعمال کیا جائے گا۔

اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور پولیس کیمپ پر حملے کا سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی سختی سے نوٹس لیا اور اس حوالے سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو ضروری ہدایات دی ہیں، جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کے حکم کے بعد آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے حکمت عملی بنانے پر کام شروع کردیا ہے، ابتدائی طور پر دو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جس میں ایک ٹیم ڈی آئی جی سیکیورٹی مقصود میمن، ڈی آئی جی آئی ٹی پرویز چانڈیو، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر، ڈی آئی جی اسٹیمبلشمنٹ اور ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو پر مشتمل ہے، جو اس سلسلے میں گزشتہ کئی روز سے مشاورت میں مصروف عمل ہے ، جس میں آپریشن کے لیے حکمت عملی پر غور کیا گیا ہے، جب کہ جدید اسلحہ خریدنے کے لیے کراچی میں لگائی گئی اسلحہ کی نمائش آئیڈیاز 2022 کا دورہ کر کے اسلحہ کا جائزہ لیا گیا اور اہم افسران کے اجلاس بھی منعقد کئے گئے ہیں۔ 

اجلاس میں گزشتہ کافی عرصے کے دوران شکارپور، کشمور، گھوٹکی، سکھر اور خیرپور اضلاع میں ڈاکوؤں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں ملنے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ کی ہدایات پر ایک ٹیم ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے، جس میں ڈی آئی جی حیدر آباد پیر محمد شاہ، ایس ایس پی حیدر آباد امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی کشمور زبیر شیخ اے آئی جی لاجسٹک ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکیشن سمیت بعض دیگر افسران شامل ہیں کمیٹی نے آپریشنل ضروریات، اے پی سی کو ری ماڈل اور جدید طرز پر بنانے ڈرون ٹیکنالوجی جدید اور ممنوعہ اور دور تک مار کرنے والے ہتھیار پولیس کو فراہم کرنے اور کچے کے ان تین اضلاع میں کچے اور پکے روڈ راستے بنانے، پولیس نفری میں اضافہ، اور پولیس کمانڈوز نشانہ باز نائٹ وژن کیمرے دوربینوں سمیت جو بھی آپریشنل ضروریات ہیں اور کچے کے ان اضلاع میں مکمل طور پر قیام امن کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے تجاویز مرتب کرکے آئی جی سندھ کو پیش کی ہیں، جس کے بعد آئی جی سندھ ان سفارشات پر وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے مشاورت کریں گے اور ان سفارشات کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے گا، تاکہ پنجاب اور بلوچستان سے ملحقہ سندھ کے ان تینوں اضلاع میں بیک وقت آپریشن شروع کیا جاسکے، رپورٹ میں ایس ایس پی حیدرآباد امجد احمد شیخ کی آپریشن میں خدمات حاصل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، کیوں کہ امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو پر مشتمل کشمور اور شکارپور میں ڈاکووں کے خلاف کام یاب آپریشن میں بدنام زمانہ ڈاکوؤں سمیت درجنوں ڈاکو مارے گئے تھے۔

حکومت اور پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف ابتدائی طور پر شکارپور، کشمور اور گھوٹکی اضلاع کے کچے کے علاقوں میں آپریشن کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے پولیس کو ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کو کام یاب بنانے اور ان کی مکمل سرکوبی کے لیے جدید اسلحہ اور انٹیلی جنس ٓالات خریدنے کے لیے پانچ ارب روپے دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

جدید اسلحہ اور سازو سامان کی خریداری کے لیے پاک فوج کی ٹیکنیکل مدد بھی لی جائے گی، ذرائع کے مطابق جدید اسلحہ کے ساتھ جدید طرز کی ڈرون ٹیکنالوجی بھی حاصل کی جائے گی، یہ ڈرون اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں مہارت رہتے ہیں، جب کہ آپریشن میں ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے تین کلو میٹر تک مار کرنے والے اسنائیپر رائیفل بھی خریدی گئی ہیں اور رات کی اندھیرے میں دو کلو میٹرز کے فاصلے پر ٹارگٹ کو نظر میں رکھنے کی صلاحیت رکھنے والا تھرمل امیجنگ ڈیوائیز، نائیٹ ویژن ٹیلی اسکوپ کی بھی خریداری کی جائے گی، جب کہ چین کی بکتربند اے پی سی کے اوپر لگانے کے لیے جدید آٹومیٹک مشین گنز بھی خرید کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وہ مشین گن ملک کے سیکیورٹی اہل کاروں کے زیر استعمال بھی ہے اور اس ملک میں تیار ہوئی ہے۔ 

اس مشین گن میں یہ صلاحیت ہے کہ جس بھی طرف سے جرائم پیشہ افراد کی جانب سے گولی چلائی جائے گی، اس چلنے والی گولی کی آواز کو کیچ کر کے مشین گن فوری طور پر اس جانب اپنا رخ موڑ کر آٹومیٹک فائرنگ شروع کردے گی۔ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کو مکمل کرنے کے لیے چھ ماہ کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔ 

چھ ماہ کے اندر مذکورہ اضلاع میں آپریشن مکمل کیا جائے گا، آپریشن کی کام یابی کے لیے جدید اسلحہ کا مزید استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جب کہ سندھ کے مختلف اضلاع سکھر، شکارپور، گھوٹکی، کشمور، جیکب آباد، خیرپور، لاڑکانہ، نوشہروفیروز، قمبر شہداد کوٹ، دادو، نواب شاہ ، سانگھڑ اور دیگر اضلاع کے انتہائی خطرناک اور بدنام 350 ڈاکوؤں کے سروں پر پولیس کی جانب سے 2 ارب روپے انعام رکھنے کی سفارش کی سمری محکمہ داخلہ سندھ نے منظور کرتے ہوئے حتمی منظوری کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو بھیج دی ہے۔ 

وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے منظوری کے بعد 350 خطرناک ڈاکوؤں پر 2 ارب روپے انعام رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، گھوٹکی میں ڈاکوؤں کے حملے میں پولیس افسران اور جوانوں کی شہادت کے بعد ایس ایس پی حیدرآباد امجد احمد شیخ نے ڈاکووں کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے کے لیے اپنی خدمات آئی جی سندھ کو پیش کردی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھ پر اور پولیس افسران پر اپنے افسران اور جوانوں کی شہادت اور اس محکمے کا قرض ہے، جو ہم چکائیں گے، آپریشن میں شامل ہونا چاہتا ہوں، ذرائع کے مطابق گھوٹکی واقعہ کے بعد ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے آئی جی سندھ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے اس آپریشن میں شامل ہونے کے لیے خواہش کا اظہار کیا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ میری کوشش ہے اور آئی جی سندھ سے درخواست بھی کی ہے کہ میں افسران جوانوں کے ساتھ آپریشن میں حصہ لوں، یہ مجھ سمیت تمام افسران پر شہداء کا قرض اور بوجھ ہے ۔ محمکہ پولیس کا بھی ہم پر قرض ہے، جہاں ہمارے جوانوں کو شہید کیا گیا، ان ڈاکوؤں کو اسی مقام پر سبق سکھایا جائے، ایس ایس پی امجد احمد شیخ کا درد اور جذبات قابل تحسین ہیں۔ ایک انٹرویو میں ایس ایس پی امجد احمد شیخ کا کہنا ہے کہ جو رات قبر میں لکھی ہے ، وہ باہر نہیں گزار سکتے۔ 

واضح رہے کہ ڈاکووں کے خلاف آپریشن اور پولیس کو ہتھیاروں سمیت دیگر وسائل کے حوالے سے آئی جی سندھ کی قائم کی جانے والی کمیٹی میں ایس ایس پی حیدرآباد شامل ہیں اور امجد احمد شیخ جو چند ماہ قبل ہی کشمور کچے کے جنگلات میں ڈاکووں کے خلاف کام یاب آپریشن اور ضلع میں قیام امن بحال کرنے کے بعد حیدرآباد میں تعینات ہوئے ہیں۔

دوسری جانب ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے کراچی سے پولیس کے اسپیشل کمانڈوز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ شکارپور ، گھوٹکی اور کندھ کوٹ کشمور اضلاع میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن سے قبل کچے کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کے آنے جانے والے راستوں کو بھی سیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن سے قبل ان کے راستے بند کرنے کے لئے کراچی سے 600 اسپیشل کمانڈوز پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، جن کو تینوں اضلاع کے مختلف مقامات پر تعینات کر کے جرائم پیشہ افراد کے راستوں کو بند کیا جائے گا۔

ابتدائی طور پر راستے بند ہونے کے بعد مزید فورس کچے میں داخل کر کے آپریشن شروع کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سینئیر پولیس افسران کی جانب سے اجلاس کے بعد حکومت سندھ کو گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، خیرپور، سکھر اور دیگر اضلاع کے کچے کے علاقوں میں کچھ سالوں کے لیے گنے کی فصل پر پابندی لگانے کی سفارش کی گئی ہے کہ کچے کے علاقوں میں گنے کی فصل پر کچھ سالوں کے لیے پابندی لگائی جائے، کیوں کہ گنے کی فصل ڈاکوؤں کی پناہ گاہ اور چھپنے کے لیے بڑا ذریعہ ہے۔ 

جب کہ بتایا جارہا ہے کہ آپریشن کے لیے پولیس کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران، جن میں غلام شبیر شیخ، سید مشتاق شاہ، اے ڈی خواجہ ، ثنا اللہ عباسی، بشیر میمن، سلطان علی خواجہ، خادم حسین رند، ڈاکٹر نجف مرزا سمیت ان افسران کی تجاویز لینے پر بھی غور کیا جارہا ہے، جو سکھر اور لاڑکانہ رینج کے مختلف اضلاع میں تعینات رہے ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکوؤں کی جانب سے مسلسل سوشل میڈیا پر جدید اسلحے کے ساتھ وڈیو وائرل کی جارہی ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید