• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوانوں میں ’’ای سگریٹ‘‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

سید اطہر نقوی

پاکستان میں تقریباً 24ملین سے زائد افراد سگریٹ نوشی کر رہے ہیں ،جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ نوجوان نسل کی بھی اک بڑی تعداد تمباکو کا استعمال سگریٹ کی شکل میں کر رہے ہیں۔ نوجوان دیگر فیشن کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کے مشغلے کو بھی اپنا رہے ہیں ان کے نزدیک یہ بھی ایک فیشن ہےتے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تمباکو نوشی سے تقریباً پوری دنیا میں80لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں اک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جن میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ جو اپنے تدریسی مراکز، آفس، کارخانوں میں سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں تمباکو کا استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ 39 لاکھ سے زیادہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے قائم کردہ ٹوبیکو کنٹرول سیل کے مطابق اس کُل تعداد میں سے تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ افراد تمباکو کا استعمال سگریٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔اس کے برعکس رنگ برنگی پیکنگ، سٹور میں بیٹھنے کے لیے آرام دہ کرسیاں اور اکثر و بیشتر بغیر کسی انتباہ کے فروخت ہوتے ای سگریٹ، زیادہ سے زیادہ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کے یہ ای سگریٹ کیا ہےجس کا نوجوان فیشن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں؟ 

 دراصل یہ ایک بیٹری سے چلنے والی ڈیوائس (آلہ) ہے جو ای - لیکویڈ یا جوس نامی محلول کو گرم کرتی ہے۔ ای لیکویڈ میں نکوٹین اور کھانوں میں پائے جانے والے عام فلیورز (ذائقے) ہوتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ذریعے آپ دھوئیں کی بجائے بخارات کی صورت میں نکوٹین کی خوراک لے سکتے ہیں۔ ای سگریٹ کے ہی استعمال کو ویپنگ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ای سگریٹ میں موجود نکوٹین تمباکو نوشی کے دھوئیں میں شامل متعدد زہریلے کیمیکلز ٹار اور کاربن مونو آکسائیڈ کے مقابلے میں بہت کم نقصان دہ ہیں ہم روزمرہ کے روایتی سگریٹ کو اسموکنگ کہتے ہیں جبکہ الیکٹرانک سگریٹ کو E-cigretteاور پینے کو ویپنگ VAPINGکہتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ گلی کا کونا ہو یا کوئی کیفے، وہاں موجود نوجوانوں میں سے بیشتر کے ہاتھ میں سگریٹ نظر آتی تھی، مگر اب وقت بدل رہا ہے اور ماچس یا لائٹر سے جلنے والی سگریٹ کی جگہ الیکٹرانگ ای سگریٹ نے لے لی ہے۔ای سگریٹ کسی نئی ٹیکنالوجی سے کم نہیں کیونکہ اس کے مختلف ماڈلز دستیاب ہیں۔ پہلی بار چین میں ای سگریٹ متعارف کرائی گئی اور اگلے دو سالوں میں اسے دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں برآمد کرنا شروع کردیا، جس کے بعد اس کا استعمال دنیا بھر میں عام ہوگیا۔

چین کے ماہرین نے ایک ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوئے جو سگریٹ کی جگہ استعمال ہو سکتی ہے۔ اور صحت پر منفی اثرات نہ پڑیں خاص کر کینسر جیسی موذی مرض سے بچا سکے۔اس وقت بازار میں دو طرح کے ای سگریٹ زیادہ مقبول ہیں جن کو ’اوپن اور کلوزڈ سسٹم‘ یا ’اوپن اور کلوذڈ ٹینک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب رفتہ رفتہ ای سگریٹ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، عالمی سطح کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اس کا استعمال کافی حد تک شروع ہو چکا ہے۔

پاکستان کے نوجوان بھی اب اس کو مسلسل استعمال کر رہے ہیں ،خاص کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور اشرافیہ ہیں ،یہ اب اک عام سی ڈیوائس سمجھی جاتی ہے جبکہ متوسط اور غریب طبقہ اس سے مکمل آشنا نہیں ہے۔

مغربی دنیا اس کو نوجوانوں کے لیے سفید ٹیکنالوجی کہتی ہے کیونکہ، سگریٹ نوشی کے دھوئیں کے مضر اثرات آس پاس کے ماحول میں آلودگی کا سبب بھی بنتے تھے اور دیگر افراد بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے گزشتہ چند سالوں میں ای سگریٹ کو دنیا میں بہت وسعت حاصل ہو چکی ہے اور اس کے استعمال کرنے والوں کی شرح میں ہر دن حیرت انگیز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔لیکن ہر چیز کے مثبت اثرات کے ساتھ منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں اس کا غلط استعمال ہماری نسل کے لئے تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔

بی ایم سی پبلک ہیلتھ‘ کے محقیقین کے مطابق، ای سگریٹ نیکوٹین کی دنیا میں بہت مقبول ہو رہے ہیں اور ان پر کنٹرول سخت کرنے کی ضرورت ہےاور یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ کتنے نوجوان اس کے عادی بن رہے ہیں۔ماہرین صحت کے مطابق ای سگریٹ سے ویپنگ کرنا انسانی صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے جس سے ابتدائی طور پر پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں ہماری نوجوان نسل ای سگریٹ میں نکوٹین کی کافی زیادہ تعداد کے ساتھ نشہ کی مقدار بھی شامل کر لیتے ہیں جو نوجوانوں کے دماغ کو براہ راست حملہ کرتے ہیں جس سے دماغی نشوونما کمزور ہوتے ہوتے اس کی صلاحیتیں محدود ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس سے قوت مدافعت پر اثر پڑتا ہے۔ 

اور دیگر بیماریاں بآسانی حملہ آور ہونے لگتی ہیں اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہرین نے رائے قائم کی ہے کہ دماغی خلیے آہستہ آہستہ اپنا کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور انسان نفسیاتی اور ذہنی مریض بن جاتا ہے ،چنانچہ مغربی دنیا نے اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی نسل نو کی بقاء کے لئے ای سگریٹ کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ہے اور بہت سے ممالک میں پابندی بھی عائد کر دی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ای سگریٹ کی مانگ اور مقبولیت پاکستان میں بڑھتی جا رہی ہے،خاص کر نوجوان طبقہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ قوت خرید رکھتا ہے تو وہ ان کا مسلسل استعمال کر رہا ہے۔بہت سے ایسے بھی نوجوان ہیں جو اس عمر میں نئی چیزوں کے ساتھ تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔

امریکا سمیت کئی ممالک میں ای سگریٹ سے متعلق قوانین اور پابندیوں سے متعلق اقدامات کیے جارہے ہیں۔ بعض ممالک میں ای سگریٹ کو عام سگریٹ کی طرح اس کی خریدوفروخت اور پبلک مقامات پر استعمال پر پابندی ہے۔ برطانیہ میں س بات کی خاص نگرانی کی جاتی ہے کہ ان کے اشتہار کیسے دیے جا سکتے ہیں اور ان کی فروخت کہاں اور کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں بھی ای سگریٹ کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی خریدوفروخت بھی عام ہے لیکن تاحال پاکستان میں اس بارے میں کوئی قانونی جارہ جوئی نہیں کی گئی ۔ ای سگریٹ پر حکومتی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔

حالیہ برسوں میں صورتحال مزید خراب ہوئی ہے کیونکہ ٹین ویپنگ (نوجوانوں میں ای سگریٹ کا استعمال) کی شرح بہت بلند ہوگئی ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے لیے استعمال کی جانے والی تمام مصنوعات میں ای سگریٹ سرفہرست ہے۔ جوں جوں اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہےتو اب یہ گروسری سٹورز اور پان سگریٹ کی دکانوں پر بھی فروخت ہوتا دیکھاجا رہا ہے۔چونکہ ای سگریٹ یا ویپنگ کا سموگ عام سگریٹ سے زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان اسے فیشن، سٹائل یا دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے الیکٹرانک سگریٹ کو نوجوانوں کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ یا تمباکونوشی کے ساتھ ساتھ آئس ڈرگ ، ویپنگ اور ای سگریٹ کے بڑھتے رجحان پر بھی سنجیدگی سے غور کرے اور اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کرے۔