• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جو لوگ پچ کی پالیسی بناتے یا بنواتے ہیں ان کا احتساب بھی ضروری ہے

پنڈی ٹیسٹ کے بعد ملتان کے ٹیسٹ میں بھی انگلینڈ نے پاکستان کو انگلینڈ نے پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں 26 رنز سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کر لی۔ انگلش ٹیم کے دئیے گئے 355 رنز کے ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم 328 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی، پاکستان کی جانب سے سعود شکیل نے 94 رنز کی اننگز کھیلی۔ انگلینڈ کی طرف سے مارک ووڈ نے پاکستان کے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ سیریز کا آخری میچ 17 دسمبر سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا، سیریز ہاتھ سے نکلنے کے بعد اب کراچی ٹیسٹ میں جان ختم ہوچکی ہے، تماشائیوں کی دل چسپی کا کوئی عنصر باقی نہیں رہا، میچ کے بعدقومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں، ہم ملتان ٹیسٹ جیت سکتے تھے۔

1999کے ورلڈ کپ فائنل کی شکست کے بعدوزیر اعظم محمد نواز شریف نے سیف الرحمن کے چھوٹے بھائی مجیب الرحمن کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئر مین بنادیا۔ کراچی میں ایک نشست کے دوران مجیب الرحمن کہنے لگے پاکستان میں پچوں کی تیاری بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ ہم نے مالیوں کو کیوریٹر بنایا ہوا ہے۔ مجیب الرحمن نے23 سال پہلے جو بات کی تھی وہ اب درست ثابت ہورہی ہے اور آج 2022 میں بھی پچ کے مسائل کم نہیں بلکہ گھمبیر ہے۔ رمیز راجا جو مجیب الرحمن کے دور میں سلیکشن کمیٹی کے رکن تھے وہ اب وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہیں، سابق کپتان بھی پچ کے مسئلے کا حل تلاش نہیں کرسکے۔

رمیز راجا کہتے ہیں کہ نندی پور کی مٹی سے پورے ملک کی پچوں میں جان نہیں ڈالی جارہی اس لئے اب آسٹریلوی مٹی سے ڈراپ ان پچ بناکر منفرد تجربہ کیا جائے گا۔ انگلینڈ کی ٹیم کی جانب سے جب بھی ایشیائی ممالک کا دورہ کیا جاتا ہے تو انھیں یہاں کی پچز سے یہی شکوہ ہوتا ہے کہ یہ ’ہوم ایڈوانٹیج‘ کا غیر ضروری استعمال کرتے ہوئے اسپن بولنگ کے لیے ساز گاربنائی جاتی ہیں، 17 سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم کا راولپنڈی میں استقبال ایک ایسی پچ سے کیا گیا جسے پاکستانی مداحوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے ،انگلینڈ نے برینڈن میکالم کے ہیڈ کوچ بننے سے اپنی ٹیم کا سافٹ ویئر تبدیل کردیا۔

انہیں پرواہ نہیں کہ پچ کیسی، صورتحال کیا ہے۔پنڈی ٹیسٹ کے نتیجے سے قطع نظر انگلش ٹیم کہتی ہے کہ وہ شکست سے خوف زدہ نہیں۔ اسٹنٹ کوچ پال کولنگ ووڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہمیں اس کی بھی پرواہ نہیں ہے ہار کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ پنڈی ٹیسٹ میں پاکستان کی جانب سے زاہد محمود، فاسٹ بولر محمد علی اور حارث رؤف کو ٹیسٹ کیپ دی گئی۔ زاہد محمود تاریخ کے سب سے مہنگے پاکستانی بولر ثابت ہوئے۔دادو سے تعلق رکھنے والے زاہد محمود نے پہلے ٹیسٹ میں 235رنز دے کر چار وکٹ حاصل کئے۔ یہ ٹیسٹ ڈیبیو پر کسی بھی بولروں کی جانب سے دیئے جانے والے سب سے زیادہ رنز ہیں۔

اس سے قبل2010 میں سری لنکاکے سورج رندیو نےبھارت کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں222رنز دیئے تھے۔یہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی بولر کی بدترین کارکردگی ہے۔انگلینڈ کا ا سکور پہلے ہی دن 506 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ تک جا پہنچا جو ٹیسٹ کرکٹ میں میچ کے پہلے دن کسی بھی ٹیم کا سب سے بڑا سکور ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا نے 1910 میں جنوبی افریقا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ کے پہلے ہی دن 494 رنز بنائے تھے۔ زاہد نے دوسری اننگز میں بھی دو وکٹ حاصل کئے۔ رمیز راجا نے پہلے پاکستان میں ڈراپ ان پچز کی بات کی تھی تاہم آئیڈیا کو کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ 

اس کے بعد جب آسٹریلیا نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا تو پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں ایسی پچز تیار کی گئیں جہاں رنز بنانا آسان تھا، پاکستان کو آسٹریلیا سے لاہور میں شکست ہوئی اور یوں پاکستان کو اپنے ہی سرزمین پر آسٹریلیا سے ایک صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان آسٹریلیا ٹیسٹ کے بعد راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی پچ کو ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا گیا تھا اور اس پر خاصی تنقید کی گئی تھی۔ سابق آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر مارک ٹیلر نے کہا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ کہاں کھڑی ہے۔ حالانکہ ان کے پاس بہت اچھے کرکٹرز موجود ہیں۔

رمیز راجا کا کہنا ہے کہ وہ پچز کی صورت حال پر قابو نہیں پا سکے، ڈراپ ان پچیں ہی اس کا حل ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہر سینٹر کی پچ دوسری سے مختلف ہو۔پاکستان اب بھی ایک بہترین پانچ دن کی وکٹ بنانے سے کئی سال پیچھے ہیں۔ پنڈی میں پہلے تین دن پچ کا جو رویہ رہا اس سےسوشل میڈیا پر رمیز راجا اور پی سی بی پر خاصی تنقید کی گئی اور ان پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا معیار خراب کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

رمیز راجا کا کہنا ہے کہ پنڈی کی پچ سے وہ بھی خوش نہیں برصغیر کی ٹیموں کو تیز کھیلنے میں ابھی وقت لگے گا، کیوریٹر پچ بناتےہیں اور ٹیم منیجمنٹ پلان دیتی ہے۔ ہم نے پچوں کی مٹی تبدیل کرکے دیکھ لی کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ کراچی، لاہور، پنڈی، ملتان کی پچوں کے لئے مٹی نندی پور سے آتی ہے ان پچوں میں بہتری نہیں ہورہی۔

اب ہم نے آسٹریلیا سے مٹی منگوائی ہے۔ جس سے کراچی اور لاہور میں ڈراپ ان پچیں بنائی جارہی ہیں۔ ہم ٹرے بنا کر اس میں ڈراپ ان پچ بنائیں گے، پچ کے معاملے پر میں زیادہ نا امید ہوں، جب کرکٹر چیئرمین ہو تو ایسے معاملے میں زیادہ شرمندگی ہوتی ہے، ہم نے بہت کوششیں کرلیں، باہر سے بھی ماہر بلائے، ہمارے یہاں ایک ہی طرح کی مٹی سے پچ بنتی ہیں۔ پچ کے معاملے میں اگلے سیزن تک صبر کرنا ہوگا، پچ پر بورڈ کوئی گائیڈ لائن نہیں دیتا۔ پہلے ڈراپ ان پچیں آسٹریلیا سے شپ کے ذریعے منگوائی جارہی تھی لیکن اس پر اربوں کا خرچہ ہے۔

اس لئے اب ہم پاکستان میں ڈراپ ان پچیں تیار کررہے ہیں۔ ڈراپ ان پچیں مہنگی ہوتی ہیں، امید کرتا ہوں پچیں اچھی بنیں گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پنڈی اسٹیڈیم میں قائد اعظم میں اچھی پچیں بنیں اور کئی میچ فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ رمیز راجا پاکستان میں پچوں کی حالت بہتر بنانے کے مشن پر گامزن ہیں اور غیر ملکی ماہرین کو لاکر معیاری پچیں بنانا چاہتے ہیں۔ سالہا سال سے پاکستان میں پچ بنانے والے سابق ٹیسٹ اوپنر آغا زاہد کی خدمات پی سی بی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ حاصل کی ہیں۔

آف دی ریکارڈ یہی بتایا جاتا ہے کہ بابر اعظم اور ثقلین مشتاق کی مرضی سے پچ سے گھاس اڑا دی گئی تھی۔ بابر اعظم بیٹسمین ہیں اور وہ بیٹنگ کے لئے ساز گار پچیں بنانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی بولر کپتان بن جائے تو وہ بولنگ کے لئے پچ بنائے گا۔ رمیز راجا غیر ملکی ماہرین کی مدد ضرور لیں ان کی نیت پر شک نہیں ہے لیکن انٹر نیشنل میچوں میں پچوں کے حوالے سے واضع اور ٹھوس پالیسی بنائی جائے تاکہ بولروں کو بھی مدد ملے۔ ایڈیلیڈ کے کیوریٹر کو بھاری معاوضہ دیا گیا ہے اور وہ دوبارہ پاکستان آئیں گے لیکن ہر بار یہ بحث اس وقت ہوتی ہے جب ٹیسٹ میچ ہوتے ہیں۔

اپنی کرسیاں بچانے کے لئے جو لوگ پچ کی پالیسی بناتے ہیں یا پچ بنواتے ہیں ان کا بھی احتساب ہونا ضروری ہے۔ پاکستان اپنے انداز کی ٹیسٹ کرکٹ ضرور کھیلے لیکن اسپورٹنگ پچ ضروری ہے تاکہ تماشائیوں کو بھی مزہ آسکے۔ بے جان ٹیسٹ میچ تماشائیوں کی بھی مایوسی کا باعث بنتے ہیں۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید