تحریر: محفوظ النبی خان
ایک مذہب کے پیروکاروں کی مشترکہ سرزمین ہونے کے باوجود پاکستان کے ’’اٹوٹ انگــ‘‘میں نسلی اور لسانی خلیج میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور بھارت اس خلیج سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی طے شدہ منصوبہ بندی جو نفرت انگیز عزائم پر مبنی تھی خاموشی سے پیش رفت کرتا رہا اور اس سارے عمل میں وہ مشرقی پاکستان میں بغاوت کی بیج بوکر غداری کی کاشت کرتا رہا ابھی سہی کثیر مغربی پاکستان میں کچھ نام نہاد ’’انقلابیوں‘‘ نے اپنی ہوس اقتدار کے لیے داؤ پر لگادی اور اس طرح 1971 میں بنگلہ دیش کا قیام وجود میں آیا۔
گوکہ اس سانحے کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے لیکن پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کے لیے یہ دکھ بھولنے والا نہیں اور ہر سال 16 دسمبر کو مندمل ہوتا یہ زخم ہر بار ہرا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس مرتبہ اس زخم سے رسنے والے خون سے ایک نیا نکتہ پاک فوج کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی الوادعی تقریر میں اُس سوال کا جواب بھی ہے جو اب تک تشنہ لیکن موضوع بحث ضرور ہے کہ سقوط ڈھاکہ فوجی شکست تھی۔
آج ایک بار پھر یہ سوال موضوع بحث بن چکا ہے کہ سقوط ڈھاکہ فوجی شکست تھی۔پاکستان پاک فوج کے ریٹائرڈ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسے سیاسی ناکامی قرار دیا ہے۔ تاریخ اور سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ سقوط ڈھاکہ ایک فوجی جنرل یحییٰ خان کی سیاسی ناکامی تھا جو اس کی آئین شکنی تھی۔ ملک میں کیے گئے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے قیام پاکستان کے چوبیس سال بعد ملک کا جغرافیائی وجودجنوب مشرقی ایشیا ختم ہو گیا۔
اگر جنرل یحییٰ اور ان کی حکومت خود اپنے طور پر سیاسی فیصلے کرنے کے بجائے اگر آنے والی منتخب اسمبلی پر چھوڑ دیتے تو شاید ملک دو لخت نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف بحیثیت قوم ملک کے سیاسی اور فوج اکابرین نے بھی سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج ملک جس مخدوش صورتِ حال سے دو چار ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم سیاست کو ناکامی سے بچا لیں۔کیا سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ناگزیرتھا ؟ کیا ملک کے مشرقی ومغربی بازور یکجا نہیں رہ سکتے تھے ؟قوم کے اذیان میں یہ سوالات ہر سال جنم لیتے ہیں لیکن اس کا جواب پوری سچائی کے ساتھ کبھی سامنے نہ آسکا۔
عجب اتفاق ہے کہ پاکستان میں پیش آنے والے تین جانکا سانحات میں 16 کی تاریخ اور ہندسہ مشترکہ نظرآتا ہے ۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کا قتل، دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی جانب سفر اور دسمبر2015 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں معصوم نونہالوں کا بہیمانہ قتل ِعام۔
بنگلہ دیش کے قیام نیز پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوئوں کے مابین تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے مذکورہ بالا اُٹھائے گئے سوالات کے پس منظر پر غورکرنا ہوگا۔ 1940 کی قرارداد لاہور ، 1946 کی قراردادِ دہلی جن کے ذریعے مسلمانوں کے علیحدہ ریاستوں اور آخر میں پاکستان کی صورت میں ایک قومی ریاست کی تجاویز دونوں ہی غیر منقسم بنگال کے وزراء اعلیٰ مولوی ابوالقاسم فضل الحق اور حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھیں۔
قیام پاکستان کے بعد جغرافیائی طور پر مغربی پاسکتان میں مرکزی دارالحکومت کے قیام کی مشرقی پاکستان کی منظوری ، نیز جداگانہ طریقہ انتخاب کے نتیجہ میں 1945-46 کے انتخابات میں مشرقی بنگال کے منتخب ہونے والے ہندؤ اراکین اسمبلی کے توازن کو قائم کرنے کے لئے مشرقی پاکستان کی جانب سے لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی مرکزی اسمبلی میں نامزدگی ،ایسے واقعات ہیں جو ااس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی قیادت اور عوام پاکستان کویکجا رکھنے کیلئے ہرکاوش کو بروئے کار لانا چاہتے تھے۔
بنگلہ دیش کے صدر مملکت کی سرکاری ویب سائیٹ ’’بنگا بھین ‘‘میں 1947 سے بنگلہ دیش کے قیام تک صوبے کے گورنروں کا ایک مختصر تعارف موجود ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آج بھی بنگلہ دیش کی مقبول قیادت مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی فاصلوں اور دوریوں کے لئے اسکندر مرزا کو ذمہ دار تصور کرتی ہے جبکہ اسی فہرست میں بحیثیت صوبائی گورنر چوہدری خلیق الزماں کی توصیف کی گئی ہے ۔ 1954 کے انتخابات میں کامیاب سیاسی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار اور گورنر راج نافذ کرکے مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے سے چوہدری خلیق الزماں نے حکومتی مطالبہ مستر د کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی تھی جس کا ادارک مشرقی پاکستان کی قیادت کو تھا ۔
جبکہ مشرقی پاکستان سے نامزد وزیراعظم لیاقت علی خان کا بے رحمانہ قتل اور بعد ازاں وزیر اعظم کے منصب سے خواجہ ناظم الدین کی غیرآئینی برطرفی پر بھی مشرقی پاکستان کی متحرک قیادت اور باشعور عوام نے خاموش ردِ عمل کا مظاہرہ کای تھا اور 1954یء میں آئین ساز اسمبلی کی غیرقانونی تحلیل کے نتیجہ میں ہونے والے انتخابات اور 1956 کے دستور میں مساوی نمائندگی کو قبول کرکے مشرقی پاکستان نے ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ جبکہ مشرقی پاکستان میں آبادی کی عددی اکثریت تھی۔
اسی طرح رائے عامہ کی منظور ی کے بغیر کراچی کے متفقہ دارالحکومت کی منتقلی کو ان اسباب میں گردانا جاسکتا ہے جو ملک کے دونوں بازوئوں کے مابین فاصلوں کے اضافے کا سبب بنتے رہے ۔ تا آن کہ 1969 میں اقتدار مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کرنے کے بجائے فیلڈ مارشل ایوب خان نے مزید ایک آمر یحییٰ خان کے سپرد کردیا تھا جنہوں نے پاکستان کی دونوں وفاقی اکائیوں میں متفقہ ’’پیریٹی ‘‘ کے اُصول کو یکطرفہ طور پر کتم کرکے مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو بحال کردیاتھا اور مغربی پاکستان کی انتظامی وحدت کو ختم کرکے نئے صوبے تشکیل دے دیئے تھے۔ کراچی اور بہالپور کی صوبائی حیثیت کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔
مزید برآں پاکستان کے نئے آئین کو مرتب کرنے کیلئے 1970 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کو ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے سادہ اکثریت سے آئین کو منظور کرنے کے غیر معمولی اختیارات تفویض کردیئے گئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں معرضِ وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو غیر معمولی اکثریت حاصل ہوگئی تھی جس کی بنیاد پر ان کی پارٹی تنہا آئین سازی اور اس کی منظوری دے سکتی تھی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سادہ اکثریت سے دستور سازی کے اختیار پر جن شخصیات نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ان میں ائیر مارشل نور خان نمایاں تھے ۔ یحییٰ خان کے لیگل فرہمہ ورک کی رُو سے آئین ساز اسمبلی کو دستور سازی کیلئے 120دن کی میعاد کا تعین کیا گیا تھا جوایک غیریقینی صورتحال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس میعاد کے تعین پر جن سیاستدانوں نے اپنے اعتراضات اُٹھائے تھے ان میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس میعاد پر نظرثانی کی جائے لیکن برسراقتدار حکمرانوں نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ میر اتاثر یہ ہے اس دوران مشرقی اور مغربی پاکستان کی قیادت میں نہ صرف باہمی اعتماد کی کمی تھی بلکہ معاملہ اعتماد کے بحران تک جاپہنچا تھا جس کے لئے اعتماد سازی کی ضرورت تھی۔
جس کو ملک کے حکمران انجام دے سکتے تھے ۔ مثال کے طور پر اگر پاک بحریہ کے ہیڈ کوارٹر کو کراچی سے چٹاگانگ منتقل کردیا جاتا تو کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑتی۔ بعد میں بھی نہ صرف ہیڈکوارٹر کراچی سے منتقل کیا گیا بلکہ بحریہ کا وار کالج اس شہر میں منتقل کیا گیا جو ساحل سمندر سے کوسوں دور ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اگر بحریہ کے ہیڈ کوارٹر کی مشرقی پاکستان منتقلی عمل میں آجاتی تو شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کی قیادت اپنے چھ نکات پر آئین سازی میں رعایت دے سکتی تھی اور 6نکات پرآئین کی ترتیب کے مطالبے میں لچک آسکتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ 2دسمبر1971 کو عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے سنیئر ترین وزیر کی سربراہی میں ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور کراچی کے ایک عشایئے میں بھی شرکت کی تھی جس کا اہتمام پاک چین دوستی کی انجمن کے صدر حاتم علوی نے کیا تھا۔ غالباً چینی قیادت کے اس دورے کامقصد حکومت پاکستان کو معاملات کی سنگینی سے آگاہ کرنا تھا۔ مذکورہ عشائیہ جوکراچی کے کانٹی نینٹل ہوٹل میں منعقد ہواتھا ڈائس پر مہمان خصوصی اور میزبان کے علاوہ گورنر سندھ جنرل رحمان گل اور بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی موجود تھیں۔
میں بینکوئیٹ ہال کے کوریڈور میں داخل ہوا تو اس وقت عشایئے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے دیکھا ک کوریڈور میں ایک صوفے پر معروف دانشور فیض احمد فیض تنہا تشریف فرماتھے۔ جنہوں نے مجھ سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں سوویت یونین کے رویئے کی وجہ سے وہ کسی فیض وعضب کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر یہ کہ اس دور میں سوویت یونین کے پہلے آخری سربراہ حکومت الیکس کو سیجن تھے جنہوں نے پاکستان کے سرکاری دورہ کیا تھا۔
اُنہوں نے امریکی وزیر خارجہ نہری کینجر کی چینی قیادت سے ملاقات میں حکومت پاکستان کی سہولت کاری کے بارے میں ناراضگی کا اظہار کیا ہوگا۔ بعدازاں جس کا اظہار مشرقی پاکستان میں بھارتی جارحیت کی سوویت آشیرباد کے ذریعے ہوا تھا۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے صدر نکسن مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے عمل کو خون ریزی کے بجائے پُرامن طور فتح دیکھنا چاہتے تھے۔
مذکورہ بالا سوالات کی روشنی میں بھی اس امرکا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ وہ ہکون سی تجاویز تھیں جن کو عملی جامہ پہنانے سے پاکستان نئے آئین سے متعلق یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک کے ہوتے ہوئے بھی اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھ سکتا تھا۔
1969 میں یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب ’’پیریٹی ‘‘ کے خاتمے اور مغربی پاکستان کی ووٹ کی تحلیل کی باتیں منظر ِ عام پرآرہی تھیں تو تحریک پاکستان کی اہم شخصیت نے ملک کو تقسیم سے بچانے کے لئے مغربی پاکستان میں صوبوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی صوبوں کی تخلیق کا مطالبہ کیا تھا۔ اگر یہ تجویز روبر عمل میں آجاتی تو مشرقی پاکستان کی ایک واحد اکائی کے طور پراس کی عددی اکثریت کا خوف لاحق نہ ہوتا اور اس طرح قابل ِعمل وفاق معروض وجود میں آجاتا، اس سلسلے میں چوہدری خلیق الزماں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔
جس کی صدارت ڈاکٹر حبیب الہٰی علوی نے کی تھی اور جس میں پروفیسر اے بی اے حلیم کے علاوہ دیگر نامور دانشور وسیاستدان شریک ہوئے تھے۔ اس کانفرنس میں مشرقی پاکستان میں صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اسی طرح چوہدری خلیق الزماں چاہتے تھے کہ کنونشن اور کونسل مسلم لیگز ایک سیاسی جماعت کے طور پر متحد ہوجائیں تاکہ ملک کے دونوں بازوؤں میں بنے والی نئی قیادتوں خصوصاً شیخ مجیب الرحمن وغیرہ کے سامنے ایک موثر انتخابی خدمت کے طور پر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور اس مقصد کے لئے جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے گول میز کانفرنس میں صدارتی طرز حکومت کو خیرباد کہنے اور پارلیمان نظام جمہوریت کو رائج کرنے کا اعلان کردیا تھا تو کنونشن اور کونسل مسلم لیگز میں نظام حکومت کے تناظر میں نظریاتی اختلاف ختم ہوگیا تھا اور دونوں جماعتیں مدغم ہوسکتی تھیں۔
لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ حکمران اس کے لئے تیار ہیں تو اُنہوں نے مسلم لیگ کے دھڑے پھر بھی متحد نہ ہوسکے جبکہ وہ جماعت اسلامی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹیPDP کوبھی قریب لاناچاہتے تھے تاکہ عام انتخابات کے متوقع نتائج کے خطرات کے منفی رحجانات کا مقابلہ کیاجاسکے اور قائد اعظم کا پاکستانی ایک سیاسی وحدت کے طورپر دنیا کے نقشے پر برقرار رہے۔ توقع کی جاتی تھی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اجتماعی تدبر کامظاہرہ کرے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور پاکستان دولخت ہوگیا اور اس تمام معاملے میں بھارتی جارحیت کا ایک بڑا کردار ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا اور اقوام متحدہ سمیت کسی بین الاقوامی ادارے نے مشرقی پاکستان کے عوام سے یہ دریافت کرنے کی زحمت نہ کی کہ وہ یہ علیحدگی چاہتے بھی ہیں یا نہیں ؟ سقوط ِ ڈھاکہ کے نتیجہ میں جنوب مشرقی ایشیاء یا مشرق بعید میں پاکستان کا سیاسی وجغرافیائی وجود ختم ہوگیا اور برصغیر پاک وہند کے بجائے جنوبی ایشیاء کی نئی اصطلاح متعارف ہوگئی ۔ جبکہ مشرقی پاکستان کی وہ سیاسی قیادت اور عوام جنہوں نے بھارتی جارحیت اور اندرونی پوزیشن کا محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے مقابلہ کیا تھا تو جدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تقریباً 3 لاکھ پاکستانی جنہوں نے ریڈکراس کو پاسکتان میں منتقلی کا باضابطہ اظہار کیا تھا، تاحال بنگلہ دیش میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ قومی زندگی کے تناظر میں مشرقی پاکستان کے محب وطن پاکستانیوں کی قربانیوں سے روگردانی اور جوہری سیاستدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو تاریخ بھی معاف نہیں کرے گی۔ تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان کے نامور مسافر محمود علی کی تجویز کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش ’’ایک قوم دوریاستیں ‘‘ کے نعرے پر قریب تر آسکتے ہیں ان تعلقات میں بھار سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔