• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنےخوابوں کی دہلیز پر مضمحل ’’ہمارا نوجوان‘‘

میلوں میل قدرتی ساحل،سینکڑوں کلومیٹر ہمارا اپنا سمندر،جسے ہم چاہیں تو، بحرِ پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ بڑے چھوٹے بیسیوں دریا، جو لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیراب کررہے ہیں۔ ہزاروں سال سے منجمد گلیشیئر جو میٹھا پانی پلانے کے لیے بے تاب ہیں۔ کہیں سر سبز کوہسار،جہاں دیودار، صنوبر، شاہ بلوط فخر سے سر بلند کیے ہیں۔ کہیں خشک بنجر پہاڑ،مگر جن کے اندر سونا،تانبااور دوسری دھاتیں ہماری مالی طاقت بننے کے لیے بے چین ہیں۔ کہیں طویل ریگ زار،جہاں سسی پنوں جیسی رومانی داستانیں جنم لیتی رہیں اور جن کے سینے میں گیس اور تیل انسانی خدمت کے لیے کھلے آسمان تلے آنا چاہتی ہیں۔

یہ ہے میرا اور آپ کا عظیم ملک، پاکستان۔

لیکن ان سب سے بڑی قیمتی دولت وہ 10کروڑ بیٹے بیٹیاں ہیں جو 15 سے 29سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ صحت مند،تواناصلاحیتوں سے بھرپور۔ جفاکش، بلند خیال،پُر عزم،اپنی دھرتی کی محبت سے سرشار۔

ترقی یافتہ ممالک رشک کرتے ہیں کہ پاکستان نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعداد والا ملک ہے۔ یورپ والے ترستے ہیں۔ جاپان کی کمر دہری ہوگئی ہے،وہاں اچھی صحت پالیسیوں کی بدولت عمر یں بڑھ رہی ہیں۔ 70 سال سے زیادہ عمر کے افراد بڑی تعدادمیں ہیں۔ آبادی میں منصوبہ بندی کے باعث شرح پیدائش کم ہے۔ اس لیے نوجوان آبادی بہت محدود ہے، انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ اب سوچیں، پاکستان کے 60 فی صد نوجوان کتنی بڑی نعمت ہیں۔

2022 میں یہ 10کروڑ کس حال میں رہے۔ اقبال تو کہتے تھے:

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری

یا پھر وہ اپنی محبت کا اظہار یوں کرتے تھے:

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند

پاکستان کے طول و عرض میں، پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو خود ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں، جن کا شباب بے داغ ہے، جن کی ضرب کاری ہے، مگر اس بے کراں توانائی کی بدولت ملک جتنا توانا،طاقت ور،اقتصادی طور پر خوشحال اور پیش رفت میں جتنا تیز رفتا رہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہوسکا ہے۔ 

بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے اس امر پر خوشی کا اظہار، ریاست پاکستان بھی کرتی آرہی ہےاور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں بھی۔ ہر سرکار نے نوجوان اسکیموں کا اعلان بھی کیالیکن یہ شکایت رہی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان شناختی کارڈ اکٹھے کرکے اپنے قریبی لوگوں کو نوازتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تو 1970 کی دہائی سے شروع ہوا،پھر 2022 تک جاری رہا،جب 18سال تک کے نوجوانوں کو ووٹ دینے کا اہل قرار دیا گیا،پھر نوجوانوں کی قدر میں اضافہ ہوا۔

اب جو اعداد و شُمار دستیاب ہیں، ان کے مطابق بلوچستان میں نوجوانوں کی تعداد 30 لاکھ بنتی ہے،خیبر پختونخوا میں ایک کروڑ 80 لاکھ۔ ،سندھ میں دو کروڑ 30 لاکھ۔ اور پنجاب میں بتایا جارہا ہے کہ 55 فی صد آبادی 15 سے 29 کے درمیان عمر کی ہے، قریباً چھ کروڑ ہے۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ ملک کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ 22کروڑ میں سےقریباً دس کروڑ نوجوان دست و بازو ہیں،ترو تازہ ذہن ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح اہتمام کیا جائے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ، ان میں سے کتنی تعداد اسکولوں میں باقاعدہ داخل ہوتی ہے۔ 

میٹرک تک کتنے تعلیم حاصل کرتے ہیں، کتنے کالج میں پہنچتے ہیں، کتنے یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں 2022 میں کچھ خاص بہتری نظر نہیں آتی۔ تعلیم اب پوری طرح صوبائی اختیار میں ہے۔ صوبوں کا اپنے تعلیمی بجٹ جو پہلے ہی بہت کم ہے،وہ بھی پوری طرح استعمال نہیں ہوتا ہے۔ بعض صوبوں میں کوششیں ہوتی ہیں کہ ایجوکیشن فائونڈیشن، پرائیویٹ شعبوں کے اشتراک سے پرائمری اور ہائی اسکولوں میں اچھی تعلیم کا بندوبست کرتی ہے۔ 

امریکی امداد کے محکمے نے بھی چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے اشتراک سے اسکولوں کی معیاری عمارتیں استوار کی ہیں۔ امریکی امداد کتابوں کی خریداری اور اساتذہ کی تربیت میں بھی خطیر رقوم دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 30 سال سے کم کی آبادی 64 فی صد ہے۔ نوجوانوں میں صرف 33 فی صد شادی شدہ ہیں۔ روزگار کے مواقع،صرف 39 فی صد کو میسر ہیں۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں یہ علم ہوتا ہے کہ پاکستان میں 57فی صد نوجوان بے روزگار رہتے ہیں۔77فی صد نوجوان تعلیم درمیان میں چھوڑ جاتے ہیں۔ 

ایک تحقیق یہ ہے کہ پاکستان کے 10 کروڑ نوجوانوں میں سے ہر سال 40 لاکھ نوجوان کسی نہ کسی سطح پر عملی زندگی یا ملازمت کا آغاز کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ اطلاع یہ ہے کہ پاکستان میں 77 فی صد نوجوان کسی ذاتی سواری سے محروم ہیں۔ زیادہ تر کو پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،جو ابھی تک سارے شہروں میں باقاعدگی سے میسر نہیں ہے۔ پنجاب کے بھی ایک دو شہروں میں بڑی بسیں سڑکوں پر لائی گئی ہیں۔ سندھ میں اب سبز اور سرخ بسیں دارُالحکومت کراچی میں چلنے لگی ہیں۔

دوسرے شہروں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بھی بتاتی ہے کہ، 12 فی صد نوجوانوں کے پاس اپنی موٹر سائیکل ہے،مگر یہ سواری بہت خطرناک ثابت ہورہی ہے۔ اچھی سڑکیں نہ ہونے اورنوجوانوں کی احتیاط سے موٹر سائیکل نہ چلانے کے باعث بہت حادثات ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں ہلاکتیں،زیادہ موٹر سائیکل سواروں کی ہورہی ہیں۔ ہیلمٹ پہننے سے گریز کیا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل پر زیادہ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں۔ زیادہ آبادی غریب ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہے نہیں،ٹیکسی،رکشے میں زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ اس لیے غریب گھرانے موٹر سائیکل کو ترجیح دیتے ہیں۔

اب یہ جو کرائے کی گاڑیوں کے نئے سلسلے شروع ہوئے ہیں، جس میں پرائیویٹ شہری بھی اپنی کار یں کرائے پر چلانے میں شرکت کررہے ہیں، ان میں بھی کار مالک ڈرائیوروں کی تعداد زیادہ ترنوجوانوں کی ہے۔ مجھے بھی ایسی کاروں پر سواری کا موقع ملا ہے تو زیادہ تر سرائیکی نوجوانوں سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ سب اپنے اس کام سے مطمئن ہیں۔ اکثر کہتے ہیں کہ الحمد للہ، گزارہ ہورہا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق تمام تر خدشات خطرات،مہنگائی،کم سہولتوں کے باوجود 89فی صد نوجوانوں نے کہا ہے کہ ،وہ مطمئن زندگی گزاررہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان ہی نہیں، انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا میں بھی زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے۔ جنوبی ایشیا میں صوبوں سے ہجرتیں جاری ہیں۔ پاکستان میں ایشیا کے مختلف حصّوں سے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے نوجوان روزگار کی تلاش میں آتے رہے ہیں۔ افغانستان میں 1979 میں روسی یلغار کے بعد مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان میں ہجرت کرکے آئی،ان میں بھی زیادہ تر نوجوان ہی تھے،وہ بڑے مشکل اور سخت کاموں میں ہاتھ ڈالتے رہے ہیں۔ 

مغربی صحافیوں اور اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ سے اور دوسرے ملکوں سے نوجوانوں کی بہتر زندگی کے لیے امداد بھی لی اور قرضے بھی لیے لیکن کسی صوبے میں بھی تسلی بخش طریقے سے نوجوانوں کو تربیت نہیں دی جاسکی۔ان کو حکومتی ادارے نہ پوری طرح کھپا سکے،نہ تعلیم میں مصروف رکھ سکے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی نوجوانوں کو روزگار یا تربیت نہ دے سکے۔ اس لیے توانائی اور طاقت رکھنے والے نوجوان کبھی جہادی تنظیموں نے مصروف کیے، کبھی لسانی اور نسلی تنظیموں نے انہیں اپنی کارروائیوں کا ایندھن بنایا۔

غیر ملکی این جی اوز نے اس حوالے سے بڑے خطرناک اعداد و شُمار دیے،بہت زیادہ جب انتہا پسندی غالب ہوئی تو پاکستانی فوج نے ایک پروگرام DeRadicalisation شروع کیا، جس میں دہشت گردی سے تائب ہونے والے نوجوانوں کو بھی۔ سوات بلوچستان کے عام نوجوانوں کو میٹرک کی تعلیم کے دوران اور بعد میں ہُنر سکھانے کے کورس شروع کیے،جن میں الیکٹریشن کا کام بھی سکھایا جارہا تھا۔ لڑکیوں کو کشیدہ کاری،بیوٹی پارلرز کی تربیت بھی دی گئی۔ یہ پروگرام بہت کامیاب رہے اور اب بھی جاری ہیں۔ 

لیکن مسلح افواج کو یہ شکایت تھی کہ، صوبوں کی سول حکومتوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی،اس لیے نوجوانوں کی زیادہ بڑی تعداد کو تربیت نہیں دی جاسکی۔ اب قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کو پھر دہشت گرد تنظیمیں اپنے گروہوں میں شامل کررہی ہیں۔ یہ تنظیمیں نہ صرف نوجوانوں کو باقاعدہ ماہوار وظائف دیتی ہیں ۔ ان کی عدم موجودگی میں یہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی راشن کا اہتمام کرتی ہیں۔

2022 میں تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے کامیاب پروگرام کیے گئے۔ تربیت دینے والے ٹریننرز کو بھی تجربہ کار ٹریننرز کی طرف سے تربیت دی جارہی ہے۔ Motivational Speakers ترغیبی مقررین کا شعبہ بھی اس سال بہت سرگرم ہوا ہے۔ تربیتی کمپنیاں جدید خطوط پر منظم ہورہی ہیں۔ یہ نوجوانوں کو اپنے خطاب کے ذریعے ولولہ تازہ دیتی ہیں۔ انہیں نئے آفاق تسخیر کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ اس طرح تربیت ایک نفع بخش اورباوقار پیشہ بن رہا ہے۔ ان میں چند ایک عمر رسیدہ مقرر ہیں لیکن زیادہ تر نوجوان ہیں۔ شہر شہر ورکشاپ ہورہی ہیں۔ کورسز مرتب کیے جارہے ہیں،جن میں مختصر عرصے کے سر ٹیفکیٹ بھی ہیں۔ 

چھ مہینے سال کے ڈپلومے بھی ہیں۔ بہت سے بینک بڑے کاروباری ادارے،ان مقررین سے اپنے مختلف شعبوں کے ملازمین کی تربیت کرواتے ہیں۔ ان میں سے بعض مقررین آس پاس کے ملکوں میں بھی تربیت کے لیے جارہے ہیں۔ لیکن قباحت یہ ہے کہ یہ تربیتی سلسلے پہلے سے بر سر روزگار نوجوانوں کے لیے ہی ہیں، بہت کم منصوبے ہیں جہاں بے روزگار نوجوانوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ نوجوان زیادہ تر دیہی علاقوں میں ہیں۔ ترغیبی مقرروں میں سے بہت کم دیہات کا رُخ کررہے ہیں،کیونکہ وہاں خطاب کے معاوضے بڑے شہروں کی طرح خطیر رقم میں نہیں ملتے ہیں۔ یہاں ضرورت ہے ریاست کی طرف سے کسی پیشقدمی کی ۔ صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ دیہی علاقوں کے نوجوانوں کے لیے بجٹ مختص کریں۔

نوجوانوں کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے یہ بھی علم ہوا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے تمام ملکوں میں نوجوانوں کے لیے خصوصی پالیسیاں مرتب کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ امیر ملکوں کی طرف سے غریب ملکوں میں نوجوانوں کے لیے تربیت کا اہتمام کیا جاسکے۔ پنجاب حکومت نے اپنی یوتھ پالیسی کا اعلان 2012 میں کیا، اس کے لیے الگ وزارت بھی مکمل قائم کی گئی، دیگر صوبوں میں نوجوانوں کا محکمہ کسی مشیر کے پاس ہے یا وزیرا علیٰ کے معاون خصوصی کو سونپا گیا ہے یا پھر وزیرا علیٰ نے یہ محکمہ خود رکھا ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ نوجوان،پاکستان کی جتنی بڑی طاقت ہیں،ہماری سیاسی حکومتیں ان کو وہ اہمیت نہیں دے رہی ہیں۔ 

وزیر اعظم۔ صدر مملکت۔ گورنر۔ وزرائے اعلیٰ اور عام سیاسی لیڈر دن رات تقریروں میں یہ تو کہتے ہیں کہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ لیکن اس مستقبل اور اثاثے کی صلاحیتیں اور توانائی بروئے کار لانے میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں۔ اس لیے ہمارے پڑھے لکھے نوجوان کا آخری انتخاب ہمیشہ کسی دوسرے ملک میں جانا ہوتا ہے۔ جاگیرداروں سیاستدانوں کی باہمی کشمکش نے جس طرح حالات غیر یقینی بنادیے ہیں اس میں بھی متوسط طبقے کے نوجوان انٹرنیٹ پر باہر جانے کے امکانات تلاش کرتے رہتے ہیں۔

کے پی کے، میں یوتھ پالیسی کا اعلان 2016 میں کیا گیا۔ سندھ میں 2018 میں ،بلوچستان جہاں نوجوان بہت زیادہ بے یقینی اور محرومی کا شکار ہیں، یہاں انہیں اپنا مستقبل بہت زیادہ تاریک نظر آتا ہے۔ وہاں بتایا گیا ہے کہ یوتھ پالیسی کا مسودہ 2015 میں تیار ہوا، مگر اب تک وہ مسودہ ہی ہے۔ چاروں صوبوں کی یوتھ پالیسیاں ایک دوسرے کی نقل ہیں، حالانکہ ان چاروں علاقوں کے نوجوانوں کے مزاج مختلف ہیں، خواب الگ الگ ہیں، امکانات اورخدشات بھی مختلف ہیں۔

نوجوان پڑھا لکھا ہویا ان پڑھ۔، تربیت یافتہ ہو یا اناڑی۔ ہُنر مند ہو یا غیر ہُنر مند۔ سیاسی پارٹیاں اقتدار کے ایوان میں داخلے کے لیے اس کا کندھا ضرور استعمال کرتی ہیں۔ اقتدار ملنے کے بعد وہ نوجوانوں کے داخلے سیکرٹریٹ میں بند کردیتی ہیں۔ یہ بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ اسمبلیوں میں بھی نوجوان بہت کم تعداد میں جا پاتے ہیں۔ اپنے علاقوں کی فیصلہ سازی میں بھی انہیں شریک نہیں کیا جاتا۔ نوجوان اکثریت میں ہیں، اسی تناسب سے ان کی نمائندگی منتخب ایوانوں میں ہونی چاہئے۔ اس طرح تواناشہریوں کی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو قوم سازی میں پوری طرح استعمال میں بھی نہیں لایا جارہا ہے۔وہ ہجوموں کی شکل میں بھٹک رہے ہیں۔ انہیں مستقبل کے لیے کارآمد شہری نہیں بنایا جارہا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی آمد سے نئے نئے پیشے نئی نئی مصروفیات بھی عملی زندگی میں آرہی ہیں۔ آن لائن خریداری اور فروخت کا رواج ہورہا ہے۔ اس میں دونوں طرف نوجوان ہی ہیں۔ فروخت کرنے والے بھی خریداری کرنے والے بھی اور مطلوبہ اشیا فراہم کرنے والے بھی۔ اس شعبے پر بھی کڑی نظر رکھنے اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا کے استعمال میں نوجوان ہی زیادہ سرگرم ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ملک میں 18 کروڑ موبائل فون سیٹ زیر استعمال ہیں۔ ٹوئٹر کا استعمال 3.40ملین۔ یو ٹیوب1.70ملین۔ انسٹرا گرام71.7ملین۔ ٹک ٹاک 18.26ملین۔ لنکڈ ان7.6ملین۔ فیس بک 43.55ملین کے زیر استعمال ہے۔ سوشل میڈیا کا مجموعی استعمال 71.70ہے۔ یہ اعداد و شُمار مختلف کمپنیاں جاری کرتی ہیں،اس میں بہت زیادہ تفاوت بھی ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی بھی ایک نازک معاملہ ہے۔ بہت سے دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ سے احاطہ نہیں ہوسکا ہے،وہاں کے نوجوان اس سہولت سے محروم بھی رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا موجود ہے۔ نوجوان آبادی ہے۔ نوجوان آگے بھی بڑھنا چاہتے ہیں،تو ریاست کیوں غافل ہے۔ سردار، جاگیردار، ٹھیکیدار،آڑھتی مافیا، اب بھی اس کے حق میں نہیں ہے کہ ہمارے سارے نوجوان تعلیم یافتہ ہوں، سب ہنر مند ہوں، تربیت یافتہ ہوں۔ ہماری صوبائی تعلیم کی وزارتیں اپنا فریضہ پوری طرح انجام نہیں دے رہی ہیں، اسکول پوری طرح کام نہیں کررہے ہیں۔ایک مایوس کن تبصرہ یہ پڑھنے کو ملا کہ ،صوبائی تعلیمی وزارتیں جس شرح سے کام کررہی ہیں اس کے مطابق تو سارے بچوں کو اسکول میں داخل کروانے میں 60 سال لگ جائیں گے۔ وزرائے تعلیم کو اپنی رفتار تیز کرنی چاہئے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے وزارت تعلیم کا نام ہی انسانی وسائل کی بہبود رکھ دیا ہے،کیونکہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہی شہریوں کی صلاحیتوں کو صیقل کرنا ہے،انہیں مختلف شعبوں کے لیے تیار کرنا ہے۔

پاکستان کے نوجوانوں نے اپنے طور پر انٹرنیٹ استعمال کرکے ہر مہینے لاکھوں روپے کمانا شروع کردیے ہیں۔ گوگل سے مدد حاصل کرکے بہت سے نوجوان بیٹے بیٹیاں اپنے یو ٹیوب چینل چلارہے ہیں، کھانا پکانا سکھارہے ہیں آن لائن شاپنگ کی تربیت دے رہے ہیں،نوجوانوں کی تفریح کے پروگرام چلارہے ہیں۔ اسی طرح چین اور دوسرے ملکوں کی بہت سی کمپنیوں سے رابطہ کرکے ان کی تقسیم کاری کررہے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان کرکٹ،ہاکی، اسکواش،فٹ بال، والی بال میں بہت نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں اگر انہیں تربیت دی جائے ۔

اتنے نوجوان غالب مملکت میں، اگران پر ریاست کی طرف سے باقاعدہ با ضابطہ توجہ دی جائے۔ یونیورسٹیاں جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے، وہاں منصوبہ بندی کی جائے، اگر ان دس کروڑ قیمتی اثاثوں کی تربیت کی جائے تو پائیدار ترقی کی منازل حاصل کرنے میں پاکستان کو بہت مددمل سکتی ہے۔ اور انسانی بہبود کے اشارے بلند تر ہوسکتے ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم نے اپنی نوجوان نسل سے بہت امیدیں وابستہ کی تھیں۔ اسلامیہ کالج کے طلبہ سے 12 اپریل 1948 میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:

’’ اب مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپ نے تحریک پاکستان میں اپنا کردار شاندار طریقے سے ادا کردیا ہے۔ آپ نے اپنی منزل حاصل کرلی ہے۔ اب آپ کی اپنی حکومت ہے اور آپ کا اپنا ملک ہے جس میں آپ آزاد انسانوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ اب آپ کی ذمہ داریوں اور سیاسی معاشرتی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کا اسلوب بھی بدل جانا چاہئے۔ 

اب آپ کے فرائض کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کو نظم و ضبط کا پختہ شعور، کردار، آگے بڑھنے کا جذبہ اور ٹھوس تعلیمی بنیاد مہیا ہوجائے، چنانچہ آپ کو لگن پوری دلجمعی کے ساتھ خود مطالعے کے لیے وقف کردینا چاہئے، کیونکہ یہ آپ کی اولیں ذمہ داری ہے اور آپ کی ذات آپ کے والدین اور آپ کی مملکت اس ذمہ داری سے عہد بر آ ہونے کی آپ سے توقع رکھتے ہیں۔ آپ اطاعت شعاری سیکھئے،کیونکہ اس صورت میں آپ حکم دینا سیکھ سکتے ہیں۔‘‘

اس تقریر میں قائد اعظم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ نوجوان صرف سرکاری ملازمتیں اختیار کرنے پر اکتفا نہ کریں۔ اب روزگار کے نئے شعبے، نئے ذرائع اور نئے مواقع مل رہے ہیں۔ اب آپ کو اپنی توجہ سائنس ،تجارت، بینکاری،بیمہ ، صنعت اور فنی تعلیم پر مرکوز کردینی چاہئے۔

دیکھئے قائد اعظم نے 75 سال پہلے نئے شعبوں کی طرف توجہ دلائی تھی،اب قائد کی ہدایت اور زیادہ توجہ طلب ہے۔

اپنی بات میں علامہ اقبال کے اس بہت مقبول شعر پر ختم کروں گا:

نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی