پروفیسر خالد اقبال جیلانی
یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں تغیراتِ و اختلافات فطرت سے عبارت ہے۔ دن و رات کا اختلاف، موسموں کا تغیر ، یہ اختلافات و تغیراتِ کائنات قوانین خداوندی کے عین مطابق ہیں۔ ان اصول و قوانین فطرت سے مقصدِ خداوندی یہ ہے کہ اپنے بندوں کو عموماً اور اہلِ ایمان کو خصوصاً ایسے مواقع فراہم کرنا جنہیں غنیمت جان کر اور ان سے فائدہ اٹھا کر اللہ کے بندے اپنی دنیا بھی بنا سکیں اور آخرت بھی سنوار سکیں۔ دنیا یا زمین پر جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے موسمی تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں زمین پر سال میں چار موسم ہوتے ہیں سر دی ، گرمی ، خزاں، بہار ،ان کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لئے انسان دنیوی اور مادی لحاظ سے تیاری کرتا ہے۔
جیسا موسم آنے والا ہوتا ہے، اُسی کے اعتبار اور تقاضوں کے پیشِ نظر انسان اپنے اندر اور باہر اپنے رہن سہن، لباس ، غذا و خوراک ، معاملات اور معمولات میں تبدیلی لاتا ہے۔ برسات کا موسم آتا ہے تو بارش سے بچاؤ کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ خستہ حال مکانوں کی مرمت کی جاتی ہے ، گرمی کا موسم آتا ہے تو پہلے سے اس کے اعتبار سے لباس تیارکیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب سردی کے موسم کا آغاز ہوتا ہے تو انسان اس کے اعتبار سے سردی کی شدت سے بچنے کے انتظامات کرتا ہے۔ گرم لباس، اور گرم بستروں کی تیاری زور و شور سے کرتا ہے اس کے ساتھ موسم سرما کے شروع ہوتے ہی اپنے رہن سہن اور خوراک و غذا میں تبدیلی لاتا ہے۔
جس طرح موسم سرما کے آغاز یا آمد کے ساتھ ہم خود کو اس موسم کے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح رسو ل اللہ ﷺ نے امت اور ایمان والوں کو اس جانب بھی متوجہ فرمایا کہ ہم اپنی زندگی میں اس دنیا اور زمین پر نئے بدلتے موسم میں اپنے دینی فائدے اور آخرت کے نفع کے پہلوکو تلاش کریں کہ اگر گرمی کا موسم آ رہا ہے تو دین و آخرت کے اعتبار اس میں ہمارے لئے کیا فوائد ہوں گے اور اگر سردی کا موسم آرہا ہے تو دینی نقطۂ نظر سے اس میں ہماری دنیا اور آخرت کے کیا فوائد ہیں۔ سردی کے موسم میں قرآن وسنت کے مطابق کیسے زندگی گزاری جائے ،اسی سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جس میں آپ ﷺنے مومن کے لئے سردی کے موسم کی فضیلت اور افادیت بیان فرمائی ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سردی کا موسم مومن کے لئے بہار ہے، اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں۔ جن میں وہ روزے رکھ لیتا ہے اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ جن میں وہ قیام (تہجدادا) کر لیتا ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی)موسم سرما کی شریعت میں کیا اہمیت ہے اور اسے کیسے گزار اجائے، اس بارے میں مزید احادیث و روایات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سردیوں کے روزے رکھنا مفت میں اجر کمانا ہے۔‘‘ (المعجم الصغیر للطبرانی)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ ’’سردی کو خوش آمدید ! اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں ،وہ اس طرح کہ اس میں تہجد ادا کرنے کے لئے رات طویل اور روزے رکھنے کے لئے دن چھوٹا ہوتا ہے۔‘‘ (المقاصد الحسنہ للسخاوی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کےلیے نیکیوں کے لوٹنے کا موسم ہے۔‘‘
موسم سرما کے حوالے سے مذکورہ بالا احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ دینی اعتبارسے آخرت کے لئے زادِ راہ جمع کرنے کے اعتبار سے موسم سرما ایمان والوں کے لئے موسم بہار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ موسم بہار میں ماحول خوشگوار اور معتدل ہوتا ہے، درختوں اور پودوں پر ایک رونق چھائی ہوتی ہے ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے ہیں جو ماحول کو معطر کرتے ہیں۔ کائنات میں پھیلا ہوا قدرتی حسن اپنے جو بن پر ہوتا ہے۔ بعینہ سردی کا موسم ایک مومن کے لئے اعمال حسنہ خصوصاً تہجد کی ادائیگی اور روزہ داری بہار سے کم نہیں ہوتا کہ مومن اگر چاہے تو اپنے گلشن اعمال کو تہجد اور روزے جیسی عبادتوں سے اپنے مشام جاں کو معطر کر سکتا ہے ، نیکیوںکی خوشبو لوٹ سکتا ہے ، روح و قلب کی برکتیں حاصل کر سکتا ہے۔
احادیث و روایات میں موسم سرما کے حوالے سے دو عبادات کی اہمیت ، افادیت اور فضیلت کا ذکر ہے۔ ایک روزہ اور دوسری تہجد کی نماز ۔ آئیے ان دونوں عبادات کی فضیلت و اہمیت کو جانیں اور دیکھیں کہ ان عبادات کے حوالے سے موسم سرما میں ہمارے لئے خیر کے کیا پہلو ہیں۔
روزے کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے ،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ حدیث قدسی میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے تمام اعمال اُس کی اپنی ذات کے لئے ہیں سوائے روزے کے جو میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
روزے کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اللہ نے اسے جہنم سےڈھال اور جنت کا راستہ قرار دیا، روزے دار کی دعا کی قبولیت کا وعدہ خداوندی ہے۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے زیادہ پسند ہے، روزے دار کے لئے جہاں جنت کا ایک دروازہ ’’ریان‘‘ خاص کر رکھا ہے وہاں روزے دار کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ وہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے، اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہے، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوتا ،لہٰذا بڑی آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے ایمان والوں کی توجہ اسی پہلو کی طرف دلاتے ہوئے فرمایا کہ’’سردی کی غنیمت یہ ہے کہ اس موسم میں روزہ رکھا جائے ۔‘‘ (سنن ترمذی، مسند احمد)یعنی جس طرح وہ مالِ غنیمت جو اللہ کے راستے میں اللہ کے دشمنوں سے اس طرح حاصل ہو کہ اس میں نہ لڑائی (جہاد) کرنی پڑے، نہ دشمن کا سامنا ہو، نہ مڈ بھیڑ ہو اور نہ ہی جان کا خطرہ مول لینا پڑے تو ایسے مالِ غنیمت کے ملنے پر انسان کو کتنی زیادہ خوشی ہوتی ہے اور ایسے مال غنیمت کو حاصل کرنے کی اس میں رغبت اور دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی طرح سردی کے موسم کے روزے بلا مشقت و محنت کے رکھے جا سکتے ہیں اور ان کا ثواب اُس مالِ غنیمت کے مانند ہے جو بغیر جنگ کے ہاتھ آجائے۔
موسم سرما کی فضیلت و اعمال کی احادیث میں دوسری عبادت جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے امت کی توجہ مبذول کرائی ہے، وہ نمازِ تہجد ہے ۔ نماز تہجد کی فضیلت و اہمیت بیان سے ماوراء ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ تمام عباداتِ شریعت کا نقطۂ عروج (Climax) اور منتہائے کمال نمازِ تہجد ہے ، تہجد وہ نماز ہے جو رسالت مآب ﷺ اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر فرض رہی۔ اللہ تعالیٰ نےاس نماز کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل میں کیا خوب اور پیار بھرے انداز سے کیا ہے فرمایا، رات میں تہجد بھی پڑھا کریں جو آپ کے لئے اضافی ہے۔ قریب ہے کہ آپ کا رب (اس تہجد کی برکت سے) آپ کو مقام محمود پر فائز فرمادے۔ (سورۂ بنی اسرائیل79)
تہجد کی نماز کو رات کی نماز یا قیام اللیل بھی کہا جاتا ہے ، قرآن کی کئی آیات میں نماز تہجد کی فضیلت مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے۔ متعد د احادیث میں رسول اللہ ﷺنے بھی نماز تہجد کی فضیلت بیان فرمائی۔ فرمایاکہ’’تمہیں چاہیے کہ (رات کو قیام کرو) بطور خاص تہجد ادا کرو، اس لئے کہ یہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ اور عادت تھی ،یہ تمہارے لئے اپنے رب سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے، اور تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے بچانے والا عمل ہے‘‘۔ (جامع ترمذی) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں جن کے اندر سے باہر کا اور باہر سے اندر کا سب کچھ نظر آتا ہے، اور فرمایا کہ یہ کمرے اللہ نے اُن بندوں کے لئے تیار فرمائے ہیں، جو نرم انداز سے گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں ، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے ہیں جبکہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں ۔(ترمذی)
اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جو کہ تہجد کے وقت جبکہ ہر سُو تاریکی چھائی ہوتی ہے ماحول پر سکوت طاری ہوتا ہے تو یہ شبِ زندہ دار بندے، عاجزی و انکساری سے اللہ کے سامنے کبھی سجدہ ریز ہوتے ہیں تو کبھی اس کے حضور کھڑے ہوتے ہیں، اس کیفیت و خشیت اور سجود و قیام سے اللہ اتنا خوش ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان بندوں کو ’’ عبادالر حمن ‘‘ رحمان کے بندے ،کے پیارے اور محبوبانہ انداز سے متعارف کراتا ہے (سورۂ فرقان64) ایک فرمانِ رسول ﷺ مفہوم ہے کہ ’اللہ ہر رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے (یعنی اس وقت اللہ بندوں کے قریب بہت قریب آجاتا ہے) اور پھر ان تہجد گزار بندوں اور اپنے درمیان سے سارے حجابات ہٹا کر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب بندو، مانگو! کیا چاہیے؟
حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ’’تہجد کے وقت کی دعا وہ تیر ہے جس کا نشانہ خطا ہی نہیں ہوتا‘‘ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین بندوں سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے جن میں سے ایک وہ ہے جو رات کو تہجد کی نماز کے لئے کھڑا ہو‘‘۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جب بندہ سردی کی رات میں نیند سے بیدار ہوتا ہے اور ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے تو اللہ اس بندے کو دیکھ کر خوش ہوتا اور فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ اس بندے کو کس چیز نے اس سرد رات میں اس کام پر راضی کیا ؟تو فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیری عطا کا طلبگار ہے ۔اللہ فرماتا ہے کہ گواہ ہو جاؤ کہ اس نے جو مانگا، میں نے اسے دے دیا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس بندے کو دیکھ کر اللہ خوش ہوجائے، اسے بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا۔
پرانے وقتوں میں تہجد بڑی کثرت اور اہتمام کے ساتھ پڑھنے کا رواج تھا۔ گھر کے بڑے بوڑھے مختلف افراد مرد وعورت سب رات کے آخری پہر بستر چھوڑتے، ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے ،مرد مسجد کی طرف چل دیتے ،خواتین گھروں میں نمازِ تہجد کا اہتمام کرتیں اور لوگ سپیدۂ سحر نمودار ہوتے تک اسی طرح اپنے محبوب رب کے ساتھ راز و نیاز میں ہمہ تن مصروف و منہمک رہتے، لیکن اب یہ نماز تہجد کا اہتمام اس انداز میں نظرنہیں آتا۔ حالانکہ اس وقت جو مانگا جائے دنیا و آخرت میں ضرورملے گا۔ نماز تہجد کی تفصیل کو اقبالؔ نے یہ کہہ کرگویا کوزہ میں دریا بند کر دیا کہ ؎
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ،بے آہ ِ سحر گاہی
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موسم سرما کی راتوں میں تہجد اور دنوں میں روزوں کو روبہ عمل لانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)