مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
حج کے معنیٰ ہیں: کسی باعظمت چیز کی طرف جانے کا قصد کرنا اور شریعت کی اصطلاح میں حج کہتے ہیں: مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کا طواف اور مقامِ عرفات میں قیام، ان خاص طریقوں سے جو نبی کریمﷺ نے بتائے ہیں اور اسی خاص زمانہ میں جو شریعت سے منقول ہے۔
’’حج‘‘ اسلام کی اہم ترین عبادت اور اسلام کا عظیم شعار ہے، جو بدنی اور مالی دونوں عبادتوں پر مشتمل ہے جو حضرات صحت اور مال دونوں نعمتوں سے مالا مال ہیں، ان کے لئے زندگی میں ایک بار بیت اللہ کا حج فرض ہے اور جو لوگ حضورﷺ کے اس فرمان کہ ’’حج اور عمرے پے درپے کرو، اس لئے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ایسا دور کرتے ہیں جیسے بھٹی سونے، چاندی اور لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے اور حج مقبول کا ثواب جنت ہے‘‘پر عمل کرکے اپنے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی کا حصول اور گناہوں سے پاک و صاف ہونے کا اعزاز حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے بھی شریعت نے ہر سال حج کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔
ہاں جو لوگ حج فرض ہونے کے باوجود حج میں تاخیر کرتے ہیں وہ شریعت کی نظر میں گناہ گار ہیں اور اگر حج کی فرضیت کا سرے سے کوئی انکار کرتا ہے تو وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
حج دین کے ان پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک عظیم القدر ستون ہے جن پر اسلام کے عقائد و اعمال کی پوری عمارت استوار ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں حضرت شعبہؒ کا قول نقل کیا ہے’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک حج کا سلسلہ بند نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری، ج:۱، ص:۲۱۷)
قابل صد مبارک باد ہیں وہ حجاج کرام کہ جن کا حج، حجِ مبرور ہو، جس کی جزا جنت ہے۔ رہا یہ سوال کہ حجِ مبرور کی علامت اور تعریف کیا ہے، اس میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱:... ۔حج مبرور وہ حج ہے جس میں حج کے مسائل اور اس کے مناسک پر پورے طور سے عمل ہوا ہو، مکمل طور پر اسے ادا کیا گیا ہو، یہ اسی وقت ہوگاجب حج کی ادائیگی شریعت اور سنت کی روشنی میں ہوگی، اپنی من مانی اور رخصتوں کی گنجائشوں کو تلاش کرکے خلاف سنت نہ کیا گیا ہو، نہ دم اور صدقہ واجبہ سے تلافی کی گئی ہو۔چنانچہ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: ’’الحج الذی وفیت احکامہ، ووقع موقعا‘‘ (فتح الباری، ج:۳، ص:۲۹۸)
۲:...۔حج مبرور وہ حج ہے جس میں ریا اور شہرت نہ ہو: ’’الذی لا ریاء ولا سمعۃ فیہ‘‘ (شرح لباب: ص:۲۹، مرقاۃ:۶؍۹۶) یعنی حج میں یہ نیت نہ ہو کہ لوگ جان لیں، تاکہ مجھ کو اچھا سمجھیں، لوگوں کومعلوم اور ظاہر ہوجائے کہ میں حج کی سعادت حاصل کررہا ہوں، لوگ میرے معتقد ہوجائیں۔ مجھے حاجی کہیں۔ اس سے آج کل عوام کا بچنا بہت مشکل ہورہا ہے۔
۳:...۔حج مبرور وہ ہے، جو قبول ہوجائے۔ ’’الحج المبرور المقبول ۔‘‘ (فتح الباری، ج:۳، ص:۲۹۸)
ظاہر ہے کہ حج میں مقبولیت کی شان اسی وقت پیدا ہوگی۔ جب اس میں حرام یا ملا جلا مال یا مشتبہ مال نہ لگایا ہو، خالص اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو، تقویٰ، خوفِ خدا شریعت اور سنت کے طریقہ پر کیا گیا ہو۔
۴:...۔حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ شامل نہ ہو۔ ’’الحج المبرور الذی لا یخالطہ شی ء من المأثم‘‘ (عمدۃ، ۹؍۱۳۳، شرح الباب:۲۹)
یعنی حج کے امور میں ایسی کوئی کمی، کوتاہی نہ ہوئی ہو جس سے گناہ ہوا ہو، جس کی تلافی دم یا صدقہ واجبہ سے کئی گئی ہو، یا یہ کہ حج میں عام گناہ جیسے بدنگاہی، بے پردگی، غیبت، ایذا رسانی، لڑائی جھگڑا وغیرہ یا جو گناہ غفلت اور نفس کی وجہ سے ہوجاتے ہیں۔ وہ نہ ہوئے ہوں، یہ بھی بڑی ہمت اور عزیمت کی بات ہے۔ عموماً عورتیں پردے کا اہتمام نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے مبرور سے محروم ہوجاتی ہیں۔
۵:... ۔حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد گناہوں سے بچتا ہو، گناہوں کا ارتکاب نہ ہوتا ہو، یعنی پہلے کے مقابلے میں اس میں احتیاط پیدا ہوگئی ہو، چونکہ گناہ کی سزا مواخذہ اور مبرور کی جزأ جنت دونوں میں تضاد ہے۔ ’’الذی لا یعقبہ معصیۃ۔‘‘
۶:... ۔حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد اس کے حالات پہلے سے بہتر ہوگئے ہوں۔ تقویٰ اور نیکی کے امور میں زیادتی ہوگئی ہو۔ (معارف السنن،ج:۶، ص:۲۳۲)
اعمال حسنہ اور ذکر وعبادت وغیرہ پہلے سے زائد ہورہے ہوں، آخرت کے اعمال میں زیادتی ہو۔ ’’من علامات القبول انہ اذا رجع یکون حالہ خیراً ماکان۔‘‘ (معارف السنن،ج: ۶، ص:۳۳۲)
’’فان رجع خیراً مما کان عرف انہ مبرور۔‘‘ (فتح الباری،ج: ۳، ص:۲۹۸)
۷:...۔حج مبرور وہ ہے جس میں حج کے بعد دنیا سے زہد، بے پرواہی اور آخرت کی جانب رغبت ہو، ’’ان یرجع زاہداً فی الدنیا راغباً فی الآخرۃ۔‘‘(القریٰ، ص:۳۴، شرح الباب: ص:۳۰) دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام حجاج کرام کو حج مبرور کی سعادت نصیب فرمائیں اور حج کرنے پر جن انعامات و فضائل کی آپ ﷺ نے بشارت دی ہے، ان کا مستحق و مورد بنائیں۔(آمین)