تفہیم المسائل
سوال: کیا عورت لاولد ہونے کی صورت میں اپنا تمام ترکہ اپنے بھتیجوں کے نام کرسکتی ہے، اگر وہ اپنا مال اپنے بہن بھائیوں کو نہیں دینا چاہتی تو کس حد تک بھتیجوں کے حق میں وصیت کرسکتی ہے ،(بنتِ حوا، لاہور)
جواب: اسلامی قانونِ وراثت میں ذوی الفروض مُقدّم ہیں ،یعنی جن ورثاء کے حصے قرآن مجید نے مقررکیے ہیں، پہلے انہیں اُن کا حصہ دیا جائے گا اورجو کچھ اُن سے بچ رہے، تو عصبات کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ کون وارث بنے گا، کون مُورِث یہ قبل ازوقت ہے، کسی شخص کے وفات پاجانے کی صورت میں اُس وقت جو ورثاء حیات ہوتے ہیں، وہی اس کے وارث بنتے ہیں اور حسبِ تناسب ترکے سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔
آپ اپنے تمام مال کی مالک ومختار ہیں، اپنے لیے جس قدر چاہیں، رکھیں، صدقاتِ جاریہ کی مَد میں جتنا صرف کرنا چاہیں، کریں۔ آپ کے بھائیوں اور بہنوں کی موجودگی میں بھتیجے وارث نہیں بنیں گے، لہٰذا ان کے لیے وصیت کرسکتی ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کی نظر میں پسندیدہ امریہ ہے کہ ورثاء کو بالکل محروم نہ کریں، اس لیے آپ ﷺ نے ورثاء کو محروم رکھ کر کل مال صدقہ کرنے کو پسند نہیں فرمایا، حدیث پاک میں ہے: ایک طویل حدیث میں سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں نے اپنی تکلیف کی شکایت کی اور دریافت کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! میرے پاس کچھ مال ہے اور میری ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے مال سے تین حصے صدقہ کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، آپ نے پوچھا: نصف (صدقہ کروں)آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، پھر فرمایا:’’ تہائی (صدقہ کرو) اور تہائی بھی بہت ہے، زیادہ ہے، اگر تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑو، یہ اُس سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کریں اور تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو کچھ خرچ کرو گے، اُس پر تمھیںاجر ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالوگے (ا س پربھی تمہیں اجر ملے گا )،(صحیح بخاری : 1295)‘‘۔
اس حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے زیر کفالت افراد پر اپنی کمائی سے جو خرچ کرتا ہے، اس پر عنداللہ اسے اجر ملتا ہے۔
اگر آپ کسی ایسے شخص کو جو وارث نہیں بن رہا، اپنے مال سے کچھ دینا چاہتی ہیں، تو کل مال کے تہائی حصے تک اس کے حق میں وصیت کرسکتی ہیں۔ بھائی اور بہنوں کو اپنا مال نہیں دینا چاہتیں، قبل از وقت یہ فیصلہ ممکن نہیں، آپ کی وفات کے وقت جو ورثاء حیات ہوں گے، ان کے درمیان ترکہ تقسیم کیا جائے گا اور خواہی نخواہی وہ اپنا حصہ پائیں گے، ترکے کی تقسیم آپ کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں ۔(واللہ اعلم بالصواب)