• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعہ 6 جنوری کی شام کو 15 پر پولیس کو اطلاع موصول ہوئی کہ سی ویو پر ایک لڑکی نے سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کر لی ہے، اطلاع ملنے پر پولیس افسران اور ریسکیو ادارے کے رضاکار بتائی گئی جگہ پر پہنچے اور لڑکی کی تلاش شروع کی۔ تاہم فوری طور پر لڑکی کا کچھ پتہ نہیں چل سکا،7 جنوری کا دن بھی لاش ڈھونڈتے ہوئے گزر گیا،ریسکیو ادارے اور پولیس ابھی یہ اندازہ لگا ہی رہے تھے کہ آیا یہ اطلاع ٹھیک بھی تھی یا نہیں کہ 8 جنوری کی صبح لڑکی کی لاش سی ویو دو دریا فرحان شہید پارک کے قریب سے مل گئی۔ لڑکی کی لاش کو فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کی شناخت 23 سالہ سارہ ملک دختر ابرار احمد کے نام سے ہوئی جو کہ ڈیفنس میں واقع ایک جانوروں کے اسپتال میں ملازمت کرتی تھی۔ 

ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ زاہدہ پروین کے مطابق ڈاکٹرز نے لڑکی کی لاش کا معائنہ اور پوسٹ مارٹم کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی لاش دو روز پُرانی نہیں بلکہ چند گھنٹے پرانی ہے، جس سے شق ہوا کہ اسے قتل کیا گیا ہے،پولیس نے لڑکی کے والد کی مدعیت میں ساحل تھانے میں اغواہ کا مقدمہ درج کیا تھا،لڑکی کے والد نے مقدمہ میں موقف اختیار کیا تھا کہ میری بچی نے ڈاکٹر شان سلیم اور بسمہ کی وجہ خودکُشی کی ،میری بیٹی نے 6 جنوری کو پہلے گھر فون کرکے اپنی ماں کو بتایا کہ شان سلیم جو کہ مذکورہ جانوروں کے اسپتال کا مالک ہے، نے اس سے زیادتی کی،ایس پی زاہدہ پروین کے مطابق مقدمہ میں پولیس نے قتل کی دفعات شامل کر لی ہیں۔

ایس ایس انویسٹی گیشن ساؤتھ زاہدہ پروین نے بتایا کہ پولیس نے جانوروں کے اسپتال کے مالک شان سلیم اور وقاص کو گرفتار کر لیا ہے، جب کہ مقدمہ میں نامزد ملزمہ بسمہ ابھی تک فرار ہے، جس کی تلاش جاری ہے،انہوں نے بتایا کہ سارہ ملک کی موت کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہے،انہوں نے کہا کہ سارہ ملک کیس کی تفتیش پر کام کیا گیا ہے، 6 جنوری کو دوپہر مددگار ون فائیو کو کالر جمال نامی شخص نے واقعہ کی اطلاع دی، کالر نے لڑکی کے ڈوبنے کی اطلاع دی تھی، لڑکی سے بیگ، جوتے، موزے اور اسپتال کارڈ سمیت دیگر اشیاء ملی تھیں، پولیس نے جانوروں کے اسپتال Rpk-critter care & Animal Hospital واقع ڈیفنس خیابان نشاط کو اطلاع دی تو معلوم ہوا کہ لڑکی اس اسپتال میں کام کرتی تھی، زاہدہ پروین کا مزید کہنا تھا کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش پانی میں ڈوبی ہوئی نہیں تھی،لاش کے چہرے پر موت سے پہلے کے کچھ نشانات بھی تھے، لڑکی کے جو کپڑے ملے، وہ وہی تھے جو مددگار ون فائیو پر کالر نے حلیہ بتایا تھا۔

ایس پی زاہدہ پروین نے کہا کہ لڑکی مبینہ طور پر ساحل پر بیٹھے 15 منٹ تک روتی بھی رہی، لڑکی نے کالر کو ڈانٹا بھی تھا، مددگار ون فائیو کا کالر اپنے بیان پر قائم ہے، کالر نے لڑکی کی ایک ویڈیو بھی بنائی جس میں اس کا سر بھی نظر آرہا تھا، مگر پولیس کو ایسے شواہد نہیں ملے، جمال نامی کالر کو بھی شامل تفتیش کیا گیا،ان کا کہنا ہے کہ والد نے جانوروں کے اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف میں شامل بسمہ کو مقدمے میں نامزد کروایا تھا، ریسپشن پر بیٹھی خاتون ارادھنا سے بھی تفتیش کی گئی ہے، مقتولہ سارہ فزیو تھراپسٹ تھی، مگر جانوروں کے لگاؤ کی وجہ سے یہاں کام کرتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دو سال کے عرصے میں مقتولہ کو شان سلیم نے ایڈمن میں عہدہ دیا اور ان کا تعلق قائم ہو گیا، اسپتال کے انتظامی امور سارہ ملک دیکھتی تھی، بسمہ کو 5 سے 6 ماہ قبل رکھا گیا تھا،بعد ازاں مقتولہ سارہ کو شان سلیم اور بسمہ کے تعلق کا علم ہوا تو اسے ٹھیس پہنچی، اس نے اس بات پر غصہ کیا، تو شان سلیم کے ساتھ اس کی تلخ کلامی ہوئی، جو جھگڑے میں بدل گئی،اس دوران ملزم شان سلیم نے اسپتال کے اندر ہی مقتولہ سارہ ملک کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد مقتولہ وہاں سے غصے میں چلی گئی، جب کہ اس کا موبائل فون ملزم شان سلیم اور بسمہ نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔

اس کے جانے کے بعد شان سلیم نے اسپتال کے اندر لگے کیمروں کی ساری فوٹیجز ڈیلیٹ کر دیں اور اسی وجہ سے پولیس نے فوری طور پر ملزم کو گرفتار کر لیا تھا،پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں مقتولہ کے منہ پر زخم کے نشان بھی ہیں،ان کا مزید کہنا ہے کہ وقاص اور شان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، شان اسپتال میں لڑکیوں کو ملازمت پر رکھتا تھا اور پھر ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان سے جنسی تعلق قائم کرتا تھا، شان سلیم کے تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی کئی لڑکیوں کو بلیک میل کر چکا ہے،اسپتال کا باقی اسٹاف شامل تفتیش ہے، وجہ موت حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سامنے آئے گی۔ 

ملزم وقاص کا بھی مقتولہ سے تعلق تھا، شان سلیم کے مطابق سارہ نے ایک بار ڈرگ بھی لی تھی،ایس پی انویسٹی گیشن زاہدہ پروین کے مطابق ان ملزمان نے اسپتال میں ایک عجیب ماحول بنایا ہوا تھا، ہر ایک کی کسی لڑکی سے دوستی تھی ، جب کہ ملزم شان سلیم کا کہنا ہے ہم نے ماحول ہی ایسا بنایا تھا کہ مالک اور ملازم کا تعلق نہ لگے، بسمہ فرار ہو گئی ہے، اسے تلاش کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ملزم وقاص اسپتال کےساتھ ہی موجود جانوروں کی فیڈ کی دکان میں کام کرتا تھا اور ملزم شان سلیم کا اس دکان میں پارٹنر بھی تھا۔ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ کے مطابق موت کی حتمی وجہ مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہو سکے گی،ڈی این اے سیمپل، پیٹ کے کیمیکلز اور باقی کیمیکل رپورٹس کا انتظار ہے ، جس میں پوری طرح واضح ہو گا کہ وجہ موت کیا تھی؟

مقتولہ سارہ ملک فزیو تھراپسٹ تھی، تاہم دوسال سے وہ مذکورہ جانوروں کے اسپتال میں پہلے استقبالیہ پر اور پھر ایڈمن میں کام کر رہی تھی،مقتولہ محمود آباد کی رہائشی تھی۔ پولیس نے ملزم شان سلیم کا ریمانڈ عدالت سے حاصل کر لیا ہے اور اس سے مزید تفتیش جاری ہے۔ملزم وقاص کا بھی جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے ،ملزم وقاص ساری واردات میں شان سلیم کےساتھ تھا، جب کہ مقتولہ سارہ ملک کا موبائل فون بھی ملزمان سے برآمد کر لیا گیا ہے، جسے فارنزک معائنہ کے لیے ماہرین کو بھیجا جا رہا ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید