ایشیائی ممالک میں کیڑے مار ادویات استعمال کرنے والا ملکوں میں پاکستان کا شمار دوئم نمبر پر کیا جاتا ہے جہاں اس وقت 30عالمی اور 10 سے زائد مقامی کمپنیز سرگرم عمل ہیں دنیا میں دو ارب افراد اپنی فصلیں، سبزیاں اور باغات بچانے کے لئے ان ادویہ کا استعمال بتدریج کرتے ہیں جبکہ ڈھائی کروڑ ورکرز ان کے استعمال سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں پاکستان میں صورت حال دیگر ممالک کی نسبت زیادہ سنگین ہے عالمی ادارہ صحت نے ان کیمیاوی ادویہ کے استعمال کے حوالے سے باقاعدہ قوانین مرتب کئے ہیں ،تاہم ان میں اب تک کسی پر بھی عمل پیرا نہیں ہو سکا ہے۔
حشرات کش ادویات دنیا میں فروخت ہونے والی دوسری اہم پروڈکٹ تصور کی جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کیڑے مار ادویات کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 16.58 بلین امریکن ڈالر تھی اور یہ 2025 تک بڑھ کر تقریباً 22.86 بلین امریکن ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ لفظ Cide کے لفظی معنی مار دینا کے ہیں ماضی میں اس کو صرف جڑی بوٹیوں، حشرات / کیڑے چوہے وغیرہ کو ختم کرنے کے لیے متعارف کروایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کا ہدف اب ان ٹارگٹ سے ہٹ کر کہیں آگے تک جا چکا ہے، جس میں بنیادی طور پر صحت اور ماحول کی تباہی ہے۔
کیڑے مار ادویات کو کئی طریقوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے جسے میں ہدف والی جاندار ماخذ اور کیمیائی ساخت ہدف والے جانوروں کی بنیاد پر کیڑے مار ادویات کو کیڑے مار دوائوں، جڑی بوٹیوں سے دوچار کرنے والے فنگسائڈز، بیکٹر سائڈز وغیرہ کی تقسیم شامل ہے جو ان کیڑوں کو کنٹرول کرتی ہیں اور جڑی بوٹیوں کی دوائیں جڑی بوٹیوں کی افزائش کو زیادتی سے روکتی ہیں۔ کیڑے مار دوائیں دراصل وہ مادّے ہیں جو ایک یا ایک سے زیادہ پرجاتیوں کے کیڑوں کو کم کرنے میں معاون ہیں۔
ان کا استعمال زرعی شعبے میں کیڑے مکوڑوں پر قابو پانے کے لیے کیا جاتا ہے جو کاشت شدہ فیصلوں کو متاثر کرتی ہیں ان میں بالترتیب کیڑوں کے انڈوں اور لاوا کے خلاف استعمال ہونے والے Oviudes اور Larvilibes شامل ہیں۔ 20ویں صدی میں یک دم سے اس کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کے بتدریج استعمال سے ماحول اور انسانی صحت پر ناگزیر اثرات مرتب ہوئے اور اب یہ موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے کیڑوں حشرات کی بڑھتی ہوئی تعداد فصلوں، پودوں، باغات کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ لہٰذا ان حشرات سے لڑنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی کیمیکل کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ان کیڑوں سے لڑنے کے لئے فصلوں کو بہترین تحفظ فراہم کرنے کے لیے حشرات کش ادویات کا استعمال ضروری ہے۔جن میں کچھ مخصوص فصلوں کو خصوصی طور پر کھاتی ہیں، نامیاتی کاشتکاری سمیت تقریباً تمام تجارتی زرعی ضروریات کے لیے کیڑے مار ادویات کی ضرورت ہے جیسا کہ نامیاتی پیداوار میں دلچسپی بڑی ہے کسانوں کو بھی اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔
عموماً کیڑے مار ادویات اپنے فعال اجزا اور فارمولیشنز میں مختلف ہوتی ہیں فعال اجزاء کیڑے مار دوا کے عمل کے لیے ذمہ دار ہے یہ بھی تعین کرتا ہے کہ کیڑے مار دوا پودوں کے ذریعے نظامی طور پر کس طرح منتقل ہوگی اور پھر کون سے اثرات مرتب کرے گی کیڑے مار ادویات کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں نظامی کیڑے مار ادویات جن میں بقایا یا طویل مدتی سرگرمی ہوتی ہے اور کیڑے مار ادویات سے ان کے Systematic کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ان کی درجہ بندی میں اول Systematic insecticdes ہیں جو کہ نظامی کیڑے مار ادویات پلانٹ میں نظامی طور پر شامل اور تقسیم ہو جاتی ہے جب کیڑے پودے کھاتا ہیں تو وہ کیڑے مار دوا بھی ساتھ کھا جاتے ہیں ٹرانسجینک پودوں کے ذریعہ تیار کردہ نظامی کیڑے مار ادویات کو پلانٹ، انکارپورٹیڈ پروٹسٹین (PIPS) کہا جاتا ہے مثال کے طور پر یہ تجربہ مکئی اور کئی دوسری فصلوں پر کیا گیا جس میں ان پر ایک پروٹین حفاظتی تہہ کے طور پر روشناس کروائ یگئی۔
اس قسم کی کیڑے مار دوا مٹی میں دی جاتی ہے تا کہ یہ پودوں کی جڑوں سے آسانی سے جزب ہو جائے ایک بار جب کیڑے مار دوا جڑوں میں داخل ہو جاتی ہے تو یہ بیرونی علاقوں جیسے پتوں، پھنوں پھولوں، ٹہنیوں تنے اور شاخوں میں منتقل ہو جاتی ہے یہ پودے کی سطح پر ایک حفاظتی تہہ بناتا ہے اور پھر یہ کسی بھی کیڑے کیلئے زہر کا کام کرتا ہے۔اور دوسرا Contact Insecticdes کیڑے مار ادویات براہ راست رابطے پر کیڑوں کے لئے زہریلی ہوتی ہیں جو کیڑوں کی جلدمیں داخل ہو سکتی ہیں۔
یہ غیر نامیاتی کیڑے مار ادویات ہو سکتی ہیں ان دھاتیں میں سلفر اور کم عام استعمال ہونے والے آرسینیٹ تانبے اور فلورین مرکبات شامل ہیں۔ یہ Contact ادویات گولیوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ ان گولیوں کا مقصد صرف ایک خاص ہدف پر ہوتا ہے، تا کہ ان کے استعمال سے کیڑوں کو مارا جا سکے۔ عام طور پر گھریلو کیڑے مار اسپرے براہ راست کیڑوں کو ٹارگٹ کر کے مار دیتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں حشرات کے علاوہ کسان برادری کے لیے اور کوئی دوسرا متبادل راستہ نہیں ہے یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو وسیع پیمانے پر استعمال کرتے ہیں یہ مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے۔ فوری اثر کی وجہ سے کیڑے بروقت تلف ہو جاتے ہیں۔ عموماً اس کے درج ذیل فوائد دیکھے گئے ہیں۔
٭ کیڑے مار ادویات پیداوار میں اضافہ کرتی ہیں، پیداوار اور آمدنی کو بہتر بنا سکتی ہیں۔
٭یہ کیڑوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کا ایک آسان اور موثر طریقہ ہے ،جو بصورت دیگر فصلوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کیڑے مار ادویات کے بغیر کاشت کی کئی فصلوں کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا، جس کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی کا نقصان ہوگا اور فصلوں کو اُگانے کے لیے استعمال ہونے والے وسائل کا بھی ضیاع ہوگا ،کیڑے مار ادویات کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کرنا ممکن ہے، تاہم ان کا حد درجہ استعمال میں ماحولیاتی پیچیدگیوں کے علاوہ کیڑوں میں پیدا ہونے والے مزاحمت ثانوی کیڑوں کے دوبارہ پیدا ہونے اور پھیلنے غیر ہدف والے جانداروں پر منفی اثرات، قابل اعتراض کیڑے مار ادویات کی باقیات اور براہ راست خطرات شامل ہیں۔
صارف کیڑے مار دوا کے استعمال کے خلاف کیڑوں کے خلاف مزاحمت میں اضافہ سنگین رکاوٹ ہے۔ زرعی زہروں کی تیاری کے دوران گاڑھے پائوڈر اور دانے دار زہروں سے پیدا ہونے والے زرات بچوں کے سانس کی نالیوں کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں ایسے کھیت جہاں پر حشرات کش ادویات کا اسپرے ہوا ہے وہاں کھیت میں کام کرنےوالے بچوں کو براہ راست اس کی زد میں آتے ہیں۔جڑی بوٹیوں کی تلفی کے دوران ان پودوں کو چھونے اور دیگر امور کی انجام دہی کے دوران یا جس جگہ زہریں استعمال ہو چکی ہیں۔ وہاں محض سانس لیتے ہوئے بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
فصلوں پر استعمال کی گئیں زرعی زہریں زمین پانی کے ذخائر میں داخل ہو سکتی ہے، جب اس پانی کو کنویں سے باہر نکالا جاتا ہے تو یہ فرق کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ پانی آلودہ ہے یا نہیں۔ اس طرح زرعی زہروں کے استعمال شدہ ڈبوں کو جب نہروں، تالابوں اور دریائوں میں بہایا جاتا ہے تو یہ پانی آلودہ ہو جاتا ہے اور اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔جہاں ان زرعی زہروں کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے اور جن دنوں ہوائیں چل رہی ہوں ۔ کسانوں کو زرعی زہروں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حالیہ FAO نے زرعی زہروں کے استعمال کے بعد کئی حفاظتی سفارشات تجویز کی ہیں ۔
٭ زہروں کے استعمال شدہ ڈبوں کا دوبارہ استعمال نہ کیا جائے۔
٭ کمسن بچے زمین پر کھیلتے ہیں وہ چیزوں کو اپنے منہ میں ڈال لیتے ہیں اور رنگ برنگ ڈبوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
٭ ڈبوں پر درج ہدایات کو غور سے پڑھنا چاہئے۔
٭ زرعی زہروں کی مسکنگ، محلول کی تیاری اور Pesticides کی خرید و فروخت کے لیے بچوں سے معاونت نہ لی جائے۔
٭ کھیت اور گھر پر زرعی زہروں کے بجائے ضرر رساں کیڑوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسے طریقے اپنانے چاہیے جو کہ کم سےکم نقصان دہ ہوں۔
٭ زرعی زہروں کے استعمال کے دوران مکمل حفاظتی لباس کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
٭ کسان برادری کو زہریلی ادویات کے ڈبوں پر بنے ہوئے سائن یا نشانیوں کے بارے میں مکمل شناخت اور آگاہی فراہم کی جائے۔
٭ تمام اسپرے شدہ خوراک کو دو/ تین بار پانی سے دھو کر پھر استعمال میں لایا جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حشرات کش ادویات کا متبادل ذریعہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس کا حقیقت پسندانہ جواب صرف اور صرف یہ ہی بنتا ہے کہ اگربسٹیسائیڈز( Pesticides) کو Bio Pesticides قدرتی حشرات کش ادویات سے تبدیل کیا جائے تو یہ ہی بہترین طریقہ کار ہوگا۔ روایتی کیمیائی کیڑے مار ادویات کے مقابلے میں بایو بسٹیسائیڈز سے کم حفاظتی خطرات لاحق ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ عالمی پیمانے پر فصلوں کے نقصان کا حجم اربوں ڈالرز میں بتایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں دو ارب سے زائد کاشت کار کیڑے مار ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن کے فوائد بھی سامنے آتے ہیں۔
اب فی ایکڑ پیداوار میں جدید کھادوں اور حفاظتی اسپرے سے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور ان ادویات سے ماحول اور انسانی صحت کو ناقابل تلافی نقصان کا موجب بنی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب جدید دنیا کی نظر صرف اب ایسی بائیو ٹکسٹیکس کے استعمال پر ہے، جس کی وجہ سے اس تباہی و بربادی کا سدباب کیا جا سکے، جس سے کیمیاوی اسپرے پر انحصار کم سے کم ہو سکتے ہائپرڈ بیج اس کی ایک مثال ہے جسے کیڑے نقصان نہیں پہنچا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے لان اور باغ میں غیر کیمیاوی نظام کے طریقے استعمال کرنے کی کوشش کریں، جس میں فائدہ مند کیڑے اور جنگلی مقامی پودوں کو متعارف کروانا یا باہر کیمیائی استعمال کو کم کرنے کے لئے جسمانی سرگرمی جس میں ہاتھ سے گھاس پھوس ہٹانا چونا ڈالنا اور دوسرے مضر کیڑوں کے فروغ کو روکنا شامل ہے۔ ان دوست جانداروں میں مائکرویس وہ چھوٹے چھوٹے جاندار ہیں، جس میں بیکٹیریا اور فنگی وہ روایتی کیمیکلز کے مقابلے میں اپنی سرگرمیوں میں زیادہ پائیدار ہیں۔
مثال کے طور پر ایک مخصوص فنگس بعض ناپسندیدہ گھاسوں کو کنٹرول کر سکتی ہے اور دوسری فنگس کئی دوسرے کیڑوں کو ٹارگٹ کرتی ہے اور سب سے زیادہ عام مائکرو بیل Bio Pestcides میں (Bacillus) گروپ ہے جو فطری طور پر مضر حشرات کا صفایا کرتا ہے اور یہ ماحول دوست جاندار ہیں جن کو استعمال میں لایا جائے۔ (Plant-Incorporduted Potectants (PIPS یہ وہ جین اور پروٹین ہیں جو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے پودوں میں متعارف کرائے جاتے ہیں۔ وہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ پودے کی خود کو کیڑوں سے بچانے کی اجازت دیتے ہیں۔ جیسے کہ بعض کیڑوں یا والڈسز۔
مثال کے طور پر پرکھ پودے اپنی یافتوں میں کیڑے مارنے والی پروٹین تیار کرتے ہیں وہ ایسا کر سکتے ہیں ،کیونکہ Bacilleis thuringiensis کے جین پودوں کے DNA میں داخل کئے جاتے ہیں اور پھر مختلف قسم کے پروٹین مختلف قسم کے کیڑوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ بسٹیسائیڈز استعمال کرتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ مثلاً اسپرے کے دوران استعمال شدہ کیڑوں کو بقایاکیڑوں اور بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جا سکے۔ اسپرے کے دوران مکمل حفاظتی لباس زیب تن کیا جائے۔ اسپرے کےدوران کھانے پینے سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
فصلوں کو لگانے کا طریقہ کار بھی تبدیل کیا جائے اور ایک فصل کی کٹائی کے بعد کوئی دوسری متبادلہ فصل کو کاشت کیا جائے ،تا کہ کیڑوں اور حشرات کو ان کی مطلوبہ خوراک نہ مل سکے۔ اس طرح ان کا افزائش پانا ناممکن ہو جائے گا۔ عموماً کیمیائی مادّے ہماری خوراک کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ Pollinators کے لیے بھی نقصان دہ ہیں نہ صرف یہ بلکہ یہ ایکوسسٹم کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں ،جس کی وجہ سے ایکوسسٹم کا توازن برقرار نہیں رہ سکتا اور کئی طرح کے فوڈ چین متاثر ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا اس امر کو ضروری بنایا جائے کہ ممکنہ حد تک Pest حشرات کی انٹری کو روکا جا سکے، تا کہ پھر کسی بھی کیمیکل کا سہارا نہ لیا جائے۔اس کی مطلوبہ تعداد کو برقرار رکھنے کے لیےعموماً صرف ان پروڈکٹ کا انتخاب کیا جائے جو کہ آپ کی ضرورت کے مطابق بہتر ہوں اور ضرورت ختم ہونے پر ان کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ ہر فصل پر اسپرے کرنے والی ادویہ کا ٹائم اور مقدار بھی تبدیل کی جائے اور دوسرے اسپرے میں پہلی ادویہ کو Repeat نہ کیا جائے۔
اس طرح حشرات میں مزاحمتی قوت بیدار نہیں ہوگی NCBI کی حالیہ تحقیق کے مطابق بسٹیسائیڈز نہ صرف صحت اور ماحول کو متاثر کرتی ہیں بلکہ یہ پرندے پھلوں، فائدہ مند حشرات اور غیر حذف والے پودے بھی شامل ہیں۔ لہٰذا اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ قدرت کے بنائے ہوئے قوانین سے تجاوز نہ کیا جائے اور زیادہ پیداوار حاصل کرنے کی حوض میں ماحول اور صحت کا سودا نہ کیا جائے۔
حکومت کو ملک میں Pesticide- free- foome کو متعارف کروائے تا کہ ملک سے ماحول اور صحت کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد ملے۔ مزید برآں یہ کہ ہمیں بھی ملک بھوٹان کی طرح اپنے ملک میں ایسی اصلاحات روشناس کروانے کی ضرورت ہے ،جس میں کیمیکل کے استعمال پر مکمل پابندی ہو اور ملک میں صرف اور صرف Free- Pesticides پروڈکٹ کے انعقاد اور کاشت کو فروغ دیا جائے۔
وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسرے قدرتی ذرائع کو بروئے کار لایا جائے، تا کہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ افراد خصوصاً کسان برادری کے صحت سے وابستہ مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے اور پاکستان کو بھوٹان کی طرح Free- Pesticides States کے طور پر دنیا میں روشناس کروایا جائے۔ اس طرح کر کے ہم عالمی چینلجوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی دوست ممالک میں اپنا ایک منفرد مقام بنا سکتے ہیں۔