• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران احمد سلفی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو، محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔ بےشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تم (اپنی تنگ دستی کے باعث) ان (مستحقین) سے گریز کرنا چاہتے ہو اپنے رب کی جانب سے رحمت (خوش حالی) کے انتظار میں جس کی تم توقع رکھتے ہو تو ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔ بے شک آپ کا رب جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بےشک، وہ اپنے بندوں (کے اعمال و احوال) کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے (سورۂ بنی اسرائیل:۲۶ تا۳۰)

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرابت داروں، محتاجوں اور مسافروں کے حق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی ہے، اور ان کی مالی اعانت کے حوالے سے لوگوں کو متوجہ فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ اپنا مال فضول خرچی اور شاہ خرچی کے کاموں میں نہ اڑاؤ ،بلکہ اپنے قریبی عزیز و اقارب، والدین، بیوی بچوں، بہنوں بھائیوں کی حقیقی ضروریات پر خرچ کرو۔ اسی طرح ان کے علاوہ دیگر ضروت مندوں، محتاجوں اور مسافروں کی مالی طور پر امداد کرو۔ ایسے لوگوں کو حدیث میں قابل رشک قرار دیا گیا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’صرف دو ہی لوگ قابل رشک ہیں، ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کیا اور اسے خیر و بھلائی اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق دی۔ دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل ودانائی اور معاملہ فہمی دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق درست فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

خصوصاً اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنے کو حدیث میں صدقہ شمار فرمایا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، سیدنا ابومسعود انصاری ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر اللہ کا حکم ادا کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اسے اس میں صدقہ کا ثواب ملے گا‘‘۔

اسی طرح ضرورت مندوں پر خرچ کرنے والوں کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے ساتھ (اچھا) سلوک کرنے والا ایسا ہے، جیسا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا یا جیسے رات کو عبادت کرنے والا اور دن کو روزہ رکھنے والا‘‘۔

اس کے علاوہ ان آیات میں لوگوں کو متنبہ کیا گیا کہ اگر تنگ دستی کی وجہ سے تم کسی کی مالی اعانت نہیں کر سکو تو ان سے سختی سے بات نہ کرو اور ان کی دل آزاری نہ کرو، بلکہ انہیں کسی مناسب وقت تک کے انتظار کا کہہ کر نرم بات کرو۔

آگے خرچ کرنے کا انداز بتایا کہ جب مالی وسعت ہو اور لوگوں کی ضروریات کے حوالے سے مدد کے طور پر خرچ کرنے کا جذبہ ہو تو اپنا ہاتھ اتنا کھلا نہ کرو کہ سب کچھ دے بیٹھو اور پھر ایمان کی کمزوری کی وجہ سے تنگ دستی کا رونا رؤو اور نہ اپنا ہاتھ اتنا پیچھے کھینچو کہ بالکل گلے ہی سے لگا لو ، بلکہ درمیانی روش اختیا ر کرو۔

آگے آیت میں فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، وہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے، بےشک وہ اپنے بندوں کے اعمال و احوال کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے کہ کون مال کے حقوق ادا کرتے ہوئے اسے اللہ کے راستے میں، خیر کے کاموں میں اور صدقات و خیرات کے مصارف میں استعمال کر رہا ہے اور کون اسے گناہ و معصیت کے کاموں میں ، ذاتی شاہ خرچیوں میں لُٹا رہا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین اور قرابت داروں سے بھلائی کرو۔(سورۃ النساء، 36) لہٰذا ہر قریبی عزیز پر واجب ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتے دار سے صلہ رحمی کرے۔ اس کی مالی اور اخلاقی لحاظ سے ہر ممکن مدد کرے۔ صلہ رحمی کی ترغیب کے لیے بہت سی احادیث ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔(مسند الجامع)

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں مالی حقوق کو کامل طریقے سے ادا کرنے اور اللہ کے راستے میں نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق نصیب فرمائے۔( آمین)