اسلام آباد ( تبصرہ، انصار عباسی) پی ڈی ایم کی جانب سے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے قبول کرنے کا مقصد بظاہر شہباز شریف حکومت اور حکمران جماعت کے من پسند قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کو بچانا لگتا ہے تاکہ مستقبل میں اہم سیاسی فیصلے اپنی مرضی سے کیے جا سکیں۔
پی ڈی ایم اب تک پی ٹی آئی ارکان کے استعفے قبول کرنے سے گریزاں تھی اور چاہتی تھی کہ سرکردہ اپوزیشن جماعت کے ارکان قومی اسمبلی میں واپس آئیں، لیکن اب حکمران اتحاد نے اسلئے یوٹرن لیا ہے کیونکہ حال ہی میں عمران خان نے شہباز شریف حکومت کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔
پرویز الٰہی کیلئے اعتماد کا کامیاب ووٹ حاصل کرنے اور اس کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے اس حکمت عملی کا اعلان کیا تھا کہ شہباز شریف حکومت کو ہٹانے کیلئے صدر عارف علوی کے ذریعے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کہا جائے گا۔
پی ٹی آئی کو یقین تھا کہ شہباز شریف اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے۔ پی ٹی آئی نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ جیسے ہی شہباز شریف حکومت ہٹ جائے گی، قومی اسمبلی واپس جاکر پی ڈی ایم کو دوبارہ حکومت بنانے سے روکا جائیگا۔
پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، پارلیمانی لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے بھی مانگے تھے۔ جواباً، پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت نے فوری مشاورت کے بعد مرحلہ وار پی ٹی آئی والوں کے استعفے منظور کرنے کا فیصلہ کیا۔
مقصد یہ تھا کہ پہلے پی ڈی ایم کی شہباز شریف حکومت کو بچایا جائے اور اس کے بعد اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر برقرار رہیں۔ اگرچہ سرکاری دستاویزات کے مطابق راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہیں لیکن دراصل وہ پی ڈی ایم کی عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
آئندہ عام انتخابات کیلئے راجہ ریاض سے نون لیگ نے پارٹی ٹکٹ کا وعدہ کیا ہے، نون لیگ کے صدر وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ جب بھی آئندہ انتخابات کا اعلان ہوا، شہباز شریف نگراں وزیراعظم کے نام کیلئے راجہ ریاض سے مشورہ کریں گے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کے درمیان اس طرح کی مفاہمت کے تحت نگراں وزیراعظم پی ڈی ایم کی پسند کا ہوسکتا ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی یہ بھی مطالبہ کر رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل کی جائے۔ لیکن یہاں بھی شہباز شریف اور راجہ ریاض یہ دیکھیں گے کہ آیا کسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت ہے یا موجودہ کمیشن ہی عام انتخابات کرائے گا۔
نون لیگ کے اہم وزرا کے ساتھ پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ پی ڈی ایم پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے الیکشن لڑنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہوگی لیکن حکمران اتحاد میں یہ امید پائی جاتی ہے کہ انتخابات 90؍ روز میں نہیں ہونگے۔
ایک وزیر نے بتایا کہ انتخابات میں التوا کیلئے شاید کچھ ہوجائے۔ کچھ پی ڈی ایم رہنما مردم شماری کے معاملے اور اس کے نتیجے میں حلقوں کی حد بندی کیلئے قانونی ضروریات کا بھی حوالہ دیا۔ اس سے الیکشن میں تعطل آسکتا ہے۔ باضابطہ طور پر دیکھا جائے تو یہ ذرائع کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا بھی یہی موقف ہے لیکن خدشات ہیں کہ انتخابات میں التوا کیلئے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔