• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریب میں پڑھا جانے والا ڈاکٹر فہمیدہ تبسّم کا ایک خوب صُورت مضمون قارئین کے حُسنِ ذوق کی نذر ہے۔

’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ ایک ایسی ہستی کے قلم کا شاہ کار ہے، جس کے حرف وبیان کے سحر میں ایک عالم گرفتار ہے، جو تحریر و تقریر کے ذریعے دِلوں کو مسخّر کرنے کے فن سے آشنا ہے اور جس کی توفیقات و کمالات کی دنیا میں معجزۂ فن کی نمود کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ہم میں سے بیش تر لوگ، جن کے شعور کی آنکھ سیارہ ڈائجسٹ، اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی، تکبیر اور نوائے وقت کی آغوش میں کُھلی، خانوادۂ نعیم صدیقی کی فکری تجلّیات سے بخوبی آشنا ہیں۔ 

اپنی شعری تصنیف میں عرفان صدیقی نے اسی نسبت کا حوالہ دیا ہے۔ ؎ وہ میرا فلسفۂ شعروادب جانتا ہے…جو میرا سلسلۂ نام و نسب جانتا ہے۔اور ؎ قلم بھی سرمایۂ تفاخر ہے اور میرا شجرۂ نسب بھی…حضورؐ کے جانشینِ اوّل کی نسبتوں سے ملا ہوا ہے۔ خرد افروزی کی روایت کے امین، عرفان صدیقی کی وجۂ شہرت اور اوّلین تعارف اُن کی خُوب صُورت ادبی نثر کا شاہ کار اُن کا کالم ’’نقشِ خیال‘‘ ہے۔

اگرچہ اُن کی صحافتی و ادبی خدمات کا شان دار ماضی دیگر جہات کے حوالے سے بھی ہمارے سامنے ہے، لیکن’’ نقشِ خیال‘‘کی نثر نے پہلی بار ادب اور صحافت کے مابین قربتوں کو جنم دیا۔اپنے شستہ و رفتہ اسلوب اور شان دار ادبی زبان کی وجہ سے ’’نقشِ خیال‘‘ محض ایک کالم ہی نہیں، بلکہ ایک صاحبِ بصیرت ادیب کے قلم کا کرشمہ ہے۔نظریاتی و سیاسی وابستگی، دانش، تجربے اور اعلیٰ سیاسی و سماجی شعور نے اس کالم کو تحریک کا درجہ عطا کیا۔اپنے نظریے سے بھرپور وفا اور ثابت قدمی صدیقی صاحب کا شعار ہے۔ ؎ تمھیں خبر ہے میرے مسلکِ رفاقت میں… گر یز پائی کوئی راستہ نہیں رکھتی۔

’’ گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ سے پہلے اُن کی بھرپور علمی و ادبی شخصیت کا ایک اظہار اُن کے ڈراموں کے مجموعے’’بھید بَھری خاموشی‘‘ میں بھی موجود ہے۔پھر اُن کے اسفارِ حجازِ مقدّس پر مشتمل کتاب’’مکّہ و مدینہ‘‘ جذبے کی شدّت و وارفتگی کی جو داستان سُناتی ہے، اُسے چشمِ نم کے بغیر سُنا جا سکتا ہے، نہ پڑھا جا سکتا ہے۔صدیقی صاحب بہترین نثر نگار، صحافی، کالم نگار، صدا کار، استاد اور سیاست دان ہیں۔اُنھیں بیک وقت تحریر و تقریر پہ بلا کی دسترس حاصل ہے۔

اُن کی شعری صلاحیت سے متعلق شاید عام لوگوں کو علم نہ ہو، لیکن اُن کے کالموں کی نثر میں موجود شعریت میں اس کا پتا موجود ہے۔ تاہم ’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ کے ذریعے ہم اُن کی شعری کائنات تک بھرپور رسائی کے قابل ہوئے ہیں۔یہ کائنات اِتنا عرصہ مستور کیوں رہی؟ یہ ایک سادہ سا سوال ہے، جس کا جواب خود صاحبِ کتاب نے فراہم کر دیا ہے،’’ مَیں نے شعر عُمر کے اُس حصّے میں لکھنے شروع کیے، جب بڑوں کو اپنے اِس وصفِ حمیدہ سے آگاہ کرنا گناہ خیال کیا جاتا ہے۔ 

بچپن کے عہدِ معصومیت میں نمو پانے والا یہ احساسِ جرم رفتہ رفتہ پختہ ہوتا چلا گیا اور میرے لیے شاعری پیرایۂ اظہارکی بجائے پردۂ اَسرار بن کے رہ گئی۔‘‘اپنی شعری تصنیف کو منظرِ عام پر لا کر اُنھوں نے اس پردۂ اسرار کی ریشمی ڈوریاں کھینچ دیں اور اب اِک جہانِ نو ہمارے سامنے ہے، جہاں وداع و وصل، جہانِ گم گشتہ کی آرزو، حسرتِ ناکام، عذابِ آگہی کے ساتھ ساتھ سیاستِ دوراں کی بوالعجبی، وفا وجفا کی کہانیاں اور سماجی ناانصافی کی زندہ تصویریں موجود ہیں۔

اگرچہ صدیقی صاحب نے کسرِ نفسی کرتے ہوئے اپنی شاعری کو فقط اپنی ذاتی اور نجی ڈائری کے اوراق کہا ہے، لیکن درحقیقت یہ محض ایک نابغۂ روزگار دانش وَر کا عِجز ہے۔ اُن کی شاعری میں خارج و باطن کے سبھی موسموں کی خوش بُو ہے۔ یہ شاعری فقط محبّت کے رومانی عہد کی مسافتوں، رفاقتوں، قربتوں اور فرصتوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ زندگی کی مکمل تصویر گری ہے۔ ہاں، ہم کہہ سکتے ہیں رومان کی حد بندی وہ نہیں، جو فقط ایک ذاتی تجربے سے مشروط ہوا کرتی ہے، یہ وہ رومان بھی ہے، جو فرد کے داخل کو سماج کے خارج سے ہم آویز کرتا ہے۔

اِس شعری تصنیف میں موجود تمام کیفیات، تجربے اور مشاہدے عمومی انسانی مزاج کی حکایتیں ہیں، لیکن ذکرِ دنیا سے ذرا پہلے جو ذکرِ محبوبِ حقیقی ہوا ہے، اس میں ڈوب کر کوئی فوراً اگلے شعر کی سمت روانہ نہیں ہوسکتا۔ ؎ ہر ایک دھڑکن میں خوشبوؤں کا جہاں تاز ہ بسا ہوا ہے… مِرے محمّدﷺ کا نام میری بیاضِ دل پہ لکھا ہوا ہے… وہ لوگ بھی کس نصیبِ عالی کی رفعتوں کے امین ٹھہرے… وہ لوگ، جن کو حضورؐ سے اذنِ باریابی ملا ہوا ہے۔

عرفان صدیقی کی نظمیہ و غزلیہ شاعری میں ندرت طبع اپنے جوبن پر ہے، خصوصاً ان کی نظموں میں ایسی خُوب صُورت شاعرانہ فکر ہے، جو نہ صرف موضوع کو نیا حُسن عطا کرتی ہے، بلکہ لفظی تاثر کی بنا پر بھی دل نشیں تاثر چھوڑتی ہے۔ ؎ یہ کون ماضی کی نارسا ٹہنیوں کے چلمن سے جھانکتا ہے…نہ اس کی آنکھوں میں نیلگوں پانیوں کی ہلچل…نہ اُس کے ماتھے سے چاند پھوٹیں…نہ اس کے ہونٹوں پہ آبشاروں کی نغمگی ہے…وہ مسکرائے تو گوشۂ لب سے پُھو ٹتی…میری یادوں کی چا ندنی ہو…وہ چُپ رہے تو فضا میں ہر سُو…میرے تکلّم کی نغمگی ہو۔‘‘ان کی کئی نظموں کے حصّے وحدتِ فکر کی بنا پر پوری نظم ہیں۔ مثلاً ’’کوئی تو ہو‘‘، ’’وہ شام ‘‘، ’’نئے طاق میں پرانی شمع‘‘، ’’شہرِ دل‘‘ اور’’کوئی ایسے بھی کرتا ہے‘‘ وغیرہ۔

’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘کا معنوی نیوکلیس ان نظموں میں پوشیدہ ہے، جو دائمی جُدائی اور نارسائی کی نظمیں ہیں۔ ؎ یہی رازِ نہاں ہے اور ایک آرزوئے دل… کہ آؤ دو چار قدم ساتھ چلیں…وقت کا دائرہ پھیلے گا تو لمحہ لمحہ…فاصلے بڑھتے چلے جائیں گے…پھر نہ یہ شام، نہ یہ رُت، نہ یہ موسم ہوں گے…تُو کسی اور جزیرے کے سفر پہ ہو گا…اور مَیں وقت کی دہلیز پہ تنہا بیٹھا…آتی جاتی ہوئی ہر شام کے پیراہن سے…تیری خوشبو کا پتا پوچھوں گا۔

عرفان صدیقی کا غزلیہ کلام اُن کی نظم سے انحراف نہیں کرتا، لیکن موضوعاتی تنوّع کا اظہار ضرور کرتا ہے۔اُن کی نظم دائرہ در دائرہ وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔یہ زلف میں گرفتاری سے قلم کی گرفتاری تک کے مناظر پیش کرتی ہے، لیکن غزل میں وہ مضامین بھی موجود ہیں، جن کا تعلق گردو پیش کی متنوّع کیفیات، واقعات و تجربات سے بھی ہے۔ ؎ جانتے ہیں سبھی مظلوم یہاں منصف کو…خوفِ انصاف سے زنجیر ہلا بھی نہ سکے… حاکمِ شہر ستم گر بہ ہمہ جا ہ وجلال… میرے سَر سے میری دستار گرا بھی نہ سکے۔ اور اِن اشعار میں اندھے مقلّدین کے لیے کیا کمال سبق پنہاں ہے۔ ؎ مسندِ شاہی پہ جا بیٹھے گا میرِ کارواں…رہ گزاروں میں بھٹکتے قافلے رہ جائیں گے…کب تلک کارِ جہاں بازی گروں کے ہاتھ میں… کب تلک تقدیر میں یہ مسخرے رہ جائیں گے۔ اور فرد ہو یا قوم جب کشکول بددست ہو جائے، تو حمیّت وخود داری کو بھی سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔ ؎ گداگر سر کشیدہ ہو تو خالی ہاتھ رہتا ہے…اگر کشکول تھاما ہے، تو کلغی کو بھی خم رکھنا۔ غمِ معاش کی چکّی میں پستے سر برہنہ، پا شکستہ لوگوں کا نوحہ بھی صدیقی صاحب کی غزل میں موجود ہے، جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُنھیں اپنے احساسات کے بیان کے لیے ہر دو اصنافِ نظم کی زمین استعمال کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ؎ کبھی یہ روٹی، کبھی سانس کے لیے ملتجی رہیں گے…یہ دست بستہ و پا شکستہ سے لوگ کب تک یوں رہیں گے…کبھی کوئی خود شناس لمحہ بھی ان پہ اترے گا یا ہمیشہ… امیر زادوں کی بارگاہوں میں پیکرِ بندگی رہیں گے۔

عرفان صدیقی کی نظم اور غزل اپنے عہد کے اسلوب اور طرزِ سخن سے متاثر ضرور ہوتی ہے کہ فیض، ساحر، ندیم ہی نہیں، راشد کی نظم کا پَرتو بھی اُن کے کلام میں جَھلکتا ہے اور یہ اُن کی نظم کا حُسن ہے کہ اُنھوں نے ماحول کی خُوب صُورتی کے انجذاب کو اپنی فکر میں جگہ دے کر اپنا خاص اسلوب تراشا ہے۔

سادہ و مختصر اور طویل بحور کی غزلیات تکمیلِ فن کے اشارات ہیں، جن کے بعض اشعار وقت کے ماتھے پہ لکھے جائیں گے۔ ؎ جیسے زمانے مختلف ہر ابرہہ کے…ابابیلوں کے لشکر ایک جیسے…سیاہ رات تو سب کو دِکھائی دیتی ہے… بدل کے بھیس جو آتی ہے، اس سحر سے ڈرو… یہ بھی عرفان ،آدمی کی خوش گمانی ہے کہ جب… وہ نہیں ہو گا تو اس کے تذکرے رہ جائیں گے۔ ’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ اگرچہ قارئینِ ادب تک دیر سے پہنچی، لیکن یہ خوش بُو تا دیر محفلِ ادب کو مہکاتی رہے گی کہ یہ ہر موسم کی خوش بُو ہے۔

عرفان صدیقی کی ایک غزل

زیست ہم فقیروں کی یوں گزرتی رہتی ہے

دِل دھڑکتا رہتا ہے، سانس چلتی رہتی ہے

کیا عجیب رشتہ ہے، موسموں سے یادوں کا

برف پڑتی رہتی ہے، آگ جلتی رہتی ہے

چاند میری چھت پر ہے اور چاندنی جانے

کون سے خلاؤں میں رقص کرتی رہتی ہے

شام اِک دِیا لے کر رات کے جھروکوں سے

دُور جانے والوں کی راہ تکتی رہتی ہے

شاید ایک دو دن کی زندگی بھی مل جائے

بس اِسی بھروسے سے عُمر کٹتی رہتی ہے

اب کسی قیامت کی دھمکیوں سے کیا ڈرنا

روز آتی رہتی ہے، روز ٹلتی رہتی ہے

میرے اہلِ دانش کی سادگی و پُرکاری

دھوپ چھاؤں کی صُورت رُخ بدلتی رہتی ہے

کیا عذابِ پیہم ہے، ایک جیسا موسم بھی

جانے کن جزیروں میں رُت بدلتی رہتی ہے

پیچ و تاب کھاتی ہیں ظلمتیں بہت لیکن

رات کے نشیمن میں صبح پَلتی رہتی ہے

گو بُجھا تو دیتی ہے، کچھ دِیے رعونت سے

اور پھر ہوا برسوں ہاتھ مَلتی رہتی ہے

دستِ زور وَر کو بھی کچھ خبر نہیں ہوتی

ریت بند مُٹّھی سے یوں سَرکتی رہتی ہے