دنیا کے مختلف ممالک کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں لیکن ان کے درمیان کھیلوں کا سلسلہ باقاعدہ جاری رہتا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی تعلقات بہتر نہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ سیاست اور کھیل دونوں علیحدہ چیزیں ہیں انہیں علیحدہ ہی رہنا چاہئے اور دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے روابط رہنے چاہئیں ان دونوں ملکوں کے باسیوں کی بڑی خواہش ہے، کھیل کا کوئی دھرم نہیں ہوتا اور نہ ہی جغرافیائی بائونڈریز ہوتی ہیں، فیفا ورلڈ کپ قطر میں 32 ملکوں نے شرکت کی جس میں ان ممالک کے کھلاڑیوں ، فینز اور فٹ بال سےجڑے لوگ آئے، ان سب لوگوں نے ایک قوم بن کر اس ایونٹ میں شرکت کی اور بھرپور انجوائے کیا، یہی چیز آپس میں محبت اور بھائی چارہ بڑھاتی ہے اور یہی چیز آپس کی جنگ بند کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں، ان خیالات کا اظہار چیئرمین انڈین فٹ بال ایسو سی ایشن سبراتا دتہ نے فیفا ورلڈ کپ قطر میں کھیلے جانےوالے میچزکےدوران نمائندہ جنگ سے باتیں کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر بھارتی صحافی گتیکا تعلق دار، محمد شمس الدین، ظفر علی خان، محمد شہباز بھی موجود تھے۔
س ۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان اوربھارت کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں کا باقاعدہ انعقاد ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں، کیا وجہ ہے۔
ج۔ جی آپ نےدرست کہا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کھیلوں کا باقاعدہ انعقاد ہوتا تھا اور مقابلوں کے دوران شائقین کا جوش و خروش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، خاص طور پر کرکٹ کے مقابلوں میں تو بہت ہی زیادہ جوش کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، دونوں ممالک کی ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کرتی تھیں اوران مقابلوں میں بھرپور زور آزمائی ہوتی تھی جن میں شائقین بھی بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے سیاسی وجہ کی بنیاد پر کھیلوں کا انعقاد رک گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے بڑوں کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرناچاہئیں اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنےکا موقع فراہم کرنا چاہئے۔ باہمی محبت اور بھائی چارگی سے ہی تمام عداوتیں اور رکاوٹیں دور ہوسکتیں ہیں۔
س۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلوں خصوصاً فٹبال کے مقابلوں کا انعقاد مستقل بنیادوں پر کرانے میں کیا مشکلات ہیں آپ اور پاکستانی حکام آپس میں مسائل کے حل کیلئے اقدامات کیوں نہیں کرتے؟
ج۔ میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ بھار ت اور پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے مستقل بنیادوں پر ہونے چاہئیں اور انہیں بڑھاوا ملنا چاہئے، دنیا کے لوگوں کو قریب لانےکا ذریعہ کھیل ہیں جہاں جہاں کھیل ہوں گے، محبت اور بھائی چارگی بڑھے گی۔ کھیل کا کوئی دھرم نہیں ہوتااور نہ ہی اس کی جغرافیائی باؤنڈریز ہوتی ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال فیفا ورلڈ کپ قطر ہے۔ قطر میں 32 ملکوں کی ٹیموں نے شرکت کی۔ ان تمام ملکوں کے کھلاڑی اور دنیا کے دو سو سے زائد فٹ بال کھیلے والے ممالک کے شائقین اور اس سے تعلق رکھنے والےافراد نے اس ایونٹ میں شرکت کی۔ تمام کھلاڑی، شائقین اور انتظامیہ کےافراد سب کے سب ایک ساتھ جڑے رہے۔ کسی بھی ملک کے شائق یا کھلاڑی کی یہاں آنے پر ممانعت نہیں تھی۔
سب ایک تھے اور کھیلوں کے پلیٹ فارم پر ہم سب ایک ہیں۔ ہم اپنے فٹ بال کے اجلاسوں کے دوران پاکستان سے کھیلوں کے تعلقات کی بحالی کیلئے بات کرتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ ایک ٹیبل پر ہم بھی بیٹھیں اور پاکستانی کھیلوں کے عہدیداروں کو بھی بٹھائیں تاکہ آپس کے معاملات حل ہوں اور عوام کو دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کو ملیں۔
س۔ فیفا ورلڈ کپ فٹ بال کے مقابلے دیکھنے کیلئے قطر آئےہیں ، قطر کے انتظامات کے حوالے سے کیا کہیں گے۔
ج۔ واقعی قطر ی حکام نے ورلڈ کپ کا شاندار انعقاد کرکے ثابت کردیا ہے کہ انہیں ٹورنامنٹ کےانعقاد کیلئےجوٹاسک دیا گیا تھا انہوں نے شاندار طریقے سے اسے پورا کیا، مختصر عرصے میں فٹ بال اسٹیڈیمز کی تعمیر اور بہترین نظم و ضبط سے میچز کا انعقاد کرکے دنیائے فٹ بال میں اپنا بہترین امیج قائم کردیا ہے۔
س۔ انڈیا اور پاکستان فٹ بال میں کہاں کھڑے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر آنے میں کتنا وقت درکار ہوگا۔
ج- دونوں ملکوں کو عالمی فٹ بال کے نزدیک آنے میں وقت درکار ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک کےکھلاڑیوں کی کارکردگی وہ نہیں ہے جو اس کھیل کیلئے درکار ہے۔ شاید ہمارے کھلاڑی فٹ بال کو سیریس نہیں لیتے، اگر کھلاڑی صرف کھیل پر فوکس کریں اور اپنا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف کھیل کو بنالیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
س۔ پاکستان اور انڈین کھلاڑیوں کیلئے کیا پیغام دیں گے۔
ج۔ میری خواہش ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیمیں بھی فیفا ورلڈ کپ فائنل مقابلوں کیلئےکوالیفائی کریں۔ دونوں ملکوں میں باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں۔