• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عافیہ مقبول

دو نسلوں کے درمیان سوچ کا فرق خطرناک حد تک بڑھتا جارہا ہے۔ نوجوانوں نے والدین کے تمام معاشرتی نظریات، اقدار، کے خلاف بولنا شروع کر دیا ہے۔ آج کی نوجوان نسل والدین کے شرعی اور انسانی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ پرانی نسل سے وابستہ لوگ ہمیشہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ نئی نسل کے ساتھ کیا غلطی ہوئی ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بہتر سلوک، فرماں بردار اور بڑوں کا احترام کرتےتھے۔ دوسری طرف، نوجوان، محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی رہنمائی کے لئے بڑی عمر کی نسل پر زیادہ دباؤ ڈالنے کے بجائے خود ہی سیکھنے کے قابل ہیں، اسی تناظر میں ایک واقعہ نذرِ قارئین ہے۔

سڑک پر بے ہنگم ٹریفک کے ہجوم کے درمیان ایک لاغر بوڑھا شخص بے یارو مددگار کسی بچے کی مانند سہما کھڑا تھا۔ آس پاس سے لوگ ہنستے باتیں کرتے گزر رہے تھے۔

چند ایک کی نظر اس بوڑھے پر پڑی بھی لیکن وہ اسے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ کچھ اپنے ساتھیوں سےکہہ رہے تھےکہ ، نجانے یہ کون ہے؟ کہاں جانا چاہتا ہے؟ خیر ہمیں کیا؟ ہمارا کیا لگتا ہے؟ بھلا ضرورت ہی کیا تھی اس عمر میں منہ اٹھا کر گھر سے نکلنے کی، نہ راستہ پتا ہے نہ ہی ٹھیک سے نظر آتاہے۔ پھر بھی بڑے میاں گھر میں ٹک کر بیٹھ نہیں سکے۔ اس عمر کے لوگ نہ خود آرام سے جیتے ہیں نہ لوگوں کو جینے دیتے ہیں۔ یہ آوازیں بوڑھے کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں، کچھ منچلے تو تہذیب و ادب کی حدود و قیود کو تقریباً پھلانگتے ہوئے آوازیں کس رہے تھے کہ ارے، او بڑے میاں کسی گاڑی سے ٹکرا گئے تو بدنام تو ہم نوجوان ہی ہوں گے، کہا جائے گا کہ انہیں تو گاڑی، موٹر سائیکل چلانے کی تمیز نہیں۔

لیجیے! آگے بڑھتے ہی ان بدتمیز نوجوانوں کی ٹولی کو، اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرتاایک اور بزرگ نظر آیا، انہوں نے پھر سے وہی ہنسی، طنزیہ جملےکہنا شروع ہی ہوئے تھے کہ اُن ہی میں سے ایک نوجوان چلا اٹھا۔ ’’خاموش، یہ میرے دادا ہیں۔‘‘

لڑکوں کی ہنسی کو جیسے بریک لگ گیا، تقریباً سب ہی لڑکے بھاگتے ہوئے اس بزرگ کے پاس پہنچے،نوجوان نے نہایت فکرمندی سے پوچھا، دادا ابو، آپ یہاں، سڑک کے بیچ و بیچ کیوں کھڑے ہیں، کیا ہو ا، یہ ہاتھوں میں اتنا سامان کیوں ہے، مجھ سے کہا ہوتا، میں لا دیتا، آپ کیوں تن تنہا گھر سے نکلے؟ کہیں گر گرا جاتے توچوٹ لگ جاتی تو کیا ہوتا۔‘‘

دادامسکرا کے بولے’’بیٹا ،میں گھر میں فارغ ہی تھا، سوچا کیوں نہ کچھ پیدل چل لوں، لگے ہاتھ گھر کا سودا سلف بھی لے لوں گا۔ بس یہ ٹریفک کا رش اتنا تھا کہ سڑک پار نہ کر سکا اور گھبرا کے قدم وہیں جم گئے۔‘‘

نوجوان نے دادا کے ہاتھ سے سامان کے تھیلے پکڑے، اس کے دوستوں نے دادا کا ہاتھ پکڑا اور پھر وہ بڑی محبت اور احتیاط سے اُنہیں گھر لے گئے، کسی نے سہارا دیا کسی نے باتوں سے دل بہلایا، دادا کی حالت تھوڑی بہتر ہوئی اور کچھ لمحوں پہلے کی جو گھبراہٹ تھی وہ بھی ختم ہوتی گئی۔

اچانک اس نوجوان کو پہلے والے بزرگ کا خیال آیا ،اوہ! یہ ہم نے کیا کر دیا۔ دادا کو اس طرح سڑک پر حیران پریشان کھڑا دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھاتھا، جب کہ پچھلے سگنل پر ایک بابا جی بالکل ایسی ہی صورت حال کا شکار لوگوں کی جھنجھلاہٹ اور غصے کا سامنا کر رہے تھے۔ وہ بھی تو کسی کے دادا، نانا اور باپ ہوں گے۔ کیا پتا وہ بھی اپنے گھر سے یونہی اپنے بچوں کی محبت میں، ان کے کام کرنے کے خیال سے نکلے ہوں اور ہم نے بجائے ان کی مدد کرنے کے، ان کا مذاق اڑا یا۔ ان سے بدتمیزی کی۔ کیا ہوجاتا جو ہم ان کی بھی مدد کر دیتے۔ ان سے ایک دفعہ محبت سے، اپنائیت سے پوچھتے تو سہی کہ بابا آپ کو کہاں جانا ہے؟ آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں؟ آئیے ہم آپ کو سڑک پار کرا دیتے ہیں۔ یہ سوچ کرنوجوان شرمندہ ہوگیا۔ سوچنے لگا، شاید میرے دادا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا،اُسے اپنا آپ برا لگنے لگا ۔

ذراپنے اردگرد نظر دوڑائیں، مشاہدہ کریں تو ایسی ہزاروں کہانیاں ، واقعات ہمارے آس پاس نظر آئیں گے۔ نہ جانے کیوں، بزرگوں سے محبت تو دور کی بات، ان کا احترام بھی تقریباً مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ کالج ، یونیورسٹی میں، اگر کوئی بزرگ استاد پڑھانے آ جائے تو طلبا کامنہ بن جاتا ہے، ایک دوسرے سے کہتے ہیں، اُف ان سے ہم کیا پڑھیں گے؟دفتر میں بزرگ ملازم ہو تو اس سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ آخر اپنے بزرگوں سے اتنی بیزاری کیوں؟

یہ بزرگ بھی زندگی جینے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس زندگی کا نچوڑ، تجربوں، مشاہدوں کی شکل میں بھر پور ہے۔ عمر کے اس حصے میں جب وہ زیادہ اچھا اور بہتر مشورہ نہ صرف دے سکتے بلکہ مسائل کو سمجھ کر انھیں حل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں لیکن انھیں فالتو سامان کی طرح بے کارسمجھ کر ان کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ان کی باتیں روک ٹوک، سمجھانا سب کچھ دقیانوسی لگتا ہے۔

آج کل نوجوان کھل کر اپنے والدین سے نہ صرف اختلاف کرتے ہیں بلکہ انھیں یہ بھی جتا دیتے ہیں کہ آپ کو آج کے زمانے کا کیا پتا؟ آپ بیچ میں نہ بولا کریں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ بھی عمر کے اس دور میں ہوں گے اور آنے والی نسل یہی کہہ رہی ہو گی ’’چپ رہیں آپ کو کیا پتا۔‘‘ نوجوان تعلیم سے بہرہ مند ہیں لیکن بزرگوں کے پاس تجربات و مشاہدات ہیں جو تعلیم سے نہیں بلکہ عمر سے آتے ہیں۔

تعلیم ہنر سکھاتی ہے، مگر اس ہنر کو کس طرح استعمال کیا جائے یہ زندگی کے تجربات سکھاتے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے نادان نوجوان یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف اعلیٰ اور جدید تعلیم سیکھنا ہی کامیابی نہیں جب تک اس تعلیم کو استعمال کرنے کا شعور نہ ہو۔ تجربہ، کامیابی اور شعور تب ہی ممکن ہے جب اپنے بزرگوں سے ان کے تجربات و مشاہدات سنیں، اور پھر ان کی روشنی میں اپنی تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کے فیصلے کریں۔

ہمارا مذہب تو اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ جس میں صرف بوڑھے ماں باپ کو ایک محبت بھری نگاہ سے دیکھ لینے سے ہی ہمارے حصے میں کتنا ثواب لکھ دیا جاتا ہے تو سوچیں، اگر ان کی خدمت، دیکھ بھال کی جائے تو کتنا اجر ملے گا۔ یقین کریں کہ، بزرگ والدین، آج بھی اپنے اندر اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ان کی ایک آہ آپ کی زندگی الٹ اور ایک دعا آپ کی زندگی پلٹ سکتی ہے۔ جس ہستی کا وجود اتنا طاقتور ہو تو کیا ہمیں ان سے پہلو تہی کرنی چاہیے؟ کیا انھیں بوجھ سمجھنا چاہیے؟ چلیے اپنی ہی غرض کے لیے سہی، کیا ان کی خدمت اور دیکھ بھال نہیں کر سکتے؟ ایک پل کو سوچیے، وہ بچہ جس نے ابھی اُن کے لیے کچھ نہیں کیا، کچھ نہیں دیا، اس کی خواہشیں اور ضدیں والدین کو کتنی عزیز ہوتی ہیں اور وہ والدین ،جنھوں نے تمام عمر آپ کو دیا ہی دیا ، ان کی ضدیں آپ کو بوجھ لگنے لگیں؟

نوجوان ساتھو! آپ اپنےوالدین کو نہ صرف ان کی من چاہی زندگی واپس لوٹا سکتے ہیں، بلکہ دعائیں سمیٹ کر اپنی زندگی کو بھی خوشیوں، کامیابیوں اور طمانیت سے بھرپور بنا سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اُنہیں نظر انداز مت کریں بلکہ ان کو احساس دلائیں کہ زمانہ جتنا بھی بدل چکا ہو یا جدید دور ہو، ان کی باتیں اور مشورے اب بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ ان کی جوانی کے دور میں ہوا کرتے تھے۔

اپنی باتوں سے انھیں احساس دلائیں کہ آپ کی کامیابی صرف اُن کی مرہون منت ہے، جس طرح اپنے بچپن میں آپ ان سے ضد کیا کرتے تھے ، جوانی میں کہتے، ہم پر اعتماد کریں کیونکہ ہم ’’بڑے‘‘ ہو چکے ہیں، اسی طرح اب آپ کی باری ہے کہ ان پر اعتماد کریں کیونکہ آپ کے بڑے وہی ہیں۔ زمانہ جدید ہو یا قدیم، بچپن سب کا ہی دلچسپ اور بھرپور ہوتا ہے۔ ان سے اپنےبچپن کی باتیں کریں۔ اُن کے بچپن کےقصّے سنیں، اس طرح اُن کو احساس ہو گا کہ ان کی باتیں سننے والے آج بھی ہیں، یوں بزرگوں اور نوجوانوں کے بیچ دوری اور فاصلہ کم ہو گا۔

آپ سب اپنی اپنی زندگیوں کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں، اس ترقی یافتہ دور میں ہر کام جلدی جلدی انجام دیا جانے لگا ہے، وقت کسی کے پاس نہیں، عجب افراتفری کا دور ہے۔ لیکن وقت کوئی بھی ہو، اپنے پیاروں کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے، مگر بیش تر نوجوانوں کے پاس اُن کے لیے وقت ہی نہیں، گرچہ ضروری نہیں کہ آپ سارا دن ان کے ساتھ بیٹھے رہیں، بس یہ یاد رکھیں کہ آپ کی ذرا سی مسکراہٹ، توجہ اور ہلکی پھلکی باتوں کی ہی ضرورت ہے۔ یاد کریں، جب آپ اپنے بچپن میں اپنے اسکول کے کام، یا پرچوں کی تیاری کے لیے جاگتےتھے، تو والدین بھی آپ کی فکر میں جاگتے تھے۔ 

انہوں نے تمام عمر زندگی کا سفر بہت سمجھ بوجھ، ذہانت و محنت کے ساتھ طے کیا ہے۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آج کل کے جدید نظام کو وہ نہیں سمجھ پائیں گے تو یہ آپ کی بھول بھی ہو سکتی ہے۔ انھیں کمپیوٹر یا موبائل فون کا استعمال آسان طریقے سے سمجھائیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا تنہائی کی اچھی ساتھی ہوتی ہے اور اب تو اُردو زبان کے بھی سافٹ وئیر اور ویب سائٹس موجود ہیں، جہاں تفریحی اور معلوماتی مواد موجود ہوتا ہے۔ یہ یقیناََ ان کے لیے دلچسپ اور بھرپور وقت گزاری کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے عوامل بزرگوں کو زندگی کی نئی حرارت دے سکتے ہیں۔ انھیں احساس ہوکہ یہ زندگی نئے خوبصورت ترین دور کی شروعات ہیں۔ زندگی کا اختتام نہیں بلکہ پوری زندگی کی تھکا دینے والی بھاگ دوڑ کے بعد، سکون سے بیٹھ کر زندگی سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔ 

تمام عمر انھوں نے آپ کو اپنا وقت، پیسا، محبت دی ہے اور بدلے میں آپ سے نہ پیسا مانگا ہے نہ عیش و آرام۔ صرف تھوڑی سی محبت اور توجہ، جس کے وہ حقدار ہیں۔ تھوڑا سا وقت بالکل اتنا ہی جتنا آپ موبائل پر ادھر ادھر فضول پیغامات بھیجنے پڑھنے پر لگا دیتے ہیں، اس سے بھی کم وقت آپ اپنے بوڑھے والدین کو دیں گے، تو یقین کریں آپ کی زندگی بھی خوشیوں اور کامیابیوں سے ہمکنار ہو گی، اور آخرت کی کامیابیوں کا نہ تو شمار نہ حساب کہ، یہی آپ کو جنت میں لے جائیں گے۔