• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر کے ہائی پرو فائل نقیب اللہ قتل کیس کابالآخر5سال بعد 23جنوری کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے فیصلہ سُنا دیا ،جس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد،ڈی ایس پی قمراحمد سمیت تمام ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری کردیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ نقیب اللہ اور دیگر کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا، عدالت نے قتل کی اس واقعہ کو سفاکانہ بھی قراردیا۔ 

واضح رہے کہ مذکورہ ہائی پرو فائل قتل کیس میں راؤانوار احمد کے علاوہ سابق ایس ایچ اوشاہ لطیف ٹاون سب انسپکٹر امان اللہ مروت ان کے بھائی اے ایس آئی احسان اللہ مروت،سابق ایس ایچ اوسہراب گوٹھ سب انسپکٹر شعیب شوٹر ،محمدانار،اے ایس آئی گداحسین،خیر محمد،علی اکبر، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین شاہ،فیصل محمود،عامر شاہ، کانسٹیبل محسن عباس ،راجاشمیم، عمران کاظمی، ریاض احمد اور دیگر شامل تھے۔ 

مقدمے سے بریت کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راو انوار احمد کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ قتل جھوٹا کیس آج انجام کوپہنچ گیا، میرے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ،میرا ایک سال باقی ہے، چاہتاہوں شہرکی خدمت کروں، میں نے کراچی کے شہریوں کو ظالموں سےنجات دلائی ہے ،جج نے ہمارے ساتھ انصاف کیا ہے راؤانوار نے کہا کہ جسے گولی لگی اس کانام نقیب اللہ نہیں تھا،جو ماراگیااس کا نام نسیم اللہ تھا،میں نےاس شہر کو ظالموں سےنجات دلائی ہے، جب تک میری سانس ہےظالموں سےلڑتارہوں گا۔ 

دوسری جانب مقتول نقیب اللہ محسود کےبھائی عالم شیرنے عدالت کےفیصلے کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ فیصلہ 5سال بعد، یکطر فہ اورانوار احمد کے حق میں آیا ہے، جس کے خلاف ہم ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے علاوہ ہر سطح پرانصاف کےحصول کے لیےآوازاٹھائیں گے ،اگر پھر بھی انصاف نہ ملا توسب سے بڑی خدا کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے،عالم یہ بھی کہنا ہےکہ ہمیں ڈرانےاوردھمکا نےکی کوشش کی گئی، جب کہ رقم کی پیش کش کی گئی، جوہم نےمسترد کردی، ہمیں صرف انصاف چاہیے۔

سندھ پولیس کے دواعلیٰ سربراہوں کے درمیان مبینہ جاری سرد جنگ کے باعث ما تحت پولیس افسران شہر میں بےلگام ڈاکواوراسٹریٹ کرائمز کے بے قابو جن کوما تحت پولیس افسران نکیل ڈالنے میں مکمل طور پرناکام ہوچکی ہے۔ لیٹروں نے سڑکوں بازروں کے علاوہ گھروں ،دکانوں اور ہوٹلوں میں بھی واردتوں کا سلسلہ دراز کردیا ہے۔ یومیہ ڈکیتی وارداتوں میں عام شہریوں خصوصا خواتین ،صحافی حتی کہ پولیس اہل کاربھی محفوظ نہیں ہیں۔ بے خوف ڈاکوؤں نے چند گھنٹوں کے دوران دوپولیس افسران کے گھر کا صفایا کر دیا۔ 

نیو کراچی صنعتی ایریا شعبہ تفتیش کےسب انسپکٹر شکیل کے گھر میں ہو نےوالی واردات میں مسلح ڈاکوؤں نے مزاحمت پر سب انسپکٹر کو گولی مار زخمی کر دیا ،جب کہ اسٹیل ٹاؤن میں سابق ایس ایچ او شارع نور جہاں جاوید ابڑو کے گھر میں واردات کے دوران ملزمان ان کے گھر سے طلائی زیورات،نقد رقم لے کر فرار ہوگئے۔ رواں سال کے 25روز کے دوران ڈکیتی کےدوران مزاحمت کرنے پرخاتون، نیوی اہل کار سمیت 10 سے زائد بے قصور شہری جان سے گئے ۔22 جنوری کو مسلح ڈاکوؤں نےشاہراہ فیصل تھانے کی حدود گلستان جوہربلاک 14میں واقع دکان میں گھس کر چند روپے کےموبائل فونز چھیننے کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کر کے23سالہ مہتاب شاہ کو قتل کر دیا اور بآ سانی فرار بھی ہوگئے۔ 

مقتول6بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر تھا، مقتول کا ایک بھائی آفتاب محکمہ پولیس میں تعینات ہے۔ کراچی پولیس چیف نے گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سندھ کوصرف 4روزکے دوران ہونے والے جرائم کی رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق شہر بھر میں137 اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں اوران 137 وارداتوں میں68 موبائل/نقدی چھیننے کی واردتیں شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 7 کار چوری، جب کہ 16موٹرسائیکلیں چھیننے اور 46 چوری ہونےکی وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مزاحمت پر 3 افرا زخمی ہوئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس بھی ڈاکومزاحمت پر 120معصوم افراد کی جان لے چکے ہیں ۔ کیا ظالم ڈاکواور لٹیرے کبھی یہ سو چنے پرمجبور ہوں گے کہ ذراسی مزاحمت پر جس معصوم کی جان لی ہے، وہ کسی خاندان کاکفیل ہو گااوراس کے ساتھ کتنے افراد جُڑے ہوں گے، اس کی موت سے پُورا خاندان اجڑجاتا ہے۔

سوال یہ ہے ایسےظالموں کاقلع قمع کرنے کے لیے کیا آسمان سے فرشتے آئیں گے؟ یہ سفاک قاتل اب تک قہر الٰہی سے محفوظ کیوں ہیں ؟ اسلام میں تو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان لینا حرام قرار دیا گیا ہے ۔اس کے بر عکس یومیہ کی بنیاد پر ذرا سی مزاحمت پر قیمتی انسانی کی جان لےلینا کھیل بن چکا ہے،جوکسی المیے سےکم نہیں ہے۔ ارباب اختیار اورپولیس کےاعلیٰ افسران کے لیے اسٹریٹ کرائمزکے سد باب کےلیےاعلی سطحی اجلاسوں سےہٹ کرجنگی بنیاوں عملی اقدامات ہی اس کاتدارک ہے۔ 

شہر میں ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں یومیہ اضافے کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کوبالآخر دفتر سے نِکل کر سڑکوں پر آناہی پڑا ،انھوں نے گزشتہ روز جنرل ہولڈ آپ کا حکم دینے کے بعد ضلع ایسٹ اور ضلع ساؤتھ کے اسنیپ چیکینگ پوائنٹس اور تھانوں کا اچانک دورہ کیا۔ اس دوران تھانہ بہادرآباد کے اسنیپ چیکینگ پوائنٹ مین شارع فیصل پر چیکنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا اور افسران کو مزید ہدایات جاری کیں۔ بعدازاں اسنیپ چیکنگ پوائنٹ چیک کرتے ہوئے شارع فیصل تھانے پہنچے، انھوں نے تھانے اور حوالات کی صفائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ 

تھانہ شارع فیصل کے چیکنگ پوائنٹ کو پولیس کنٹرول پر نہ بتانے اور کراچی پولیس کی اسنیپ چیکنگ ایس او پی پر عمل نہ کرنے پر ایس ایچ او شارع فیصل کو معطل کر دیا۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی نےضلع ساؤتھ کے تھانہ ڈیفنس کے چیکنگ پوائنٹ پہنچے، تو ایڈیشنل ایس ایچ او ڈیفنس بمعہ نفری کو چیکنگ پوائنٹ پر ہوشیار حالت میں نہ پا کر ان کی سرزنش کی اور ایڈیشنل ایس ایچ او سمیت نفری کی 2 سال کی سروس کٹوتی کا حکم صادر کیا۔ تھانہ درخشاں کے دورے پر کراچی پولیس چیف نے ڈیوٹی آفس روم، ہیڈ محرر دفتر اور لاکپ کا معائنہ بھی کیا اور تھانے کی صفائی اور بہتر انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ پولیس لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے اور اسٹریٹ کرائمز کے خلاف اسنیپ چیکنگ کی حکمت عملی پر سختی سے عمل کروا رہی ہے۔ ایس او پی کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کے خلاف سخت محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائیں گی۔ کراچی پولیس چیف کا یہ قدم لائق تحسین ہے، لیکن وہ اس سلسلےکودراز کرتے ہوئے ضلع وسطی کےتھانوں عزیز آباد، جوہر آباد، لیاقت آباد ،سپر مارکیٹ،شریف آباد ، یوسف پلازہ، نیوکراچی، بلال کا لونی اور دیگر تھانے، جوجرائم کی آماج گاہ بنے ہوئے، جہاں وہ بہ حیثیت ڈی آئی جی ویسٹ تعینات رہے ہیں، ممکن ہو سکے توان کا بھی بلااطلاع اچانک معائنہ کریں توان علاقوں کے ایس ایچ اوزاورعملےکاقبلہ بھی درست سمت ہو جائے گا۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید