• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حافظ بلال بشیر

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور دنیا میں اس کے مقام و مرتبے کا انحصار نوجوانوں کی صحیح رخِ تعمیر پر ہوتا ہے۔ جس قوم کی نوجوان نسل اپنی تعمیر ماضی سے سبق سیکھ کر اپناتی ہے وہ ہی قومیں کامیابی سے گامزن ہوتی ہیں۔ ہر گزرا ہوا وقت تاریخ بن جاتا ہے، ہر آنے والا وقت مستقبل ہوتا ہے۔ حال تو ایک پُل ہے جو ہمیں اپنے ماضی سے جوڑ کر ہمیں مستقبل میں لے جاتا ہے۔ مستقبل کی پیش بندی کے لئے ہمیں حال کے پُل پر کھڑے ہوکر ماضی سے رشتہ جوڑنا ہوتا ہے۔ 

ایک اچھّے مستقبل کے لئے، ہمیں حال میں موجود رہ کر ماضی کی غلطیوں اور ماضی کے تجربوں سے سبق سیکھنا ہوتا ہے۔ حال میں رہ کر، اپنی شاندار صلاحیتوں کو کام میں لاکر ، ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہی ہم مستقبل کی بہتر پیش بندی کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں اچھّے نتائج حاصل کرنے کے لئے ہم بغیر پلاننگ (پیش بندی) کے مستقبل میں داخل نہیں ہوسکتے۔

اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں جو عظیم نعمت وطن عزیز پاکستان کی صورت میں عطا فرمائی۔ نوجوان نسل نے ہی اسے عروج و زوال کے راستوں پر چلانا تھا۔ لیکن نوجوان نسل، نوجوان رہ نما بھی نہ تو ماضی کی کسی غلطی سے سبق حاصل کر کے اور نہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے خواب کو صحیح معنوں میں تعبیر کر پائے۔ آج کے نوجوان صرف اپنے ذاتی خواہش، بہترین مستقبل ، معاش ، شادی ، بنگلے، اولاد ، بینک بیلنس کو ہی اپنی زندگی کا مقصود بنائے بیٹھے ہیں۔ عام نوجوانوں کی منزل دولت اور رہ نما نوجوانوں کی منزل اقتدار ہے اس منزل کا اُخروی انجام جو بھی ہو ، دنیوی انجام ایک ذلالت یا گمنامی موت ہے۔ ‏

آج ہماری نوجوان نسل تاریخ اور ماضی کے عروج و زوال سے ناآشنا ، یہی وجہ ہے کہ تاریخ ایک گم نام گوشے میں پڑی بری طرح مسخ ہو رہی ہے. تاب ناک ماضی اور پھر غلطیوں کی بھینٹ چڑھنے والی دنیا کی عظیم ترین قوم کا یہ طرز عمل مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ مستقبل کی فکر ضرور کرنی چاہیے، لیکن ماضی کے پنوں کو یکسر فراموش کرنا عقل مندی نہیں، ہم اپنے تاب ناک عہد سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو مستقبل کی فکر کے ساتھ ساتھ ماضی سے بھی روشناس کروایا جائے، تاکہ وہ ماضی کی روشنی میں اپنے حال میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے مستقبل کو اندیشوں سے محفوظ کر سکیں۔ نوجوان تاریخ کا مطالعہ کر کے ان ستونوں کے بارے میں جان سکتے ہیں جن پر مختلف تہذیبوں کی تعمیر کی گئی۔ تاریخ متاثر کن بھی ہے اور کچھ بد نظمی کی حالت بھی ملتی ہے۔ ایسی صورت حال بھی آپ کو بہت سی معلومات دیتی ہے۔ ابتر صورت حال ایسے ہی پیدا نہیں ہوتی، اس کے پیچھے خاص عوامل ہوتے ہیں۔ تاریخ پڑھنے کا یہی بنیادی مقصد ہے کہ وہ عوامل کیوں پیدا ہوئے؟واقعات کا ظہور پذیر ہونا اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتنا اس کے محرکات تلاش کرنا ہے۔

اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم مین اتّحادی افواج کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اپنے منصوبہ سازوں کو اپنی تاریخی لغزشوں اور غلطیوں سے سبق سیکھ کر بہتر مستقبل کی پلاننگ کا ٹاسک دیا، اور صرف 30 سال کے قلیل عرصہ میں جرمنی کو دنیا کے ممتاز ملکوں کی صف میں کھڑا کردیا، جاپان نے امریکہ کے ہاتھوں ایٹمی تباہی کے بعد اپنے مستقبل کی پلاننگ کچھ اس انداز سے کی کہ آج جاپان صنعتی اور معاشی اعتبار سے دنیا کے آٹھ بہترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ہم اپنا ماضی بدل نہیں سکتے مگر اپنی تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا مستقبل ضرور بہتر بنا سکتے ہیں۔ 

یاد رکھیے وہی قومیں اور معاشرے اپنی عظمت کی آفاقیت برقرار رکھتی ہیں جس کے نوجوان سنجیدہ ہوں، علمی و عرفانی مزاج پوری طرح بالغ ہوں۔ سوچنے سمجھنے کا معیار و اسلوب نہایت تحقیقی قدروں کا علمبردار ہو۔جن کا یہ خیال ہے کہ ماضی سے وابستہ ہو کر ہم پیچھے کی طرف چلے جائیں گےتو عرض یہ ہےکہ ماضی کو پیش نظر رکھ کر ہی ہم مستقبل کی بہتر تعمیر کرسکتے ہیں، اس میں نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ قوموں اور ملکوں کی تعمیر وترقی اور مستقبل کی منصوبہ بندی و ترتیب وتدوین کے لیے نہایت موزوں مواد ملتا ہے۔ 

اپنی تاریخ کا مطالعہ نہیں کریں گے تو کون بتائے گا کہ مسلمانوں نے علوم وفنون اور ادب و آرٹ کا پورا جہاں آباد کیا تھا۔ ممکن ہے تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت کچھ اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل جائیں۔اپنی تاریخ اور ماضی سے تعلق ورشتہ صرف والہانہ اور عقیدت مندانہ نہیں رکھنا بلکہ تنقیدی اور نظریاتی طور سے بھی رشتہ استوار کرنا ہوگا، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی کرکے آگے کی طرف قدم بڑھائیں، تب ہی نوجوان درست ہدف کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔