اسلام آباد (محمد صالح ظافر) سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف رواں صدی کی ابتدائی دہائی کے دوران عالمی قیادت کیساتھ رابطوں میں رہے تاہم انہیں دنیا کے بڑے دارالحکومتوں کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا لیکن انٹرنیشنل میڈیا نے انہیں ایک متنازع شخصیت قرار دیا جنہوں نے ہر ایک موقع سے فائدہ اٹھایا تاہم بلآخر وہ مقامی اور غیر ملکی دونوں سیاست میں ناکام ٹھہرے۔
ان کی موت کے بعد انڈین میڈیا بھی بطور فوجی ان کے ’’دشمنانہ‘‘ کردار اور اس کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد بطور امن کے علمبردار ان کے کردار پر بحث کررہا ہے۔
کارگل جنگ میں ان کا کردار اور اس کے بعد کشمیر کے معاملے پر امن کی پیشکش کا معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
ان کے مطابق اس کے ذریعے سے وہ امن کا نوبیل انعام حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انڈین اخبار نے ان کی بائیوگرافی اور نشیب و فراز کے حوالے سے بھی تفصیلی لکھا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق کارگل جنگ میں مشرف نے ایک مرکزی اسٹریٹجسٹ کا کردار ادا کیا۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ مشرف وہ آخری آرمی چیف ہیں جنہوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے سے اقتدار سنبھالا تھا۔
مشرف نے ایک بار لکھا تھا کہ انہوں نے کئی بار موت کو انتہائی قریب سے دیکھا تھا اور قسمت کی دیوی ہمیشہ ان پر مہربان رہی۔