اے خدا!
اے خستہ بدنوں میں صوت، صوت میں بیان اور بیان میں تخیل کی مقدس اڑان رکھ دینے والے خدا!
ہماری بصارتوں کے بند جزدانوں کی گرہیں کھول اور ہماری سماعتوں کو لفظوں کی زنگار کرنوں سے محفوظ رکھ جو ہمارے مقدر بدنوں کے بیچ کب سے اب تک گونج بھرتے رہے ہیں۔ اے خدا!
لمحوں کے دست آئندہ میں ہمارے ہونے کا مقدر لکیر دے ۔ مقدر پر تنے مسلسل رات سناٹے کو امید چنگاریوں سے تار تار کر کے روشن کر دے۔ چنگاریاں، کہ جو وقت کے راکھ دانوں میں نئے مفہوم کا الاؤ بن کربانجھ ابہام کی مرطوب اور نامہربان محبوس ہوا کونیلے فلک کی بے کناروسعتوں کی گپھا میں اچھال سکیں ۔ اے رات کی خوشبوکے کھیت بدن میں آس صبح کی ہری بھری فصل اگانے والے خدا، میرے خدا!
بخت سورجوں کو وہ رفعتیں عطاکرکہ مرادوں کے سنہرے خوشوں پرکے رسیلے حیات افزادانوں سے ہمار ے خالی دامن بھر جائیں ۔ مہنگائی کے شوکیس میں سجے سانس کھلونوں کو طلب کی للچائی نظروں سے کشید کرتے کومل بچوں کے روشن چہروں کو مایوسی کی گرد سے بچا۔ اپنی ناآسودہ خواہشوں کو کھوکھلے بدنوں میں دفن کرکے عیاش حکمرانوں کو تعیشات کی فراہمی کا ایندھن بنتے ،دفتروں کے مشقت کدوں میں فائلوں کی خالی چکیاں پیسنے والوں کے چہروں سے بہتے شفاف پسینے کے تقدس اور روانی کو بحال رکھ اور انہیں طویل دنوں کی نہ ختم ہونے والی آخری تاریخوں کے پل صراط پر ننگے قدموں چلنے کے عذاب سے بچا۔ ترازو تولتے ہاتھوں اور ان ترازوؤں میں تلتے بدنوں کو رزق حلال کا کھنکتا سکہ عطاکر۔ اور ہوس کی کھٹ کھٹ چلتی کھڈیوں پر تنی کھدر میں طمانیت کے دھاگے کا تانا بانا ڈال۔ اے حرف جیسی مقدس نعمت کو تخلیق کابدن دینے والے خدا!
میرے اپنے خدا!
گلشن حیات کی نو خیز کلیوں کو انہی حرفوں کے رس کی خوشبو عطا کر نے والے معلموں کے بخت کو زندگی کی بے معنویت سے بچا اور انہیں نیستی کے خرابے میں گم ہونے سے محفوظ رکھ۔ اختیار کی ڈور کا گولہ لامحدود اختیار کی خواہش کی شہوت سے چور بدنوں والے کار پردازوں کی پہنچ سے دور رکھ۔ لہو کے عذاب پانیوں سے دکھوں کا آٹا گوندھتی ماؤں کو بھوک کے خالی پن کے سفاک سائے سے بچا۔ مہیب خوابوں کی چھابڑیاں سجائے مفلوک الحال بچوں کے ڈھانچہ بدن باپوں کے سینوں سے چمٹی بوسیدہ بنیانوں کی اجاڑ جیبوں میں خوش فہمی کے سکے رہنے دے۔ سنہری عمروں کے کاغذوں پر روشن مستقبل کی عبارتیں لکھنے والے نوجوانوں کے کاٹھ بدنوں کو مایوسی کی یخ آنچ سے محفوظ رکھ اور ان کے ہاتھ انبوہ کے آئین کی شقیں لگنے سے پہلے لیل و نہار کی گردشوں کی طنابیں دے دے۔
اے زمینوں اور زمانوں کے بیچ فاصلوں کو رکھ دینے والے خدا!
اے قدموں کے بیچ مسافتوں کو پاٹنے کا ذوق اور جوش رکھ دینے والے خدا!
اے بدنوں کے بیچ فاصلے سمیٹنے اور اذہان کے بیچ مسافتوں کو پاٹنے کی امنگ رکھنے والے خدا!
بے سفر دوریوں کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
بنجر مسافتوں کے دہکتے عذاب سے پناہ دے۔
اے روح کو بدن اور بدن کو لہو دینے والے خدا!
اے لہو میں روانی اور روانی میں دل کی دھڑکنیں رکھنے والے خدا!
ہمیں بدنوں پر کلبلاتی اور خلیہ خلیہ پلتی نفرتوں سے بچا۔ لالچ اور ہوس کی مفاہمت سے لتھڑے بدنوں کو صدق کے مطہر گرم پانیوں سے پاکیزہ فرما۔ گونگے گمراہ ضبط کو نامانوس راستوں کی لڑکھڑاہٹ سے پہلے سنبھل جانے کا اذن دے۔ جہالتوں کے محیط گنبدوں میں علم کی مقدس اذان کی گونج بھردے۔ تاریک منحنی راستوں پر رواں تھکے قدموں سے خجالت مسافتوں کی گرد جھاڑلینے کی توفیق عطا فرما۔ اے خدا!
اے اجاڑ آنکھوں میں خواب بھرنے والے میرے خدا!
ہمارے خواب خزانوں کو کرم زدگی سے بچا۔
اے خدا !… اے ہواؤں کے ہاتھ سندیسے بھیجنے والے خدا!
ہمارے صحنوں کے حبس پر اپنی سمت سے آنے والی ہوا کے دریچے کھول۔ اور مقدس ہوا کو خوف و ہراس کی چھنک جھانجروں سے محفوظ رکھ۔ اے خدا!
اے خودی کی عطا سے نوازنے والے خدا!
ہمیں خودی بیچ ڈالنے والے رہبری کا چولا پہنے راہ زنوں سے بچا۔ ہمیں پاکیزہ خودی اور بیمار انا کے بیچ تمیز کا شعور دے۔ ہمیں حوصلہ دے کہ ہم اپنے گھر کی عصمت کو خودی کی چاردیواری سے محفوظ بنا سکیں۔ ہمیں ہمت دے کہ ہم اپنے صحنوں کے درمیان اساری گئی نفرت اور انا کی ساری دیواریں گرا سکیں۔ اے خدا!
اے محبتوں کے خدا!
نفرت کے اکٹرے پنجوں پر چلتے جھولتے بدنوں کی معلق ایڑیوں کویقین کی دھرتی عطاکر۔ اے خدا!
اے بلندیوں کے خدا!
ذلت کی معکوس چوٹیوں کی سمت مسلسل رواں ہم بے توقیروں کو نام نہاد بلندیوں سے منہ کے بل گرنے اور کرچی کرچی ہونے سے بچا۔ اے پتھر زبانوں کو بیان کی ملائمت دینے والے خدا!
بیان کی ملائم زمین پر مفاہیم کی گھنی فصل اگا مفاہیم کی فصلوں کو آفاق کی وسعتوں اور کائنات کے بھیدوں سے بارآور کر۔ اے اپنے نافرمانوں کو بھی سلطنتوں کی توقیر عطا کرنے والے خدا!
رحم مادر سی زمین کا جرثوموں کی طرح لہو پیتے بیٹوں اور بیٹیوں کے دلوں میں اس مادر مشفق کی محبت ڈال دے۔ اس محبت میں جوش اور جذبے کی ہمیشگی رکھ۔ اسے تساہل اور بے حسی کے گھن سے بچا۔ اس کے لیے کچھ کر گزرنے کے خواہش بدن کی ہڈیوں میں عزم کے گودے کو بےکاری کی دیمک سے محفوظ رکھ۔ اے ساری صدائیں سننے والے خدا !
ہماری معدوم ہوتی ،دم توڑتی صدا کو سن۔
اور ہمیں بے مشروط آزادی کی دولت سے نواز۔ تنگ زمین کو کشادہ کر ۔ ڈوب چکے حوصلوں کو رفعتیں دے۔ امید کی پیاسی زبانوں کو عطا کی چھاگل عنایت کر۔ بے سدھ بدنوں اور سوئی ہوئی خواہشوں کی نیند گرہیں کھول۔ مایوسیوں کے پامال راستوں پر راستی کی کرن پھوار برسا۔
اے لمحوں کے بخت تخلیق کرنے والے خدا!
آنے والے لمحوں کو گزر چکے لمحوں سے مختلف کر۔ انہیں دہشت گردی کے عذاب سے نجات دے۔ انہیں نہ ٹلنے والے عذاب لمحوں کی پچھل پیریوں کے آسیب سے بچا۔ اے خدا!… اے خستہ بدنوں میں صوت،صوت میں بیان اور بیان میں تخیل کی مقدس اڑان رکھ دینے والے خدا!
ہمار ے تخیل کی اڑان میں مقدس خواب رکھ دے۔ اور ان خوابوں کو تعبیر کی امید سے
اجال دے۔(آمین)
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی