اسلام آباد (فخر درانی) حکومت کی تبدیلی کی سازش کے بارے میں عمران خان کے موقف میں تازہ ترین تبدیلی سے سابق وزیر اعظم نے جتنا یو ٹرن لیا ہے اس کی تعداد شاید سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ عمران خان کی واحد مستقل پالیسی جس پر انہوں نے کبھی اباؤٹ ٹرن نہیں لیا وہ ’’تقریباً ہر بیان پر یو ٹرن لینا‘ ہے۔
عمران خان کے مشہور یو ٹرن کی فہرست کے مطابق 27 مارچ 2022 کو عمران خان نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے عدم اعتماد کے اقدام اور ان کی حکومت کے خلاف سازش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ بعد میں انہوں نے امریکی سازش کے اس بیان پر چار سے زیادہ موقف بدلے۔
ایک ایسے وقت میں جب انہوں نے امریکی حکومت کی تبدیلی کی سازش کا دعویٰ کیا، ان کی پارٹی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور پارٹی کا مثبت امیج بنانے کے لیے ایک امریکی لابنگ فرم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر رہی تھی۔ عمران خان نے امریکی سازش پر اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے ایک طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کو روک سکتے تھے۔
عمران خان نے ایک بار پھر امریکی سازشی تھیوری پر اپنا موقف بدل لیا اور اس بار انہوں نے نواز، زرداری، مولانا فضل اور دیگر کو آپریشن رجیم کا اصل کردار قرار دیا۔ گویا یہ کافی نہیں تھا، خان نے ایک بار پھر حکومت کی تبدیلی کی سازش پر اپنا موقف بدل لیا اور دعویٰ کیا کہ آپریشن رجیم چینج کے پیچھے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا ہاتھ ہے۔
اب بالآخر عمران خان نے 360 ڈگری کا یو ٹرن لے لیا ہے اور کہا کہ حکومت تبدیلی کی سازش امپورٹ نہیں تھی بلکہ ایکسپورٹڈ سازش تھی۔ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران نے آرمی چیف کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی منطق پر سوال اٹھایا۔ جبکہ اسی دوران میڈیا نے اس بات کا انکشاف کیا کہ خان نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔
عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور اراکین قومی اسمبلی کو متنبہ کیا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت کسی بھی غیر ملکی سفارت کار سے ملاقات نہ کریں۔ تاہم بعد ازاں نہ صرف پی ٹی آئی رہنما بلکہ عمران خان نے بھی سفارتکاروں سے ملاقات کی۔ تحریک عدم اعتماد کے عمل میں خان نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن جماعتیں ان کی پارٹی کے اراکین کے ووٹ خریدنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بعد میں ایک آڈیو لیک نے انکشاف کیا کہ خان خود اپنی حکومت بچانے کے لیے ووٹوں کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران آرمی چیف جنرل باجوہ کو جمہوریت نواز فوجی سربراہ قرار دیا۔ لیکن اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد عمران نے انہیں میر جعفر اور میر صادق قرار دیا۔ اپنی حکومت بچانے کے بدلے جنرل باجوہ کو توسیع کی پیشکش کی۔ تاہم، وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد، عمران نے باجوہ پر تنقید کی۔ بحیثیت وزیر اعظم عمران نے فخریہ کہا تھا کہ ان کے پاس تمام اختیارات ہیں لیکن جب معزول ہوئے تو انہوں نے اپنا موقف بدل لیا اور کہا کہ حکومت کے بغیر اختیارات کے سربراہ ہیں۔
خان نے کئی بار دعویٰ کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں نواز زرداری کی کرپشن کے بارے میں بریف کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد اپنا موقف بدل لیا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نواز اور زرداری کو بچانا چاہتی ہے۔ عمران خان اور ان کی حکومت نے پیکا آرڈیننس اور اس ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کا دفاع کیا لیکن اب صحافیوں کے خلاف اسی ایکٹ کے تحت مقدمات پر حکومت پر تنقید کر رہے ہیں جو ان کی حکومت کے دور میں پاس ہوا تھا۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے اپنے ایم این ایز کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا کہا۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنے ایم این ایز کو پارلیمنٹ میں واپس جانے اور استعفے واپس لینے کا حکم دیا۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ اس امپورٹڈ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنیں گے اور ضمنی الیکشن لڑیں گے لیکن بعد میں خان نے خود نو میں سے آٹھ خالی نشستوں پر الیکشن لڑا۔
عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ خان قومی اسمبلی کی تمام خالی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے لیکن بعد میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار خالی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے۔ عمران خان نے اس وقت روس کا دورہ کیا جب میزبان ملک جنگ چھیڑنے والا تھا۔ بعد میں انہوں نے یہ کہہ کر دفاع کیا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ روس ان کے دورے کے دوران جنگ شروع کر دے گا۔
عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ خان نے روس کے ساتھ سستے نرخوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے کو حتمی شکل دی۔ روسی حکومت نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔ عمران نے ہمیشہ کرکٹ میں نیوٹرل امپائرز متعارف کرانے کا کریڈٹ لیا لیکن جب ان کی حکومت گری تو عمران نے فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صرف جانور ہی غیر جانبدار ہو سکتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ چوروں کی حکومتوں کے ساتھ کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔ وہ صرف عسکری قیادت سے بات چیت کریں گے۔ تاہم اب پی ٹی آئی نے انتخابات کے لیے مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ نومبر 2021 میں خان حکومت نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے پرواز کرنے والے طیاروں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دفتر خارجہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور دفتر خارجہ کے تحفظات پر خان کی حکومت نے فیصلہ واپس لے لیا۔
یکم نومبر کو اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری ارسال کردی۔ خان نے سمری مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام پر اضافی بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ تاہم پانچ دن کے اندر انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ خان نے حالیہ پشاور حملے کو حکومت کی سیکورٹی ناکامی قرار دیا لیکن یہ ان کی حکومت تھی جس نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے تھے۔
13 مارچ 2022 کو تحریک عدم اعتماد سے ٹھیک پہلے عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ٹماٹر اور آلو کی قیمتیں چیک کرنے کے لیے حکومت میں نہیں آیا۔ حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد خان مسلسل حکومت کو بنیادی اشیاء کی قیمتوں اور مہنگائی کی یاد دلاتے رہے۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو ایسے وقت میں غیر جانبدار رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جب ان کی حکومت گرائی جا رہی تھی۔ تاہم اب ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے پیچھے جنرل ریٹائرڈ باجوہ کا ہاتھ ہے۔
عمران خان نے پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کو زرداری کا پی اے (پرسنل اسسٹنٹ) قرار دیا۔ تاہم سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے دوران عمران خان پریس بریفنگ میں خورشید شاہ کے پیچھے کھڑے رہے۔ 1997 میں خان نے سیاست میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی سیاست کا آغاز کیا لیکن بعد میں انہوں نے پرویز مشرف کو ملک کا وردی والا صدر منتخب کروانے کے لیے ووٹ دیا۔
عمران خان مشرف دور میں قومی اسمبلی کے رکن بنے لیکن بعد میں ان کے خلاف ہوگئے۔ مشرف نے بعد میں دعویٰ کیا کہ عمران ان سے 100 نشستیں چاہتے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ الیکٹ ایبلز پر تنقید کی اور اعلان کیا کہ وہ ان الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں کبھی نہیں لیں گے۔ لیکن بعد میں انہوں نے ان الیکٹیبلز کی مدد سے پنجاب میں اپنی حکومت بنائی۔ عمران خان ٹرن کوٹس سے نفرت کرتے تھے لیکن 2010 کے عوامی جلسے کے بعد انہوں نے ان تمام ٹرن کوٹس کو قبول کر لیا جنہوں نے ان کی پارٹی میں شامل ہونے کا انتخاب کیا۔
چوہدری پرویز الٰہی نے اس وقت جنرل احمد شجاع پاشا کو اس اقدام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عمران نے عوام کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے کبھی کسی کا کندھا استعمال نہیں کریں گے لیکن بعد میں اعتراف کیا کہ ایجنسیاں کسی بھی اہم قانون سازی سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کو لا کر ان کی مدد کرتی تھیں۔
فروری 2022 میں عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تحریری معاہدے میں پیٹرولیم اور بجلی کی نئی قیمتوں پر عملدرآمد پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن تین ہفتوں میں یو ٹرن لے کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ عمران خان نے ہمیشہ ایمنسٹی اسکیم پر تنقید کی اور اسے کالے دھن کو سفید کرنے کی اسکیم قرار دیا۔ تاہم ان کی حکومت نے ایسی کئی اسکیمیں متعارف کروائیں اور فرح خان جیسی ان کی قریبی ساتھیوں نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اس وقت عاشقان رسول ﷺکی جماعت تھی جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے۔ تاہم عمران خان کی اپنی حکومت کے دوران جب انہوں نے احتجاج کیا تو خان نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ عمران خان حکومت نے قومی سلامتی کے اجلاس میں ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن اس فیصلے کے دو دن کے اندر خان حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کیا اور تمام گرفتار کارکنوں کو رہا کردیا۔
عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی کسی غیر ملکی دوروں پر بڑا وفد نہیں لائیں گے لیکن میڈیا نے کئی بار یہ اطلاع دی کہ خان نے ایک بڑے وفد کے ساتھ دورہ کیا۔ خان نے میٹرو بس پر تنقید کی اور ان کی اپنی حکومت نے پشاور میں میٹرو بس منصوبہ شروع کیا۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی کسی کرپٹ عنصر کا دفاع نہیں کریں گے لیکن خان کی قریبی ساتھی فرح خان پر سنگین الزامات کے باوجود انہوں نے عوامی سطح پر ان کا دفاع کیا۔
عمران خان نے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو اپنی ہی حکومت میں تعینات کیا اور ان کے بارے میں اچھے ریمارکس دیے۔ تاہم بعد میں اپنا موقف بدلا اور ان پر الزامات لگا دیے۔ خان سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے بارے میں بھی اچھی رائے رکھتے تھے لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد وہ ان کے بھی خلاف ہو گئے۔عمران نے وعدہ کیا تھا کہ ان کا آزادی مارچ پرامن ہو گا لیکن جب مارچ جناح ایونیو اسلام آباد پہنچا تو اس نے پرتشدد شکل اختیار کر لی اور وہاں موجود درختوں اور دیگر املاک کو نذر آتش کر دیا۔
جب آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر رہا کیا گیا، ان کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔ عمران خان کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ تاہم خان کی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ توشہ خان کی تفصیلات ظاہر کرنا قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ خان نے وہ تمام تحائف بیچ دیے جو انہیں مختلف ممالک سے ملے تھے۔
خان جنہوں نے دعویٰ کیا کہ توشہ خانہ کی تفصیلات ان کی اپنی حکومت کے دوران ریاستی راز ہیں لیکن دوسری حکومتوں کی تفصیلات بھی ظاہر کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ انتخابات سے قبل عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے۔ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے اعلان کیا گیا کہ وہ اسپیکر ہاؤس میں رہیں گے، پھر فیصلہ بدل دیا گیا اور میڈیا کو بتایا گیا کہ وہ پنجاب ہاؤس میں قیام کریں گے۔ تاہم بالآخر وہ اب پی ایم ہاؤس میں آباد ہیں جہاں وہ ملٹری سیکریٹری ہاؤس میں رہائش پذیر ہیں۔
عمران نے الیکشن سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ بطور وزیراعظم وہ کبھی پروٹوکول نہیں لیں گے۔ تاہم وہ نہ صرف وزیر اعظم کے لیے مخصوص چھ لگژری گاڑیاں استعمال کر رہے تھے بلکہ ملک کے وزیر اعظم کے طور پر انھیں دیگر تمام پروٹوکول بھی فراہم کیے جا رہے تھے۔
عمران خان مثالیں دیتے تھے کہ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر سفر کر سکتا ہے تو ہمارے وزیراعظم کیوں نہیں کرسکتے۔ تاہم وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان ہیلی کاپٹر کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالہ روانہ ہوئے۔ عمران خان سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ تاہم عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پرویز الٰہی نہ صرف عمران خان کے اہم اتحادی ہیں بلکہ پی ٹی آئی نے انہیں پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بھی منتخب کیا۔
عمران خان نے پرویز الٰہی کی پارٹی کو صوبائی اور وفاقی کابینہ میں بھی چند نشستیں دیں۔ 2018 کے عام انتخابات سے پہلے عمران خان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو دہشت گرد جماعت کہتے تھے۔ انہوں نے ایک بار یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے سربراہ کے خلاف برطانیہ میں شکایت کریں گے۔ تاہم عام انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم نہ صرف عمران خان کی اتحادی جماعت ہے بلکہ اس نے انہیں وفاقی کابینہ میں اہم عہدے بھی الاٹ کیے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے عمران خان کے بطور وزیر اعظم حلف کے ایک روز بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے تین ماہ کے دوران بیرون ملک سفر نہیں کریں گے۔ تاہم عمران خان کم از کم پانچ غیر ملکی دورے کر چکے جن میں دو سعودی عرب اور ایک ایک متحدہ عرب امارات، چین اور ملائیشیا کا تھا۔ عمران خان نے کافی عرصہ پہلے ایک بار ایک ٹی وی ٹاک شو میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہیں لگائیں گے۔ تاہم شیخ رشید نہ صرف عمران خان کی کابینہ کے رکن بلکہ وہ ان کے اہم مشیروں میں سے ایک تھے۔
عمران خان کی زیر قیادت حکومت کے پہلے کابینہ اجلاس کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ اپنے غیر ملکی دوروں کے لیے خصوصی طیارہ استعمال نہیں کرے گی۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کمرشل پروازوں کے ذریعے سفر کریں گے۔ عمران خان نے اپنے تمام غیر ملکی دوروں میں وزیراعظم کے لیے خصوصی طیارہ ایئرفورس ون کا استعمال کیا۔ حتیٰ کہ وزیر خارجہ شاہ محمود نے اپنے دورہ افغانستان کے لیے چارٹرڈ طیارہ استعمال کیا۔
عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو اقربا پروری پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ وعدہ کیا کہ وہ اہم عہدوں پر اہل افراد کو تعینات کریں گے کیونکہ وہ اقربا پروری کے خلاف ہیں۔ تاہم ان کے تمام قریبی دوستوں بشمول زلفی بخاری، نعیم الحق، عون چوہدری کو ان کی حکومت میں کوئی نہ کوئی کردار دیا گیا۔ عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور پنجاب پولیس میں اصلاحات لائیں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ناصر درانی – سابق آئی جی پی کے پی کو پولیس ریفارمز کمیٹی کا سربراہ مقرر کریں گے۔ تاہم ڈی پی او پاکپتن کے واقعے کے بعد درانی نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کے خلاف احتجاجاً کمیٹی کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
عمران نے عام انتخابات سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں کرپٹ لوگوں کو اپنی ٹیم میں نہیں لوں گا۔ تاہم ان کی صوبائی اور وفاقی کابینہ کے کئی اہم ارکان نیب کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں پرویز خٹک، علیم خان اور زلفی بخاری شامل ہیں۔ عمران نے الیکشن سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ تاہم انہوں نے نہ صرف اپنے وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کی اجازت دی بلکہ انہوں نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مالی امداد کے لیے دوسرے ممالک سے بھی رابطہ کیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے صدر پاکستان منتخب ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا تھا کہ وہ ایوان صدر میں نہیں رہیں گے۔ تاہم وہ بھی ایوان صدر منتقل ہو گئے۔ کابینہ کے دوسرے اجلاس کے دوران عمران خان نے اپنی کابینہ کے ارکان کے غیر ملکی دوروں پر پابندی عائد کر دی۔ لیکن وہ خود اپنے ہر غیر ملکی دورے میں نصف درجن وزراء کے ساتھ گئے۔ اپنے حالیہ دورہ چین میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، وزیر ریلوے شیخ رشید، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور دیگر بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔
عمران خان نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت افغان اور بنگالی شہریوں کو شہریت دے گی۔ تاہم بعد میں نا معلوم وجوہات کی بنا پر فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد عمران نے قوم سے کہا کہ کسی نااہل شخص کو پارٹی کے معاملات نہیں چلانے دیں گے۔ تاہم جہانگیر ترین نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر بہت سے آزاد امیدوار لائے تھے۔ درحقیقت عمران خان نے انہیں لائیو سٹاک اور زراعت کی ٹاسک فورس کا کنوینر بنایا تھا۔
عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیوروکریسی کو غیر سیاسی کر دیں گے لیکن گزشتہ تین ماہ کے دوران عمران خان کی پارٹی کی بیوروکریسی میں مسلسل مداخلت نے کئی تنازعات کو جنم دیا۔ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ، آئی جی پنجاب اور اسلام آباد کے تبادلے پی ٹی آئی حکومت کی بیوروکریسی میں مداخلت کی چند مثالیں ہیں۔
حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے معاملات میں سیاسی اثرورسوخ پر تنقید کرتے تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ پی سی بی کو غیر سیاسی کر دیں گے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے قریبی دوست احسان مانی کو چیئرمین پی سی بی کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔
عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی کابینہ کو مختصر رکھیں گے اور 20 وزراء تک تقرر کریں گے تاہم وفاقی کابینہ ان کے وعدے سے تقریباً دوگنی ہوگئی۔ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ہفتے پارلیمانی اجلاس کے دوران ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے جوابات دیں گے تاہم 100 دن گزرنے کے باوجود عمران خان نے قومی اسمبلی کے 28 میں سے صرف سات اجلاسوں میں شرکت کی۔
عمران نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا جہاں سب برابر ہوں گے اور وی آئی پی کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔ تاہم اعظم سواتی، میاں محمود الرشید کے بیٹے اور عمران شاہ کے حالیہ واقعات نئے پاکستان میں وی آئی پی کلچر کی چند مثالیں ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر کئی رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد تقریباً 200 ارب ڈالرز کی لوٹی ہوئی رقم پاکستان واپس لائیں گے۔ اب کابینہ کے ارکان نے وضاحت کی کہ 200 ارب ڈالرز کی رقم درست نہیں تھی اور یہ مفروضوں پر مبنی تھی۔
عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی اسد عمر پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے پر پچھلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پیٹرولیم کی قیمتوں کے تعین کے لیے ایک مناسب طریقہ کار وضع کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ پیٹرولیم لیوی میں کمی کریں گے اور بالآخر پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کریں گے۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ کیا۔
عمران نے وعدہ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد بجلی کی قیمت کم کریں گے۔تاہم پی ٹی آئی کی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 2 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا۔ ماضی میں عمران خان اور اسد عمر نے گیس کی قیمتوں میں اضافے پر پچھلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور وعدہ کیا کہ وہ قدرتی گیس کی قیمتیں کم کریں گے۔ تاہم عمران خان کی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافہ کیا جو کہ ماضی قریب میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پی ٹی آئی میں انضمام کے وقت عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد پاس کروائی جائے گی۔ تاہم حکومت کے پہلے سو دنوں میں پارلیمنٹ میں کوئی قرارداد پیش نہیں کی گئی۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا۔ تاہم نہ صرف عمران خان وزیراعظم ہاؤس منتقل ہو گئے بلکہ ان کی پارٹی کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز بھی وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤسز میں شفٹ ہو گئے۔
عمران خان نے اکنامک ایڈوائزری کونسل کی تشکیل پر ایک اور یو ٹرن لیا۔ عاطف میاں کو ای اے سی کا ممبر مقرر کرنے کے بعد ان کی حکومت نے ان سے استعفیٰ دینے کو کہا کیونکہ وہ مذہبی جماعتوں اور گروہوں کے دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے سی پیک سے متعلق متنازع بیان جاری کیا۔ داؤد نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ حکومت سی پیک منصوبوں پر نظرثانی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کے بعد مشیر نے اپنے الفاظ کھالئے۔
انہوں نے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے پر نواز شریف پر بھی تنقید کی کیونکہ ان کے خیال میں یہ کام متعلقہ محکمے کے سربراہ کو کرنا چاہیے تھا۔ پھر عوام نے انہیں اپنی ہی تبلیغ کے خلاف جاتے دیکھا جب انہوں نے دوسرے دن راولپنڈی میانوالی ایکسپریس کا افتتاح کیا۔ درانی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی پارٹی میں الیکٹیبلز کو کبھی خوش آمدید نہیں کہیں گے کیونکہ وہ حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ تاہم عمران خان حالیہ انتخابات میں الیکٹیبلز لینے والوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی میں الیکٹیبلز کو خوش آمدید کہنے کے اپنے فیصلے کو یہ کہہ کر بھی درست قرار دیا کہ وہ الیکشن لڑنے کا فن جانتے ہیں۔
عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ کسی بھی نیب کے داغدار شخص کو اپنی پارٹی یا کابینہ میں شامل نہیں کریں گے۔ تاہم وزیر دفاع پرویز خٹک، زلفی بخاری سمیت کئی رہنما جو نیب کی تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں، وہ بھی وفاقی کابینہ کے رکن ہیں۔ پنجاب حکومت کے سینئر وزیر علیم خان بھی نیب انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمران خان دوہری شہریت والوں کو اہم سرکاری عہدوں پر شامل کرنے پر پچھلی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن زلفی بخاری عمران خان کی حکومت میں سب سے بڑی مثال ہیں جن کی دوہری شہریت ہے۔
عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں قوم واضح تبدیلی دیکھے گی۔ تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کو ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کم از کم چھ ماہ کا وقت دیا جانا چاہیے۔ اب پی ٹی آئی کے چند وزراء نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ انہوں نے 100 دن کی بات ہی نہیں کی۔ عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ 200 ماہرین کی ٹیم لائیں گے جو تمام سرکاری اداروں اور محکموں کی قیادت کرے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے نہ صرف سرکاری اداروں میں اصلاحات آئیں گی بلکہ کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔ تاہم عمران خان اہم اداروں میں ایسے ماہرین کی تعیناتی میں ناکام رہے۔ دوسری جانب انہوں نے اپنے تمام قریبی دوستوں کو حکومت میں کچھ اہم عہدوں پر ایڈجسٹ کر لیا۔
عمران خان نے پچھلی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوئلے سے بجلی نہیں بنا رہی جیساکہ پاکستان میں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ تاہم ایک بار پچھلی حکومت نے ساہیوال خان میں کول پاور پلانٹ لگا کر یو ٹرن لیا اور کہا کہ کوئلے کی ٹیکنالوجی فرسودہ ہے اور چین سمیت تقریباً ہر ترقی یافتہ ملک نے اس ٹیکنالوجی کو ترک کر دیا ہے۔
خان نے وعدہ کیا کہ لوگ پہلے سو دنوں میں واضح تبدیلی دیکھیں گے اور جب پی ٹی آئی حکومت بنائے گی تو وہ اپنے سو روزہ پلان کا اعلان کرے گی۔ تاہم اب پی ٹی آئی کے وزراء دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی سو روزہ پلان نہیں تھا۔ اس سو روزہ ایجنڈے کا اعلان پی ٹی آئی حکومت کے اگلے پانچ سالوں میں لائحہ عمل کی سمت متعین کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
عمران نے کے پی اور دیگر صوبوں میں احتساب کمیشن بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم صوبائی حکومت نے تقریباً 800 ملین روپے خرچ کرنے کے بجائے کمیشن کو تحلیل کر دیا۔ ’’میں میٹرو بس منصوبوں کے بجائے لوگوں پر سرمایہ کاری کروں گا‘‘، عمران نے ہمیشہ یہ دعویٰ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے میٹرو بس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کیا۔ تاہم پی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت نے مسلم لیگ ن کی پیروی کرتے ہوئے پشاور میں سب سے مہنگے میٹرو بس منصوبے کا آغاز کیا۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے ضمنی بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نان فائلرز کو پراپرٹی اور نئی گاڑیاں خریدنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم بعد میں حکومت نے یو ٹرن لیتے ہوئے نان فائلرز کو دیے گئے ٹیکس مراعات واپس لے لیے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے سرکاری اشتہار پر شہباز شریف کی تصاویر پر تنقید کی۔ تاہم بظاہر اس کے برعکس ایک اخباری اشتہار میں عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تصاویر تھیں۔
الیکشن میں آنے سے پہلے خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایل این جی اور سی پیک منصوبوں کے سودے پبلک کریں گے۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد خان نے ان دونوں وعدوں پر یو ٹرن لے لیا۔ عمران خان کے پہلے دورہ سعودی عرب کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب تیسرے اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر سی پیک میں شمولیت پر رضامند ہو گیا۔ تاہم چینی حکومت کے ردعمل کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت نے اس پر یو ٹرن لے لیا۔
عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پاکستانیوں کے لیے ایک کروڑ نوکریاں پیدا کریں گے۔ تاہم کے پی میں پی ٹی آئی کے سینئر وزیر عاطف خان نے اب واضح کیا کہ انہوں نے کبھی یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ سرکاری محکموں میں یہ نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں پیشکش کی تھی کہ اگر اپوزیشن جماعتیں ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنا کنٹینر انہیں دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ایک بار جب ٹی ایل پی نے پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت کے خلاف احتجاجی مہم شروع کی تو خان نے ٹی ایل پی کی قیادت کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
عمران خان جاتی امرا کی رہائش گاہ پر ریاستی وسائل بانٹنے پر نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد خان اپنی بنی گالہ رہائش گاہ پر نہ صرف سرکاری سیکورٹی سے فائدہ اٹھاتے رہے بلکہ کچھ دیگر سہولیات جیسے بلاتعطل بجلی کی فراہمی وغیرہ سے بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اپوزیشن کو کوئی تحفظات ہیں تو وہ دوبارہ گنتی کے لیے کوئی بھی حلقہ کھولنے کو تیار ہیں۔ لیکن جب خواجہ سعد رفیق نے این اے 131 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تو عمران خان نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی برطانیہ میں کچھ جائیدادوں کا سراغ لگایا ہے۔ تاہم جب ڈار نے اس دعوے کا مقابلہ کیا تو شہزاد اکبر نے یو ٹرن لیا اور کہا کہ ڈار کی جائیدادوں کا سراغ برطانیہ میں نہیں کسی اور ملک میں لگایا گیا۔
عمران خان نے وعدہ کیا کہ اگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو وہ اس سے سختی سے نمٹیں گے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بار بار بھارت سے مفاہمت کا اظہار کیا۔