غالب کی وفات کو ایک سو باون سال ہوچکے ہیں لیکن ان کے فکر و فن کا اعجاز آج بھی اُردواور تراجم کے ذریعے دیگر زبانیں بولنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔ گویا غالب برصغیر ہی کا نہیں بلکہ آفاقی حیثیت کا شاعر ہے۔ ان کی فکر کا سب سے نمایاں زاویہ اس کی مستقبل بینی ہے، اسی لئے اُردو کے معروف ناقد نیاز فتح پوری نے کہا تھا کہ ’’غالب ہر مستقبل میں مستقبل کا شاعر ہے۔‘‘ غالب کی وفات سے آج تک اُردو زبان کے طرزاَدا اور ڈکشن میں نمایاں تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن غالب کا طرز ان کا انداز آج بھی نہ صرف جدّت کا حامل ے بلکہ انفرادیت کا طرّۂ امتیاز بھی ہے، ان کا یہ مصرع آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا آج سے ایک سو باون سال پہلے تھا۔
کہتےہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
غالب کی عظمت کا ایک بڑا زاویہ اِنسان سے ان کی محبت، بے ساختگی اور نفسیات انسانی پر دسترس ہے۔ اُردو شعراء میں اِنسانی زندگی کے اتنے پہلوئوں کو شاید ہی کسی نے بیان کیا ہوگا جتنے پہلوئوں کو غالب نے اپنے اشعار کا موضوع بنایا ہے۔ شعراء کو تلامیذالرحمٰن کہا جاتا ہے اور اس مقولے کو پوری صداقت سے پرکھنا ہو تو غالبؔ کو پڑھنا اور انھیں سمجھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ عبدالرحمٰن بجنوری نے شاید اسی صداقت کی روشنی میں کہا تھا کہ، ہندوستان میں دو الہامی کتابیں ہیں، ایک ویدِ مقدس اور دُوسری کلامِ غالبؔ۔
ہمارے پاس ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہےجس کے ذریعے غالب کے کلام پر الہامی یا غیرالہامی ہونے کا حکم لگایا جائے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کے اشعار پڑھنے والوں کے دِلوں پر القاء و الہام، کیفیت و کمیت، فرحت و مسرّت بن کر ضرور نازل ہوتے ہیں۔ پڑھنے والا خود کو آگہی سے اور زندگی سے زیادہ قریب محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کی شاعری عربی، فارسی اور ہندی روایت کا ایک خُوبصورت مرقع ہے۔ انسانی نفسیات، فلسفہ، تصوّف، عشق حقیقی، لذّت و عیش کوش، بزلہ سنجی و خودفراموشی، آج کا دُکھ، کل کا غم، رنگِ نشاط و بار الم ان کے یہاں کیا کچھ نہیں ہے۔
بعض شخصیات ہفت پہلو کہلاتی ہیں لیکن غالب کی شخصیت ہزار پہلو تھی۔ دیوان غالب کا ہر صفحہ پر ایک نیا غالب نظر آتا ہے۔ بھرپور اعتماد، مکمل ایقان اور عالمانہ ہیں بلکہ اِنسانی وقارکے ساتھ اس کی علمیت سے مرعوب ہونے کے باوجود پڑھنے والا اسے عزیز رکھتا ہے، اسی سے محبت کرتا ہے اور ’’ہر غم کو ہم نشے میں اُڑاتے چلے گئے‘‘ کی تفسیر بن جاتا ہے۔
غالب نے بڑا کام یہ کیا ہے کہ دِل کی لگی کو دِل لگی بنا دیا ہے اور تارے گننے کے بجائے محبوب کی بے اعتنائیوں کا شمار شروع کر دیا ہے۔غالب نے زندگی کو پرکھا، برتا اور اپنی شاعری میں سمو دیا۔ دُکھ، مصائب، عسرت، تنگدستی، گردشِ ایّام، غم ہائے روزگار، سب کو خیالِ یار میں ضم کر دیا اور اسی ’’حُسنِ خیال‘‘ نے انھیں ہمیشہ سرشار رکھا اور اسی حقیقت سے آشنا کیا کہ مٹی سےرشتہ استوار رکھنا ہمیشہ سودمند ہوتا ہے۔ ایک سو باون سال گزر جانے کے باوجود غالب فہمی کا دور مستقل جاری ہے۔
اُردو شعراء میں دو ہی شاعر ایسے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ ایک غالب دُوسرے اقبال۔ دونوں کے یہاں فکر و فن کی اتنی جہتیں ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں ہے ،اسی لئے آئے دن کوئی نہ کوئی فن آشنا غالب کے فن کا کوئی نیا پہلو، نیا زاویہ، منصہ شہود پر لے آتا ہے۔ مغلوں کے زوال کے بعدجب شرفاء خانقاہوں کا رُخ کررہے تھے غالب نے زندگی کو شعر کی بنیاد بنا کر فکر و فن کے ایسے پُھول کھلائے جن کی خُوشبو سے مشام جان آج تک معطر ہے۔ درایت کے ایسے چراغ روشن کئے جن کی روشنی آج بھی دِل والوں کو راستہ دکھا رہی ہے۔
ایک سو باون سال گزر جانے کے باوجود غالب کا آہنگ نہ صرف برصغیر میں بلکہ پوری دُنیا میں گونج رہا ہے۔ وہ اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے باوجود درجۂ اِنسانیت پر فائز تھا اِنسان سے محبت نے ہی اسے یہ وقار اور اعتبار عطا کیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر سے لے کر دلّی کے ایک عام فقیر کو بھی اس کا گرویدہ بنا دیا ہے۔ غالب کی شاعری کے نگارخانے میں سبھی کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ اسی لئے اس کا فن وقت کی قید سے آزاد ہوگیا ہے۔ غالب کسی خاص نسل، کسی خاص عہد اور کسی خاص معاشرے کا شاعر نہیں ہے، اس کی شاعری میں ’’اِنسان‘‘ کا دِل دھڑکتا ہے اور اِنسان کو وقت مقام اور معاشروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ غالب کا کہنا تھا کہ:
غالب خستہ کے بغیر کونسے کام بند ہیں
لیکن دیانت داری سے کہئے کہ غالب کے بغیر ہماری شعری و اَدبی اور تہذیبی زندگی کتنی خالی، پھیکی اور بے کیف ہوتی۔ غالب کل بھی غالب تھے، آج بھی غالب ہیں اور آنے والے زمانوں میں بھی غالب ہی رہیں گے۔