• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں ماسی‘‘ آپ لوگوں کی زندگی کا لازمی حصہ ہوں

جی ! میں جو اب آپ کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہوں اور اتنا لازمی حصہ کہ صبح اٹھتے ہی خاتون خانہ کو میرا خیال سب سے پہلے آتا ہے اور میرا انتظار بھی شدت سے شروع ہو جاتا ہے اکثر تو گنگنانے بھی لگتی ہیں کہ ’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘۔ جب کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لئے لاک ڈاؤن لگایا گیا اور لوگ شدید خوف میں مبتلا ہوئے تو گھروں میں میرا آنا بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تھا، آپ لوگ مجھے دیکھتے ہی گھروں کے دروازے بند کرنے لگے تھے۔ ان دنوں آپ لوگوں کو تو میری قدر آئی سو آئی مجھے بھی کچھ دن آرام مل گیا تھا لیکن سچ بتاؤں تو روزی روٹی چھن جانے کے ڈر نے سکون سے سونے بھی نہیں دیا تھا۔

اُمید ہے اب تو آپ لوگ مجھے پہچان گئے ہوں گے۔ میرا نام زینب ، ساجدہ ، کنیز، شمیم، رانی یا کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن کام صرف ایک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ کے گھروں کو شیشے کی طرح صاف کردوں ، آپ کے لئے مزیدار کھانے پکاؤں، آپ کی خدمت میں توے سے اتری گرما گرم روٹیاں پیش کروں ، آپ کے برتن اتنے صاف دھو دوں کے وہ جگمگانے لگیں، آپ کے کپڑے پہلے دھو کر بے داغ کروں اور پھر انہیں استری کرکے بے شکن کردوں ۔ آپ کی نظر میں میں ایک مشین ہوں جو صبح آتی ہے اور کام کرکے واپس چلی جاتی ہے ، آپ لوگ مجھے ان سب کاموں کا معاوضہ دیتے ہیں۔ 

اس لئے یہ آپ کا حق ہے کہ میں اپنی تمام ہمت، طاقت ، قوت اور صلاحیتیں استعمال کرکے آپ کو مطمئن کروں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی میرے بارے میں سوچا ہے کہ میں بھی ایک انسان ہوں ایسی ہی انسان جیسے آپ سب لوگ ہیں۔ میں ان گنت مسائل میں گھری وہ عورت ہوں جو چار پیسوں کی خاطر اپنے ننھے ننھے بچے اکیلے چھوڑ کر ، سردوگرم موسم کی پرواہ کیے بغیر اپنی نیند، اپنا آرام، اپنا بستر ، اپنی صحت قربان کرکے صبح آپ کے گھر میں حاضر ہوتی ہے اور سر جھکا کر آپ کے کام کررہی ہوتی ہے۔ جب آپ اے سی میں بیٹھ کر گرمی گرمی کررہے ہوتے ہیں ، کبھی سردیوں میں کمبل میں ہیٹر کے آگے بیٹھے مونگ پھلی، بادام، پستے کھا رہے ہوتے ہیں اور کبھی برستی بارش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو میں تب بھی موسم سے بے نیاز آپ کے گھر میں کام کررہی ہوتی ہوں۔

کیا آپ کو پتہ ہے کہ کبھی کبھی میرے جسم میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ میں اپنے بدن کو بڑی مشکل سے گھسیٹ گھسیٹ کر آپ کے کام پورے کرتی ہوں اور اس کے بعد آپ کی ٹانگیں بھی دبادیتی ہوں ،کیوں کہ آپ صرف میری نگرانی کرنے سے تھک چکی ہوتی ہیں۔ کیا اپنی ٹانگیں دبواتے وقت کبھی آپ کو میرے تھکن سے چور چور بدن کا خیال آیا ہے؟ جس وقت آپ کے کچن میں مزیدار کھانے پک رہے ہوتے ہیں اور میں کام کرتے وقت ان کی خوشبوئیں سونگھتے ہوئے اپنے خالی پیٹ کے ساتھ پونچھا لگا رہی ہوتی ہوں کیا اس وقت آپ کو میرا خیال آیا ہے کہ یہ بھی بھوکی ہوگی ؟ باجیوں! سچ بتاؤں تو صبح کے برائے نام ناشتے کی باسی روٹی اور چائے بہت جلدی ہضم ہوجاتی ہے۔

جب آپ کے کچن میں آپ کے بچوں کے لئے میٹھے پراٹھے پک رہے ہوتے ہیں اور ان کی سوندھی سوندھی مہک اور دھواں سب طرف پھیلا ہوتا ہے تو مجھے گھر میں چھوڑ کر آئے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے بہت یاد آتے ہیں جن کی روٹی میں صبح پکا کے رکھ کر آتی ہوں جو وہ چٹنی یا رات کی آلو کی بھاجی سے چپ چاپ کھا لیتے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے بچوں کے ادھر ادھر پھیلے قیمتی کھلونے سمیٹتے وقت بھی مجھے اپنے ننھے منے بچے بہت یاد آتے ہیں۔

اکثر میں خیالوں میں اپنے بچوں کو ان کھلونوں سے کھیلتا دیکھ رہی ہوتی ہوں۔ میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ جب میں کام کے بعد گھر پہنچتی ہوں تو وہ بے صبری سے بھاگ کے آکر میری ہاتھ سے کیسے تھیلیاں چھینتے ہیں کہ " آج امی کی باجی نے کونسا بچا ہوا کھانا دیا ہے " کبھی اچھا نکل آتا ہے تو بھوکوں کی طرح اسی وقت کھا جاتے ہیں سڑا بسا نکلے تو منہ بسور لیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ان کی پسند کا سڑا بسا بھی ہو تو کھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مجھے ان کے ہاتھ سےچھین کر پھینکنا پڑتا ہے۔ 

اللہ نے آپ لوگوں کو بہت نوازا ہے لیکن ہمیں اور ہمارے بچوں کو کبھی کبھی ہی تازہ اور اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے ناں آٹا بہت مہنگا ہے ہر چیز مہنگی ہے گھر چلانا بہت مشکل ہے۔ جب آپ لوگ مہنگائی کی باتیں کرکے فکر کررہے ہوتے ہیں تو ہم بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکتے ہیں۔ ہمیں آپ کے ڈبوں میں بھرے راشن ، آٹے کے تھیلے، فرج میں رکھے گوشت اور سبزی کے ڈھیر سب نظر آرہے ہوتے ہیں۔ آئن لائن منگائے گئے پزا ،برگر اور نجانے کن کن کھانوں کے ڈبے ہم ہی کوڑے دان میں ڈالیتے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے ہم روز کے روز پچاس روپے کا دودھ، پچاس روپے کی چینی اور تیس روپے کی پتی لیکر چائے بناتے ہیں۔ 

آدھا کلو سبزی بھی روز نہیں لے سکتے زیادہ تر چٹنی پر گذارا ہوتا ہے۔ کوئی بات نہیں باجیوں اللہ آپ کے رزق میں اور برکت دے لیکن بس ہمارے اپنی تنخواہ میں سے چار پانچ سو ایڈوانس ادھار مانگنے پر یہ نہ بولا کریں کہ ’’ابھی کہاں سے دوں ؟ پہلی تاریخ پہ ہی دوں گی بہت مہنگائی ہے ‘‘ دے دیا کریں جی۔ آپ کو کیا پتہ کتنی مجبوری میں مانگتے ہیں ،کبھی گھر میں آٹا نہیں ہوتا تو کبھی کوئی بیمار پڑا ہوتا ہے۔ آپ کی دی ہوئی اترن سے لے کر زکوۃ خیرات جو ہمیں دی گئی ہوتی ہے۔

اس تک کے طعنے اس وقت سننے پڑتے ہیں کیونکہ آپ سب گنواتی ہیں۔ مانا کہ میں جاہل ہوں، مانا کہ ہاں میں کبھی کبھی کام میں ڈنڈی مار دیتی ہوں ، مانا کہ کبھی کبھی مجبوری میں چھٹی بھی کرلیتی ہوں، مانا کہ کبھی کبھی تنخواہ سے پیسے بھی مانگ لیتی ہوں لیکن مہربانی کرکے میری مجبوری کو سمجھ لیا کریں۔ کبھی کبھی جانتے بوجھتے بھی نظر انداز کردیا کریں کہ اس وقت کیا پتہ میری کیا مجبوری ہو۔

آپ کو کیا پتہ کہ جس وقت صفائی میں کچھ کمی رہ گئی ہو ہوسکتا ہے۔ اس وقت میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہو، میرا پیٹ خالی ہو ، مجھے اپنے بچوں کی فکر ہو ، روزانہ کی سستی برداشت نہ کریں پر کبھی کبھی تو معافی ملنی چاہیے ناں ! اور آخر میں بس ایک بات کہ کچھ اور دیں یا نہ دیں تنخواہ وقت پر دے دیا کریں، میری تنخواہ کے لئے مجھے نہیں ترسایا کریں۔ 

آپ لوگوں جیسے پڑھے لکھوں سے ہی سنا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دیا کرو ‘‘۔ تو پیارے قارئین آپ لوگ بھی اس بارے میں سوچیے گا ضرور کہیں آپ بھی تو ایسا نہیں کرتیں اور اگر ایسا کرتی ہیں تو اس پر قابو پانے کے لیے بھی ضرور سوچے گا۔ فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔