• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیرات میں کئی زمینی حقائق مدِنظر رکھے جاتے ہیں۔ دنیا کے سرد خطوں میں تعمیرات اسی مناسبت سے کی جاتی ہیں، جبکہ گرم خطوں کی تعمیرات میں موسم کی مناسبت سے یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ تعمیر اور آرکیٹیکچر اس طرح کا ہو کہ وہ گرمیوں میں بھی ٹھنڈی رہے۔ اس کے علاوہ، تعمیرات میں ہر خطے کی ثقافت اور عہد کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔ 

مثال کے طور پر، یورپ میں ایک طرف ہمیں جہاں شیشوں والی فلک بوس جدید عمارتیں نظر آتی ہیں، وہاں پتھر کی بنی خوبصورت قدیم عمارتیں ابھی بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اسی طرح، برِصغیر کی تعمیرات میں بھی اس خطے کے مزاج، ثقافت اور ضروریات کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک طرف یہاں ہمیں مغلیہ دور کی تاج محل اور بادشاہی مسجد جیسی خوبصورت تعمیرات نظر آتی ہیں تو دوسری طرف انگریزدور کی بھی خوبصورت تعمیرات کی کمی نہیں ہے۔

سرخ اینٹوں سے بنے مکانات کی بات کی جائے تو ہمارے ذہن میں فوراً لاہور کا تصور آجاتا ہے۔ جہاں سرخ اینٹوں سے بنے شاندار اور متاثر کن مکانات نے شہر کا رنگ گلابی کیا ہوا ہے۔ صرف لاہو ر ہی نہیں پنجاب کے دوسرے شہروں اور دیہات میں بھی سرخ اینٹوں سے بنے مکانات جابجا نظر آتے ہیں۔ سرخ اینٹوں سےگھر بنانے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان پر رنگ و روغن نہ کریں تب بھی ان کی خوبصورتی متاثر نہیں ہوتی۔ 

کراچی اور اندرون سندھ مکانات ریتی بجری سے بنے بلاکس یا کنکریٹ کی سلیب سے تیار کیے جاتے ہیں لیکن سرخ اینٹوں کا استعمال ہمیں کراچی جیسے شہروں میں بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے۔ اس سے گھر کے بیرونی حصے کو دیہی اندازدیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرخ رنگ کی چھت بنانے کا رواج بھی عام ہے، جو کھپریل کے ٹائلز سے بنائی جاتی ہیں۔

سرخ اینٹوں سے بنی عمارتوں کی بات کریں تو اس کیلئے بھارت کا شہر جے پور مشہور ہے۔ اس شہر میں شاید ہی کوئی عمارت ایسی ہو جس کا گلابی رنگ نہ ہو۔ اسی لیے اسے ’’ گلابی شہر‘‘ یا ’’پنک سٹی‘‘ کا نا م دیا گیا ہے۔ سرخ اینٹیں بھٹے کی سختی اور گرمائش برداشت کرکے نکلتی ہیں، اسی لیے یہ موسم کی سختی بھی بآسانی برداشت کرلیتی ہیں اور ان سے بنے گھر خوبصورت دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ پائیدار بھی ہوتے ہیں۔ بھٹے میں پکی مٹی سے بنی یہ سرخ اینٹیں پنجاب کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی تیار کی جاتی ہیں۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف سرٹیفائیڈ ہوم انسپیکٹرز (IACHI) کےمطابق سرخ اینٹوں سے بنی عمارتیں 100سال سے زائد عرصے تک قائم رہتی ہیں، تاہم اس میں باقاعدہ دیکھ بھال اورعمومی ٹوٹ پھوٹ سے بچائو کا بھی عمل دخل ہوتاہے۔ سیپیج، لیکیج اور ٹوٹ پھوٹ کی وقت پر نشاندہی اور اس کا سدباب کرکے عمارتوں کو طویل عرصے تک قائم و دائم رکھا جاسکتا ہے۔

عمارت کو طویل المیعاد عرصے تک قائم رکھنے والی یہ سرخ اینٹیں باہر کے موسمی تغیر سے بہرحال متاثر تو ہوتی ہیں۔ بارش، ژالہ باری اور کڑکتی دھوپ سے دیواروں میں ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ رہتاہے۔ خاص طور پر دروازوں اور کھڑکیوں کے فریمز کے ساتھ یہ مسئلہ زیادہ پیش آسکتاہے۔ اس لئے ان کی دیکھ بھال اور مرمت کا کام 5 سے10سال میں سامنے آ سکتا ہے۔

سرخ اینٹوں کے فوائد

انسانی ہاتھوں سے بنی اور دھوپ میں سینکی گئیں اینٹوں کی بات کریں تو زمانے کے سرد وگر م جھیلنے کے ساتھ ساتھ یہ زبردست موصل یعنی انسولیٹرز کا کام بھی کرتی ہیں۔ یہ دن بھر کی دھوپ یعنی حرارتی توانائی کو اپنے اند ر جذب کرتی ہیں اور سورج غروب ہونے کے بعد اسے باہر نکالتی ہیں۔ اسی لیے سرخ اینٹوں سے بنی عمارتیں سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی ہیں۔

ماحول دوست

ان کی تیار ی میں زیادہ مٹیریل ضائع نہیں ہوتا، اس لئے یہ زمینی آلودگی کا باعث بھی کم بنتی ہیں۔ یہ ماحول دوست گردانی جاتی ہیں کیونکہ ان کی تیاری میں مٹی، راکھ اور زمینی اشیا استعمال ہوتی ہیں۔ اس میں کسی قسم کا مصنوعی کیمیکل یا مادہ استعمال نہیں ہوتا، اس لئے ان میں سے نقصان دہ گیسوں کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

کم لاگت

کسی بھی عام کنسٹرکشن کے مقابلے میں ان اینٹوں میں بوجھ سہارنے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا خام مال بآسانی دستیاب ہوتاہے، جس کی وجہ سے اس کی دیکھ بھال کی لاگت بھی کم آتی ہے۔ یہ ہلکی مگر مضبوط ہوتی ہیں، ان سے گھر کی تعمیر میں اسٹیل اور دیگر مہنگے مٹیریلز کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ آجکل جو سوراخ والی اینٹیں دستیاب ہیں، وہ لال اینٹوں کے مقابلے میں60 فیصد ہلکی ہیں۔

فائر پروف

ان اینٹوں کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہےکہ ان میں آگ نہیں لگتی اور ان کو دوبارہ استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ ان میں آگ نہ لگنے کی وجہ یہ ہےکہ ان کو کئی گھنٹوں تک آگ میں پکایا جاتا ہے، اسی لیے یہ فائر پروف ہوتی ہیں۔

تعمیرمیں پانی کی کم کھپت

جب ان اینٹوں سے گھر کی تعمیر کی جارہی ہوتی ہے تو تعمیرات میں پانی کی کھپت 95 فیصد تک کم ہوتی ہے۔ اس کا مٹیریل جلدی سوکھ بھی جاتا ہے، اس لیے تعمیر والے حصے میں آپ24 گھنٹے کے بعد بھی داخل ہوسکتے ہیں۔