سجاد عباسی
سعادت حسن منٹو دنیائے اردو ادب میں اب تک اپنی نوعیت کے واحد افسانہ نگار ہیں، ان سے قبل اور ان کے بعد آج تک کسی میں وہ جرات اظہار پیدا نہیں ہوسکی جو منٹو میں تھی۔ زندگی کا بے باک ترجمان اور ایسا قلمکارجس نے سب سے پہلے روایتی راہ سے ہٹ کر اپنا راستہ خود بنایا، معاشرے میں ہر طرح کی منافقت کو اجاگر کیا۔ منٹو کا قلم سفاکیت کی حد تک بے باک تھا،جس سے نہ صرف زندگی کی بھرپور عکاسی کی بلکہ زندگی کے متعلق ایک واضح نقطہ نظر اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ منٹو کے افسانے دراصل معاشرے میں پھیلی ناانصافی اور بربریت کے خلاف بانگ درا کی حیثیت رکھتے ہیں۔
منٹوپر مقدمے چلے، مصائب و مسائل کے گرداب میں پھنسے بھی رہے، مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے، لگن سچی تھی اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی محرومی اور ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو منظرعام پر لانے کا ہر صورت عزم کرچکےتھے، جس پر وہ چٹان کی طرح زندگی بھر ڈٹے رہے۔ ’’نقوش ادب‘‘ کی مصنفہ فرزانہ سید کے مطابق ’’سعادت حسن منٹو کا کسی ادبی فرقے سے تعلق نہیں تھا، وہ اپنی طرز کا خود ہی ایک فرقہ تھا۔ منٹو نے حقیقت پر مبنی کہانیاں لکھیں، سچ چونکہ کڑوا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں تلخی، ترشی اور کڑواہٹ ہے۔‘‘
ممتاز نقاد و محقق ڈاکٹر سلیم اخترکےمطابق’’منٹو نے بہت ہنگامہ خیز زندگی بسر کی، وہ ذہین تخلیق کاروں کے شہر امرتسر کا تھا، ویسے اس کی پیدائش سمبرالہ ضلع لدھیانہ میں ہوئی مگر عمر کا ابتدائی حصہ امرتسر میں بسر کیا، اس لیے اس کے مزاج کی نرمی اور سختی کی وہی متضاد خصوصیات ملتی ہیں جو امرتسر والوں کا شیوہ ہیں اور جن کی بنا پر وہ بے حد مخلص دوست اور بہت خطرناک دشمن بھی ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ منٹو میں بھی یہی انتہا پسندی ہے، وہ دوست بنتا تو کھل کر اور دشمنی کرتا تو واضح انداز میں، پھر دلیر مرد تھا، اپنی لڑائی خود لڑتا اور اس کے لیے پالتو قسم کے لوگوں کا سہارا نہ لیتا۔‘‘
سعادت حسن منٹو کے خاندان کا تعلق کشمیری پنڈتوں کی سارسوات برہمن شاخ سے تھا۔ ان کے آبائو اجداد نے منٹو سے تین چار نسلیں قبل اسلام قبول کرلیا تھا اور بیگم صفیہ منٹو کے بقول منٹو کے آبائو اجداد اٹھارویں صدی کے آخر میں کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب میں آباد ہوگئے تھے۔ منٹو کے والد مولوی غلام حسن سب جج کے عہدے پر فائز تھے جبکہ والدہ سردار بیگم ان کی دوسری منکوحہ تھیں۔ بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ منٹو پدرانہ شفقت سے ہمیشہ محرم رہا، اس کمی کو اس کی والدہ نے پورا کیا۔ ابو سعید قریشی نے والد کی سخت گیری کو منٹو کی شخصیت کے مطالعہ میں ایک اہم نفسیاتی نکتہ کے طور پر پیش کیا ہے۔
گویا منٹو کی شخصیت میں بغاوت اور آوارگی کا جو عنصر تھا وہ اسی پدرانہ بے رخی کا نتیجہ تھا لیکن منٹو کی کسی تحریر سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا۔ ڈاکٹر علی ثناء بخاری کے مطابق، منٹو میٹرک میں تین مرتبہ فیل ہوئے، آخرکار درجہ سوم میں میٹرک پاس کیا ،مگر اردو کے پرچے میں پھر بھی فیل ہوگئے۔ پہلے ہندو سبھا کالج امرتسر میں داخلہ لیا، پھر ایم اے او کالج امرتسر میں انٹر کے طالب علم کی حیثیت سے ہی پہنچے، جہاں صاحبزادہ محمود الظفر، فیض احمد فیض، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور اختر حسین رائے پوری اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، یہ تمام اساتذہ قلمکار بھی تھے اور انہوں نے آگے چل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کی بھی بنیاد ڈالی۔
منٹو کی ذہنی ہم آہنگی کے باعث کچھ عرصہ اطمینان سے منٹو نے وہاں گزارا،اسی دوران 1932ء میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا، مگر منٹو نے کالج نہیں چھوڑا لیکن امتحانات میں پاس ہوکر بھی نہیں دیا، البتہ اس کے اندر کا منٹو باہر آنا شروع ہوگیا، اس نے اپنے قلم کا جادو جگانا شروع کردیا۔ دو دفعہ ایف اے میں فیل ہونے کے باعث منٹو کی طبیعت روایتی پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہوچکی تھی، البتہ ان دنوں میں وہ باری علیگ سے نیاز مندی حاصل کرچکے تھے۔ 1935ء میں انٹر کیے بغیر علی گڑھ یونیورسٹی جا پہنچے ،مگر چند ماہ بعد ہی یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔
عام تاثر یہ ہے کہ انہیں بیماری (تپ دق) کے باعث یونیورسٹی سے خارج کیا گیا تھا لیکن بقول پروفیسر سجاد شیخ، منٹو کو اس کے انقلابی اور نظام دشمن رویے کی وجہ سے نکالا گیا تھا، چنانچہ علی گڑھ چھوڑ کر واپس لاہور آگئے جہاں باری علیگ نے انہیں صحافت کی طرف لگا دیا۔ پہلے انہیں اخبار ’’پارس‘‘ میں ملازمت ملی،بعدازاں مساوات سے رابطہ ہوا۔ منٹو کی زندگی میں باری علیگ نے بڑا اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف خود منٹو نے بھی کیا ہے کہ ’’آج میں جو کچھ ہوں باری صاحب کے دم سے ہوں، اگر امرتسر میں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور متواتر تین مہینے میں نے ان کی صحبت میں نہ گزارے ہوتے تو یقیناً میں کسی اور راستے پر گامزن ہوتا۔
منٹو جو کبھی تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول پڑھا کرتےتھے، باری صاحب کی صحبت کی وجہ سے آسکر وائلڈ (Oscar) اور کٹو ہیوگو (Victor Hugo) کے زیر مطالعہ رہنے لگے اور زیادہ وقت ’’مساوات‘‘ کے دفتر میں گزرنے لگا اور مساوات کے فلمی صفحے کے انچارج بن گئے۔ مذکورہ مصنفین کے ساتھ ساتھ منٹو نے لارڈلٹن، میکسم گورکی، چیخوف، پوشکن، گوگول، دوستو وسکی، والٹیر، اور موپساں کو بھی پڑھ ڈالا، بلکہ ان میں سے بعض کی کتابوں کا ترجمہ بھی کرکے باری صاحب کے حوالے کردیا، بعدازاں منٹو نے ’’ہمایوں‘‘ کے مدیر حامد خان کے تعاون سے روسی ادب سمبر مرتب کیا اور اس کے بعد ’’روسی افسانے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کرکے شائع کی۔ 1936ء میں منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آتش پارے‘‘ کے نام سے شائع ہوا، اسی سال انہوں نے ’’عالمگیر‘‘ کا روسی ادب نمبر مرتب کیا۔
منٹو علی گڑھ سے لاہور منتقل ہوگئے تھے لیکن لاہور میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور بمبئی چلے گئے، جہاں انہوں نے ہفت روزہ ’’کاروان‘‘ کی ادارت سنبھال لی، اس کے ساتھ ہی دیگر سلسلے بھی جاری رہے۔ بمبئی میں منٹو کا قیام 1935-36ء سے 1948ء تک رہا، اس دوران تقریباً ڈیڑھ سال تک وہ انڈین ریڈیو سے وابستگی کے باعث دہلی میں رہے۔ بمبئی چونکہ اس زمانے میں فلم سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا، چنانچہ منٹو نے وہاں مختلف فلم ساز کمپنیوں میں کہانی اور مکالمے لکھنے کا کام بھی کیا، ان میں سروج، مووی نون، امپیریل کمپنی فلمستان اور بمبئی ٹاکیز کے نام اہم ہیں۔
بمبئی ہی میں منٹو کی اپریل1939ء میں صفیہ بیگم سے شادی ہوئی، جن سے تین بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرت پیدا ہوئیں، جبکہ ایک بیٹا عارف بچپن ہی میں وفات پا گیا۔ 1948ء میں منٹو پاکستان آگئے اور لاہور ہی کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں انہوں نے اپنے قریب ترین دوست ممتاز نقاد، دانشور و ادیب صحافی محمد حسن عسکری کے ساتھ مل کر ’’اردو ادب‘‘ نامی پرچہ جاری کیا مگر صرف دو شمارے نکل سکے۔ منٹو کے چھ افسانوں دھاں، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، اوپر نیچے، درمیان اور بو پر کورٹ میں حکومت کی جانب سے مقدمے دائر کیے گئے۔ احمد ندیم قاسمی کے ’’نقوش‘‘ سمیت کئی دیگر پرچے ضبط اور ان کی اشاعت کو معطل کیا گیا۔ منٹو نے1948ء تا وفات 18جنوری 1955ء اپنے قلم کی مزدوری کو جاری رکھا۔
سعادت حسن منٹو جدید اردو افسانے میں ایک بڑا اور معتبر نام ہے۔ منٹو نے نہ صرف یہ کہ اس صنف کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا بلکہ ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ جہاں پر اس کا مقابلہ عالم افسانوی ادب سے بڑے فخر اور اعتماد کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ صرف بیس اکیس سال کی مدت میں دو سو سے زائد انتہائی اعلیٰ اور معیاری افسانے تخلیق کرنے کے علاوہ بے شمار مضامین، خاکے اور ڈیڑھ سو سے زائد ڈرامے تحریر کیے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی