• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون مرزا ۔۔۔۔۔ راچڈیل
انسانی اسمگلنگ کا آغاز کئی دہائیاں قبل 50 کے عشرے میں بے ضرر اور قانونی طریقے سے ہوا تھا جب برطانیہ کو صنعتی مزدوروں کی ضرورت آن پڑی تھی، اس وقت برطانوی کمپنی کی جانب سے منگلا ڈیم کی تعمیر کے باعث بے دخل ہونے والے میرپور آزاد کشمیر کے رہائشیوں کو ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کے ویزے جاری کیے گئے جس کے نتیجے میں اتنی کثیر تعداد میں ہجرت ہوئی کہ اب میرپور کو چھوٹا انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ پھیلتا گیا اور آج برطانیہ، اٹلی ، سپین ، پرتگال سمیت یورپ کے کئی ممالک غیر قانونی مہاجرین کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں‘ غیر قانونی مہاجرین یورپ جانے کی خواہش میں انتہائی خطرناک زمینی اور سمندری راستوں کا انتخاب کرتے ہیں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی لٹا کر گھروں سے نکلنے والوں کی اکثریت یا تو سفر کے دوران حادثات کا شکار ہوجاتی ہے یا پھر جیلوں میں زندگی بسر کرتی ہے گزشتہ روز اٹلی میں ایک ایسا ہی حادثہ رونما ہوا جس میں وسیع پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے اٹلی کے ساحلی شہر کروٹون کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی الٹنے سے 12بچوں33خواتین سمیت 59 افراد کی ہلاکت نے جہاں پوری دنیا کو سوگوارکر دیا ہے وہیں یہ خبر پاکستانیوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑی کیونکہ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق پاکستان سے بیان کیا جاتا ہے مرنے والوں کی اکثریت گجرات، منڈی بہاؤالدین، سرائے عالمگیر اور کھاریاں سمیت گردونواح سے تعلق رکھتی ہے گجرات جسے اب ڈویژن کا درجہ حاصل ہو چکا ہے طویل عرصہ سے انسانی اسمگلنگ کی منڈی کے طو رپر پہچان رکھتا ہے، انسانی اسمگلروں کیخلاف سب سے زیادہ آپریشن اسی علاقے میں کیے گئے جس میں ایف آئی اے کو کامیابیاں بھی ملیں مگر آج بھی ایسے انسانی اسمگلروں کی کمی نہیں جو سادہ لوح عوام سے ان کی جمع پونجی لوٹ کر سنہرے خواب دیکھاکر کے انہیں موت کے سفر پر بھیج دیتے ہیں،اٹلی کا سمندر جہاں غیر قانونی تارکین وطن کیلئے مقبول ہے وہیں یہ انتہائی خطرناک سمندری راستوں میں شمار ہوتا ہے برطانیہ ‘ اٹلی ‘ یونان اور دیگر یورپی ممالک میں پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق افغانستان، کینیا، لیبیا، یمن، پاکستان اور بعض افریقی ممالک وغیرہ کے ساتھ ہوتا ہے ماضی میں بھی برطانیہ اور سکاٹ لینڈ کے درمیان سمندری سفر کے دوران ایسے خطرناک حادثات رونما ہو چکے ہیں جن میں کئی قیمتوں جانیں ضائع ہوئیں،اٹلی میں ہونے والے حالیہ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق گجرات ڈویژن سے ہے یورپ میں انسانی سمگلنگ کیلئے ترکی کا راستہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے تارکین وطن کبھی بذریعہ سڑک، پیدل یا کنٹینرز میں بند یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں یورپ میں بذریعہ سمندر داخل ہونے کے لیے اٹلی ایک اہم علاقہ ہے جہاں سے مہاجرین کی بڑی تعداد یورپ میں داخل ہونے کو ترجیح دیتی ہے، برطانیہ بھی گزشتہ دو سال سے غیر قانونی مہاجرین کی وجہ سے سخت دباؤ کا شکار ہے ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندری راستے سے برطانیہ پہنچتے ہیں تمام تر کوششوں کے باوجود ان مہاجرین کو روکنے کیلئے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ،وزیراعظم شہباز شریف سمیت اہم شخصیات نے اس حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر ڈوبنے والے بحری جہاز میں پاکستانیوں کی ممکنہ موجودگی سے متعلق رپورٹس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں،روم میں پاکستان کا سفارت خانہ اطالوی حکام سے حقائق جاننے کے عمل میں ہے چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے بھی حادثے کے نتیجے میں معصوم جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار اور مطالبہ کیا کہ اس طرح کے واقعات پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قائم کیے گئے پلیٹ فارمز کو رابطہ کاری، معلومات کے تبادلے موثر بنانے اور ان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہے جو معصوم جانوں کو غیر قانونی طریقے سے روشن مستقبل کے خواب دکھا کر ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں،ایران کے زمینی راستے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں لاتعداد پاکستانی نوجوان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جن میں اکثریت گجرات ڈویژن سے تعلق رکھتی ہے گجرات اور منڈی بہاؤالدین انسانی اسمگلنگ کے لحاظ سے ایک بڑی منڈی تصور کیا جاتا ہے، ایف آئی اے اپنی پوری کوششوں کے باوجود انسانی اسمگلنگ کا مکروہ دھندہ بند کرانے میں ناکام رہی ہے آنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں بالخصوص گجرات کے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے جو اپنی گائے ، بھینسیں، مکان ، زیورات اور جمع پونجی فروخت کر کے انسانی اسمگلروں کو منہ مانگے دام دے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان سے نکلنے کو عافیت جانتے ہیں پاکستان میں ہوشربا مہنگائی اور تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے ایسے نوجوانوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کیا ہے جو پاکستان چھوڑ کر یورپ میں زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہے ہیں حالات سے دلبرداشتہ ایسے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ،ایران کی حدود میں ایسے لاتعداد واقعات ریکارڈ پر ہیں جن میں یورپ جانے والے افراد کو یا تو جان سے ہاتھ دھونا پڑے یا پھر اغواکاروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد بلیک میل ہوئے نوجوان پر بدترین تشدد کی ویڈیوز بنا کر ان کے گھر والوں سے پیسے مانگے جاتے ہیں انسانی اسمگلنگ کا مکروہ دھند اس قدر تقویت اختیار کر چکاہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسائیہ ممالک میں بھی ان کے ایجنٹ حضرات ایسے نوجوانوں کی تلا ش میں رہتے ہیں وسطی پنجاب کے اضلاع خصوصا گجرات، منڈی بہاؤالدین، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال اور حافظ آباد میں غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کا رحجان گذشتہ تین عشروں کے دوران خطرناک حدتک بڑھ گیا ہے،ضرورت اس امر ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو فی الفور نوکریاں مہیا کر کے انہیں اپنے ملک میں اپنی عوام کی خدمت کرنے کی ترغیب دی جائے، بیروزگاری پر کنٹرول کر کے لوگوں کو معاشی دباؤ سے نکالا جائے اور سب سے بڑھ کر گجرات میں ڈیرے جمائے انسانی اسمگلروں کیخلاف گرینڈ آپریشن کر کے انہیں ان کے بلوں سے نکال کر زندان میں ڈالا جائے ، انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
یورپ سے سے مزید