• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں قبائلی تنازعات برسا برس سے چلے آرہے ہیں، جس میں سیکڑوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں، سب سے زیادہ متاثر لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن ہیں، جن کے تمام ہی اضلاع میں درجنوں قبائل کے درمیان خونی تنازعات چل رہے ہیں اور آئے روز مخلتف علاقوں میں ایک دو افراد کا قتل معمول بن چکا ہے۔ قبائلی تنازعات سے جہاں ایک جانب انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے، تو وہیں ان اضلاع میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

ان تنازعات کے باعث کچے کے کئی سو اسکول بند پڑے ہیں اور بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں بنیادی صحت مراکز غیر فعال ہیں، کیوں کہ جن علاقوں میں قبائل میں تنازعات جاری ہیں، وہاں اسپتال کا عملہ، ڈاکٹرز نہیں پہنچ پاتے اور لوگ علاج نہیں کراسکتے ہیں۔ یہ تنازعات سندھ میں روپوش اور اشتہاریوں کی تعداد اور جرائم میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ 

قبائلی تنازعات معمولی معمولی باتوں پر بھی خونی تصادم میں بدل جاتے ہیں۔ سندھ کے متعدد اضلاع اور سکھر لاڑکانہ ڈویژن کے تمام اضلاع کشمور سکھر شکارپور گھوٹکی، خیرپور، جیکب آباد، لاڑکانہ، قمبر، شہداد کوٹ سمیت تمام اضلاع میں مختلف قبائل کے درمیان تنازعات جاری ہیں۔ سکھر میں گزشتہ دنوں پرانے قبائلی تنازعے نے چار افراد کی جان لے لی۔ سکھر کے نواحی علاقے باگڑجی میں گھمرو اور مہر برادری کے درمیان تصادم میں گھمرو برادری کے تین افراد اور ایک راہ گیر سمیت چار لوگ مارے گئے۔ فائرنگ کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور قریبی گورنمنٹ ہائی اسکول میں 100 سے زائد بچے اسکول میں محصور ہو کر رہ گئے۔ اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک پولیس کی بھاری نفری کمانڈوز اور بکتر بند گاڑیوں کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے۔ 

پولیس نے کچے کے علاقے کا گھیراو کرلیا اور سب سے پہلے آپریشن کمانڈر ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے اسکول کے بچوں کو بکتر بند گاڑیوں میں بٹھا کر ان کے گھروں تک پہنچایا۔ پولیس کے فوری پہنچنے پر فائرنگ کا سلسلہ تھم گیا اور پولیس کی بروقت کارروائی نے علاقے کو مزید نقصان سے بچالیا۔ پولیس نے کچے کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث 4 ملزمان کو حراست میں لیا اور علاقے میں پولیس کی چوکیاں قائم کرکے گشت بڑھا دیا گیا اور حالات معمول پر آنے کے ساتھ معمولات زندگی بحال ہوگئی۔ اس خونی تصادم کا آغاز کیسے ہوا۔

اس حوالے سے ترجمان پولیس میر بلال لغاری کا بتایا ہے کہ قبائلی جھگڑے میں مھر اور گھمرو برادری کے 2018 اور 2020 میں تین افراد قتل ہوچکے ہیں، خونی تنازعے کی وجہ جہاں سے اس کا آغاز ہوا وہ یہ ہے کہ 2018 میں مھر برادری کے افراد نے اپنی زرعی زمین میں ہل چلانے کیلیے گھمرو برادری کے افراد کو بلوایا گھمرو برادری کے افراد نے زرعی زمین میں ہل چلایا اور جو رقم ملی، اس میں مھر برادری کے افراد نے چھ سو روپے بقایا رکھے، جب دوبارہ مہر برادری کے افراد نے دوبارہ زرعی زمین پر ہل چلانے کے لیے انہیں بلایا تو گھمرو برادری کے افراد نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ پہلے سابقہ بقایا چھ سو روپے ادا کرو پھر کام کریں گے اس دوران دونوں گروپوں میں تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہوئی، جس کے بعد 2018 میں سکھر بس ٹرمینل کے قریب دوبارہ جھگڑا ہوا، جس میں ایک گھمرو جاں بحق ہوگیا، 2020 میں گھمرو برادری کے افراد نے باگڑجی اسٹاپ کے قریب فائرنگ کرکے مھر برادری کے دو افراد کو قتل کردیا۔ 

اس طرح تنازعے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ دونوں گروہوں کے مختلف افراد پر مقدمات درج ہیں، باگڑجی میں یونے والے حالیہ تصادم کے واقعہ کا مقدمہ تصور حسین گھمرو کی مدعیت میں مہر برادری کے 17 افراد کے خلاف درج کرایا گیا ، جس میں 14 کے نام اور تین نامعلوم افراد شامل ہیں۔ تاہم واقعے کے بعد ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے واضح طور پر اعلان کیا کہ امن و امان میں خلل ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اور باگڑجی سمیت ضلع بھر میں قیام امن کو ہر صورت بحال رکھا جائے گا۔ 

اس دوران ایس ایس پی سکھر کی سربراہی میں باگڑجی کچے میں آپریشن کیا گیا اور 4 ملزمان کو حراست میں لیا گیا، لیکن یہ بات قابل غور اور باعث تشویش ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خونی تنازعات جنم لیتے ہیں، جس طرح سکھر میں پولیس کے مطابق 4 سے 5 سال قبل 600 سو روپے کے لین دین پر گھمرو اور مہر برادری کے درمیان ہاتھا پائی سے شروع ہونے والا جھگڑا خونی تصادم میں تبدیل ہوگیا اور 7 قیمتی انسانی جانوں کو نگل گیا۔ 

ان قبائلی تنازعات میں سندھ میں سیکڑوں افراد مارے گئے اور آج بھی سکھر لاڑکانہ ڈویژن سمیت دیگر علاقوں میں قبائلی خونی تنازعات جاری ہیں یہ قبائلی تنازعات سندھ میں امن و امان کے لیے آج بھی ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں، جس پر قابو پانے اور ان تنازعات کے مکمل حل کے لیے حکومت بھی غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور آج تک حکومتی سطح پر قبائلی تنازعات کو ختم کرانے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات دکھائی نہیں دیے، قبائلی تنازعات کے حوالے سے سندھ کے دو ڈویژن سکھر اور لاڑکانہ زیادہ متاثر ہیں۔ 

تاہم دونوں رینج میں ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ اور ڈی آئی جی سکھر جاوید سونھارو جسکانی کی بہتر کمانڈ اور اقدامات کے تحت بڑی حد تک ان پر کنٹرول کیا گیا، جو کہ دیرپا نہیں، بلکہ وقتی ہے۔ اس مسئلے کا دیرپا اور مستقل حل نکالنا انہتائی ضروری ہے، جس کے لیے وفاقی اور سندھ اگر سنجیدگی سے کوششیں کرے اور اراکین اسمبلی مختلف سرداروں کی خدمات حاصل کی جائیں، تو جن برادری میں تنازعات جاری ہیں، ان میں صلح کرا کر ایک مستقل اور دیرپا امن قائم کرنے کے ساتھ مستقبل میں سیکڑوں قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے اور جو اضلاع خاص طور پر کچے کے علاقے جو قبائلی تنازعات کے باعث متاثر ہیں، ان علاقوں میں تنازعات کو ختم کرانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ لوگوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ قبائلی تنازعات بھی ہیں، جب کبھی کسی قبائل میں تصادم ہوتا ہے تو اور جانی مالی نقصان کی صورت میں ایک دوسرے پر مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔ ان مقدمات میں نامزد ملزمان گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوجاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ ان روپوشوں کی اکثریت کچے میں کشمور سے گھوٹکی تک کے اضلاع میں چلی جاتی ہے، جہاں کچھ تو روپوش زرعی زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہیں ، جب کہ زیادہ تر روپوش ڈاکوؤں کے ساتھ ملکر جرائم کی دنیا میں آجاتے ہیں، یُوں کچے میں ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کچے کے متعدد ڈاکو جن میں بدنام زمانہ ڈاکو بھی شامل ہیں، وہ درست یا غلط لیکن ان کے اکثر انٹرویو جو سوشل میڈیا پر ہیں، اس میں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ قبائلی تنازعات کی وجہ سے کچے میں محدود ہیں۔ 

ان کے علاقے میں ان جھگڑوں کے باعث اسکول اسپتال بند اور غیر فعال ہیں، اگر کہیں اسکول کھلے بھی ہیں، تو یہ لوگ نقصان کے ڈر سے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے یہی وجہ ہے کہ کچے کے قبائلی تنازعات والے علاقوں میں یا تو اسکول بند ہیں اگر کہیں کھلے ہیں تو ان میں جن قبائل میں تنازعات ہیں ان کے بچے نہیں جاسکتے، یہ سندھ میں کئی دہائیوں سے سنگین مسئلہ ہے جو توجہ طلب ہے، کیوں کہ روپوش اور اشتہاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں جتنی پولیس فورس نہیں اس سے زیادہ روپوش اور اشتہاری ہیں اور متعدد کچے کے علاقوں میں جن بچوں کے ہاتھوں میں قلم اسکول بیگ ہونا چاہیئے وہ بچے بھی ان جھگڑوں کے باعث ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے گھومتے دکھائی دیتے ہیں صرف اگر سکھر لاڑکانہ ڈویژن کی بات کی جائے تو یہاں 8 اضلاع میں روپوش اور اشتہاریوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہوگی اور سندھ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق روپوش اور اشتہاری کی کل تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوگئی جو کہ ایک خطرناک اور باعث تشویش صورتِ حال ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید