ہوش ربا مہنگائی، بے روز گاری، دہشت گردی ،ٹارگٹ کِلنگ، قتل اور اسٹریٹ کرائمز کی نہ رُکنےوالی وارداتوں نےعروس البلاد کراچی کے عوام کو دہری اذیت میں مبتلا کر کے ان کاجینا محال کر دیا ہے۔ شہر میں جنگل کا قانون رائج ہے۔ شہریوں کو ڈاکوؤں، دہشت گردوں اورٹارگٹ کلرز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، عوام کی جان محفوظ ہےاور نہ مال۔ شہر میں آئے روز اسٹریٹ کرائمز، ٹارگٹ کِلنگ اور قتل عام کے واقعات عام ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا کوئی نہیں، جہاں قانون کے محافظ ہی دہشت گردوں کا نشانہ بننے لگیں، اندھے قانون،گونگے انصاف اور اپاہج اختیارات کی مالک حکومت میں تو شہر کے باسیوں کو مجبورا زندگی کی جنگ خود لڑنا پڑرہی ہے۔
گزشتہ دنوں گلستان جوہر بلاک 7میں نامعلوم ٹارگٹ کلرز گھرکی دہلیز پر ماہر تعلیم،دارارقم اسکولز کراچی ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور فیڈریشن آف پرائیویٹ اسکولز پاکستان کے وائس چیئرمین 55سالہ سید خالد رضا ولد سید وصی کوقتل کرکے باآسانی فرار ہو گئے، مقتول سیاسی جماعت سے وابستہ ہونے کے ساتھ طویل عرصے سے جدوجہد آزادی کشمیر میں عملی طور پر سر گرم تھے، تفتیشی ذرائع کےمطابق مقتول سے لوٹ مار نہیں ہوئی، ان کی جیب میں 70 ہزار روپے اور موبائل فون موجود تھا، قتل کی واردات میں30 بور کا نیا اسلحہ استعمال کیا گیا ہے، ملزمان تربیت یافتہ تھے، جنھوں نے ایک ہی گولی سر پر قریب سے ماری جو جان لیوا ثابت ہوئی اور یہ کام ماہرنشانے بازکا ہے۔
جائےوقوعہ سے ملنے والا 30 بور کا خول پہلے کسی واردت میں استعمال نہیں ہوا ہے،ذرائع کا کہنا ہےکہ ماہر تعلیم خالد رضا کا قتل ممکنہ طور پر دشمن ملک نے مقامی سہولت کاروں کی مدد سے کیا گیا ہے۔ دوسری جانب واقعہ کی ذمے داری ایک کالعدم قوم پرست تنظیم نے قبول کی ہے کہ انہوں نے خالد رضا کو ٹارگٹ کیا ہے، تفتیشی حکام کے مطابق واردت میں دشمن ملک را کےسہولت کاروں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
بہادر آباد تھانے کی حدود شہید ملت روڈ نجی سپر مارکیٹ کے قریب رواں سال کی سب سے بڑی ڈکیتی کی واردات میں مسلح موٹرسائیکل سوار ملزمان بلڈر سے 5 کروڑ 94 لاکھ روپے اور کار چھین کر فرار ہو گئے، 2 موٹر سائیکلوں پر سوار ملزمان نےڈی ایچ اے رہائشی راحیل عبدالغفارکی کا رکو اوور ٹیک کرکے روکا اور مبینہ طور پر رقم لُوٹ لی، ڈکیتی کی واردات کی سی سی ٹی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی، جس میں موٹرسائیکل سوار ملزمان کی جانب سے کار اوور ٹیک کر کے راستہ بند کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، ایک ملزم ڈرائیونگ سیٹ اور دوسرا پچھلے دروازے سے کار میں آتا ہے، دونوں ملزمان نے کار میں متاثرہ بلڈرسے کچھ بات کی اور کار سوار دونوں افراد کو باہر نکالا اور کار میں بیٹھے ہوئے ایک ملزم نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور بلڈر کی گاڑی اسٹارٹ کی اور فرارہو گئے ۔ واردات میں ملوث تمام ملزمان شلوار قمیص میں ملبوس تھے، ملزمان نے بہادرآباد سے چھینی گئی بلڈرکی کار گلستان جوہر میں چھوڑ دی، پولیس کا کہنا ہے کہ بلڈر اپنے دفتر سے گاڑی میں رقم لے کر نکلا تھا،اس حوالےسےمزید تفتیش جاری ہے۔
منگھوپیر تھانے کی حدود حاجی ملک گوٹھ میں 4 مسلح ڈکیتوں کی گھر میں واردات کی، ملزمان نے شہری ندیم انصاری کے گھر میں اسلحہ کے زور پر اہلِ خانہ کو باندھ کر واردات کی، مسلح ڈکیتوں نے گھر میں موجود افراد کو زدوکوب بھی کیا اور ڈیڑھ لاکھ روپے نقد ، طلاعی زیورات اور موبائل فون لوٹ کر فرار ہو گئے، ملزمان 2 گھنٹے تک گھر میں موجود رہے، اس دوران خواتین کے کانوں سے بالیاں بھی اتار لیں، متاثرہ شہری کے مطابق ملزمان اپنا پستول گھر کے اندر چھوڑ کر چلے گئے۔
بن قاسم تھا نےکی حدود نیشنل ہائی وے اسٹیل ٹاؤن کے قریب نالے سے کمسن 7 سالہ بچی فرح د ختراعظم کی ہاتھ پاوں بندھی تشدد زدہ لاش بر آمد ہوئی، کمسن بچی کو 3 روز قبل ظالم درندوں نے گھر کے قریب کھیلتے ہوئے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا ،بچی کی لاش کی اطلاع پر ورثا اور علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد نے مین نیشنل ہائی وے پر پولیس کےخلاف احتجاجی دھرنا دے کردونوں اطراف کی سڑکیں بند کردیں ،جس کے باعث بد ترین ٹریفک جام ہوگیا اور ٹھٹھہ سے کر اچی آنے اور جانے والا ٹریفک معطل ہوگیا، اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔
اس حوالے سے ورثا کا کہنا ہے کہ پولیس نےبچی کے اغوا کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا، دھرنا جاری رہے گا، اطلاع ملنے پر ایس ایس پی ملیر ایس ایس پی ملیر حسن سردار مظاہرین سے مذاکرات کے لیے اسٹیل ٹاؤن موڑ پہنچے اور ورثا سے مذاکرات میں معصوم بچی فرح کے قاتلوں کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کرنے کی یقین دھانی کرائی ،ایس ایس پی ملیر کی یقین دھانی کے بعد احتجاج ختم ہو گیا، پولیس نے شک کی بنیاد پر2افراد کوحراست میں لے لیا ہے ،علاقہ مکینوں کے مطابق مقتولہ بچی کے والدین غریب اور والد ڈرائیور ہے۔
مستقبل کےمعماروں کےہاتھ میں قلم کی بجائےاسلحہ سن کریقین تونہیں آتا، لیکن اس میں حقیقت ہے۔ اورنگی ٹاؤن میں واقع اسکول میں طالب علم فضل اللہ نےفائرنگ کر کے ساتھی طالبہ کو زخمی کر دیا اور فرار ہو گیا، اسکول انتظامیہ نے پو لیس کو بیان دیا کہ فائرنگ اسکول کے کلاس روم میں ہوئی ہےاور طالب علم فضل اللہ اسلحہ اپنے ساتھ لایا تھا اور فائرنگ کے بعد فرار ہوگیا، گھر والوں نے بھی موبائل فون بند کردیا ہے، اسکول انتظامیہ کہنا ہے کہ بوائز شفٹ 4 بجے اور گرلز کی شفٹ ساڑھے 4 بجے ختم ہوئی تھی، لڑکا شفٹ ختم ہونے کے بعد بھی اسکول کے اندر ہی موجود رہا، اور لڑکی جب کلاس سے نکلنے لگی تو اس پرفائرنگ کردی، زخمی طالبہ نجی اسپتال منتقل کردیا گیا، اس کی حالت خطرے سے باہر ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ گولی حادثاتی طور پر چلی یا لڑکی کو زخمی کیا گیا ہے، اس کی تفتیش جاری ہے۔
دوسری جانب زخمی طالبہ نے پولیس کو بیان دے دیا ہے کہ فائرنگ کلاس روم میں ہوئی، ساتھی طالب علم فضل اللہ اسکول بیگ میں اسلحہ لایا تھا اور کلاس کے دیگر دوستوں کو بھی اسلحہ دکھایا تھا، اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے زخمی طالبہ کے والد کا بیان لے کر طالب علم فضل اللہ کے خلاف اقدام قتل کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا ۔ یاد رہے کہ چند ماہ بھی قبل گلشن اقبال میں واقع کوچنگ سینٹر میں فائرنگ سے طالب علم جاں بحق ہوگیا تھا، اور پولیس فائرنگ کے ملزم کو تاحال گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کےصرف ڈیڑ ھ ماہ کے دوران شہر میں اسٹریٹ کرائمزسمیت جرائم کی 8000 وارداتیں ہوئیں ہیں۔ شہرمیں یومیہ بنیادوں پر مسلسل جرائم کی وارداتوں میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے کہ بلکہ پو لیس کی ناقص سیکیورٹی کی باعث کراچی پو لیس آفس میں رونما ہو نے والےحالیہ دہشت گردوں کےحملے کے باوجود بھی 3کروڑ سے زائد آبادی والے روشنیوں کا شہر کہلوانے والا کراچی ، سیف سٹی پروجیکٹ سے تاحال محروم ہے اور یہ صرف فائلوں تک محدود ہے، جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر محض 5 ہزار سی سی ٹی وی کمیرے موجود ہیں، جن میں سےکئی سرکاری کمیرے نا کارہ ہیں، جب کہ متعدد کمیروں کی فوٹیجز نا قابل استعمال ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج ملزمان تک پہنچنے میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہیں، شہریوں نے اپنی حفاظت کےلیےاز خود کیمرے لگا رکھے ہیں اور کراچی پولیس کا زیادہ تر وارداتوں کی تفتیش کے لیےان نجی کیمروں پر ہی انحصارہو تا ہے،جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظرسیف سٹی پروجیکٹ کوہنگامی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچنا ناگزیرہوچکاہے۔ دوسری جانب پولیس کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہرمیں نجی پرا ئیوٹ کمپنیوں میں کم معاوضوں پر بھرتی ہونے والے بیرون شہر سے آنے غیرتربیت یافتہ سیکیورٹی گارڈز بھی اسٹریٹ کرائمز اور قتل کی وارداتوں میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
نیو ٹاؤن پولیس کے ہاتھوں اسلحے سمیت گرفتار ہونے والا ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کا گارڈ محمد دین ولد ولی ملزم قتل ،ناجائز اسلحہ، منشیات فروشی اور ڈکیتیوں سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث نکلا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے منگھو پیر کے علاقے میں 13 جون 2022 کو پیٹرول پمپ پر ساتھیوں سمیت ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پرمحمد حسین نامی شخص کو قتل کردیا تھا، جس کا مقدمہ مسلم خان کی مدعیت میں منگھوپیر تھانے میں درج ہے۔
پولیس کا کہنا کہ ملزم محمد دین قتل ،ڈکیتیوں، منشیات فروشی اور ناجائز اسلحے کے مقدمات میں مفرور تھا۔ ملزم کے دیگر ساتھی ایک سہولت کار اور ایک ساتھی ساحل عرف سعود پہلے ہی گرفتار ہوکر جیل جاچکے ہیں، ملزم مومن آباد تھانے سے منشیات کے مقدمے میں، جب کہ منگھو پیر تھانے سے ناجائز اسلحہ اور قتل کی واردات میں مفرور تھا۔ نیو ٹاؤن پولیس نےملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس نجی سیکیورٹی کمپنی کے عہدیداروں سےتفتیش کر رہی ہےکہ کمپنی نے ملزم کو بغیر پولیس تصدیق اسلحہ دےکر ملازمت پر کیسے رکھ لیا۔