• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واجدہ تبسم

جب میز کے آزو بازو چارکرسیاں جمائی جا چکیں ، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے۔

"جناب راشد، مسٹر ٹلو اور آپ محترمی پپّو!۔۔ آئیے اب یہاں تشریف رکھئے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجئے۔"

چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاق رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا،چنانچہ جناب صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔

"جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیاجائے،جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں ، ہمارا یہ گھر مچھلی بازارلگتا ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلادیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھناکس قدر مشکل کام ہے۔ تو جناب سامعین!۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لئے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیاجائے کہ بس۔

ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پر امن فضا قائم ہوجائے کہ پرندہ پر نہ مارے۔۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے ، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں ، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ پپو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پررکھی مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے ، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لئے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں، تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔"

پپو نے ہڑ بڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جارہے تھے۔ معزز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

"اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے ، کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں ، نئی کاپیاں اور کتابیں غائب ہوجائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔(تالیاں)

"اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچوں کے سر منڈوا دئیے ہوں، تو ان بچوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔"

ٹلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

" اور ہمیں یہ بھی چاہئے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالم گلوج نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ واقعی صحیح معنوں میں"امن پسند مکانی" بن کر دکھادیں۔ جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے ، اس کی ایسی خیر لی جائے کہ حضرت کی نانی مرجائے۔۔۔۔" صاحب صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے،’’جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔"

راشد بھی خفا ہوکر بولے۔"اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقید حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔"

پپو موقع پاکر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔" چراغ تلے ہی اندھیر اہوتا ہے۔"

"مگر جناب،صاحب صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔"یہ تو محض ایک تریب ہے، اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چندنے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔"

پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقینا ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہوچکا ہوگا۔راشد تاؤ کھاکر بولے۔" جناب صدر آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مرجائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں ، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔" ہائے مٹھائی" اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔۔۔"

راشد نے بات میںوزن پیدا کرنے کے لئے میز پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی ، مگر پپوکو مٹھائی۔۔۔۔؟؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی۔۔۔۔؟ پپو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھاکر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر میز پر پٹخ کر بولے۔

"دنیا کی نانیان مرگئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا" اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گلا منہ میں ڈال لیا۔

ٹلو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جناب صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔"کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک جملہ محض تھا"

ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھاکر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

راشد نے جب یہ گڑ بڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔" صاحب صدر! ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے ، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں۔۔؟"

" میں نے دس کھائے؟"رازی نے حیران ہوکر پوچھا۔

"اور کیا ایک کھایا۔۔۔؟"

"تمہیں کس نے منع کیا تھا؟"

"یہ بات۔۔۔۔؟"

پہلے اسکیل اٹھی، پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحب کرسی بھی چاروں خانے چت۔۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ برا بھلا ، مار دھاڑ ، دھول دھپا بھی جاری تھا۔ چیخ و پکار سن کر برابرکے کمرے سے ابا دوڑتے ہوئے آئے۔۔۔۔ہائیں ہائیں کرکے سب کو ایک دوسرےسے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے،" یہ کیا سلسلہ تھا بھئی۔۔۔کاہے کی گڑ بڑ تھی۔۔۔یہ؟؟

رازی سر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے،"جی وہ ہم ذرا امن کانفرنس کررہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے۔"