• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی شاہ راہ پر کراچی سے پنجاب جانے والی ایک کارجیسے ہی شاہ پور جہانیاں شہر میں پہنچی، تو رش میں پھنس گئی اور جلد نکلنے کی کوشش کے دوران اس کار سواروں نے سامنے جانے والی دوسری کار کو ٹکر مار دی ۔ اس دوران پولیس پارٹی جو معمول کی چیکنگ کے لیے وہاں موجود تھی، کار کو رکنے کا اشارہ کیا، لیکن اس میں سوار پانچ افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کر دی، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے بازار میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا شروع ہوئے۔ اسی دوران پولیس پارٹی نے بھی جوابی فائرنگ کی تو کار میں سوار تین افراد اتر کر اندھیرے میں ایک ہی سمت میں دوڑنا شروع ہوئے اور آگے جا کر انھوں نے ایک موٹرسائیکل چھینی اور کچے کے علاقے کی طرف فرار ہوگئے۔ 

پولیس پیدل ان کا پیچھا کر رہی تھی، اس لیے وہ ان تک نہیں پہنچی۔ تاہم کار میں سوار ایک ملزم پولیس کی ٹانگ میں گولی لگنے سے زخمی ہوا، جب کہ دوسرے کو وہاں موجود افراد نے پولیس کی مدد سے پکڑ لیا اور جب کار کی تلاشی لی گئی تو اس میں نقد رقم اور اس کے علاوہ سونا جانچنے کا ألہ کاروں کی آٹھ نمبر پلیٹ برآمد کرکے انہیں قبضے میں لے لیا۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ ملزمان کا تعلق راول پنڈی اور ساہیوال سے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے کراچی ایسٹ کے علاقے میں ایک بنگلے میں ڈکیتی کی اور وہاں سے ایک کلو سونا اور 76 لاکھ روپے نقد اسلحہ مسروقہ کار اور سونا ناپنے کا ڈیجیٹل الہ کے علاوہ دیگر سامان لوٹ لیا اور فرارہو گئے۔

ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ گرفتار ڈاکو آٹھ سال کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹنے کے بعد حال ہی میں رہا ہوئے تھے ۔ ڈاکوؤں کا گرفتار گروہ کراچی کے بنگلوں میں واردات کرتا تھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ کراچی میں موجود ان کے سہولت کار مخبری کر کے انہیں شکار تک پہنچاتے تھے۔ ڈاکوؤں کا یہ بین الصوبائی گروہ کراچی میں بے شمار وارداتوں کا مرتکب تھا، جس وقت یہ ڈاکو فرار ہو رہے تھے۔ اے سی کا کہنا تھا کہ پولیس اہل کاروں نے جب ڈاکو کی کار کی تلاشی لی تو اس میں لاکھوں روپے کی رقم برآمد ہوئی اور ایس ایچ او اور پولیس اہل کاروں وہ رقم انتہائی دیانت داری کے ساتھ ایس پی آفس پہنچائی۔

منشیات فروشی ایسا کاروبار ہے، جس میں ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں روپے کمائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کاروبار سے منسلک اسمگلر مافیا کا نیٹ ورک منظم طریقے سے پھیلا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ منشیات کے اسمگلروں کی گردن ناپنے کے لیے جو بھی ادارے قائم کیے گئے ہیں، ان میں محکمہ پولیس ایکسائز اور دیگر ایجنسیاں جن کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے، اسے کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نہ سہی، لیکن بے بس ضرور دکھائی دیتی ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آنے والی منشیات باآسانی ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ کراچی میں پہنچا دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ وزیرستان درہ آدم خیل اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے آنے والی منشیات کراچی کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں باآسانی پہنچا دی جاتی ہیں اور اس سلسلے میں صورت حال یہ ہے کہ یہ منشیات فروش اتنے بااثر ہے کہ پولیس پر اثرانداز ہوکر اپنی گاڑیوں میں جن پر کروڑوں روپے کی منشیات، جس میں ہیروئن چرس آفیون گٹکا مین پوری ماوہ لدی ہوتی ہے، پولیس سے چھڑا کر لے جانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں گو کہ محکمہ پولیس اور محکمہ ایکسائز اس بات کا کریڈٹ لے رہا ہوتا ہے کہ منشیات کی بڑی مقدار پکڑی گئی ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ سندھ میں جہاں عام مقامات پر یہ منشیات فروخت ہورہی ہے، بلکہ مادر علمی کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ بھی اس برائی سے محفوظ نہیں ہیں۔ایک سروے کے مطابق مختلف یونی ورسٹیوں میں اب تو طالب علموں کے ساتھ ساتھ طالبات کی بڑی تعداد بھی منشیات کی عادی بتائی جاتی ہیں۔ ڈی أئی جی شھید بینظیر آباد رینج محمد یونس چانڈیو کے احکامات کی روشنی میں ڈسٹرکٹ پولیس سانگھڑ کی ایک کام یاب کارروائی میں 250 کلو گرام منشیات برآمد کرلی گئی۔ 

پولیس کے مطابق خفیہ اطلاع پر سانگھڑ پولیس نے ٹارگٹڈ آپریشن کرتے ہوئے تین نارکوٹکس اسمگلروں سے 250 کلو چرس برآمد کر لی، جو کہ قلعہ عبداللہ، بلوچستان سے سنجھورو،ضلع سانگھڑ بلیک وِیگو گاڑی میں منشیات اسمگل کر رہے تھے۔ اسمگلر فوج کی وردی سے مُشابہ وردی کا استعمال کر رہے تھے اور فورسز کو چکمہ دینے کے لیے بلیو پولیس لائٹ گاڑی پر لگائی ہوئی تھی۔

اسمگلروں نے ویگو پر جی وی ٹی رجسٹریشن نمبر پلیٹ بھی لگائی تھی، گرفتارملزمان میں عبدالخالق کاکڑ۔ کاشف وزیر (فرم وزیرستان)زیتون وزیر ساکن وزیرستان شامل تھے، جب کہ پولیس کے مطابق ان کے قبضے سے 250 کلو چرس ویگو ڈبل کیبن 01پستول 01 گاڑی کی چار نمبر پلیٹ اے ٹی ایم کارڈز 6 اسلحہ لائسنس کینٹ کے علاقوں کا گیٹ پاس، فورسز کی وردی،برآمد کر کے ملزمان سے مزید تفتیش کی جارہی ہے۔ 

گرفتار ملزمان سےمزید تفتیش جاری ہے۔ ڈی آئی جی محمد یونس چانڈیو نے 28 پولیس اہل کاروں کو جنوری ضلع شہید بینظیر آباد کے علاوہ نوشہرو فیروز کے پولیس اہل کار بھی شامل ہیں، ان کو منشیات گٹکا مین پوری اور نشہ آور ماوہ کے علاوہ دیگر منشیات کی رو اور سہولت کاری کے الزام میں معطل کرکے ضلع بدر کرکے ان کا تبادلہ سانگھڑ کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں ڈی آئی جی آفس سے جاری لیٹر میں کہا گیا ہے کہ مزکورہ پولیس افسران جن میں اے ایس آئی ،ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل کی سطح کے افسران شامل ہیں۔ ضلع شہید بینظیرآباد اور نوشہرو فیروز میں منشیات کی فروخت کی سہولت کاری میں ملوث پائے گئے تھے۔ 

ڈی آئی جی محمد یونس چانڈیو نے اپنی تعیناتی کے بعد بے نظیر آباد ڈویژن سے منشیات کی لعنت کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باڑ کھیت کو کھا رہی ہے اور پولیس اہل کار خود منشیات کی اسمگلنگ کے اس کام میں ملوث پائے گئے ہیں، جس کا ثبوت ان پولیس اہلکاروں کو جو کہ منشیات کی فروخت کی سہولت کاری میں خاصا نام رکھتے ہیں۔ ضلع بدر کیا گیا ہے ۔ تاہم عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی کافی نہیں ہے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں موجود ان کالی بھیڑوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ملازمت سے فارغ کر کے جیل حوالے کیا جائے تاکہ محکمہ پولیس ان عناصر سے پاک ہو سکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید