روز آشنائی… تنویر زمان خان: لندن
سعودیہ، ایران سفارتی تعلقات پر باہمی بندش کاجمود ٹوٹ گیا جس میں چین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ تعلقات کی بحالی پر دستخط ہو چکے ہیں، دستخط کرنے والوں میں سعودی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، ایران کے نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری اور چین کے سینئر ڈپلومیٹ شامل ہیں، ان دو نظریاتی اختلافات رکھنے والی ریاستوں میں چین نے اپنا کردار ادا کرکے ثابت کیا ہے کہ اب وہ اپنے ریجنل مفادات کے حوالے سے سپرپاور کی طرح کا کردار ادا کر سکتا ہے وگرنہ چین کو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے علاوہ دو اسلامی ممالک کو اکھٹا بٹھانے میں کیا مفاد ہو سکتا ہے، دونوں ممالک بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک ہیں چین کو تیل کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کسی بھی ترقی یافتہ معیشت کے لئے انرجی سب سے اہم چیز ہے، آج چین کے ریزرو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اقتصادی طور پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، دفاعی بجٹ کے حوالے سے بھی چین دنیا میں دوسرے نمبرپر ہے یعنی اپنے سالانہ دفاعی بجٹ پر 225 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جو کہ امریکہ کے 850 ارب ڈالر کے بعد آتا ہے، اس ایران، سعودیہ معاہدے پر پہنچنے کیلئے جن بنیادی ایشوز پر بات ہوئی اس میں یمن نمبر ون ایشو تھا جس پر سعودی وزیر خارجہ نے جنگ کے خاتمے کی امیدظاہر کی ہے۔ دوسری طرف ایران پر بھی زور ڈالاگیا کہ وہ حوثیوں کی مدد ختم کرے، اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ اومان اسرائیل کے لئے اپنا ہوائی راستہ کھول دے گا اور دونوں ممالک اس پر متفق رہیں گے، سعودی عرب پہلے ہی اسرائیل کو اپنے ہوائی راستے دینے پر تیار ہو چکا ہے، اس کے علاوہ لبنان اور شام میں بھی دونوں ممالک متحارب پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کریں گے جس کا مڈل ایسٹ کی سیاست پر اچھا اثرمرتب ہونے کی امید ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو دوماہ کاوقت دیا ہے جس میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات اس بات کی تصدیق کریں گے کہ وہ آئندہ چلنے کیلئے مزید کتنی قربت رکھ سکتے ہیں، ایران، امریکہ اوریورپ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کے بعد دنیا میں خاصا تنہائی کاشکارہے، ادھر سعودی عرب میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، سعودی عرب بھی اپنی ان تبدیلیوں کے ذریعے دنیا میں اپنے کٹرپن کے امیج سے باہر آنا چاہتا ہے، شہزادہ محمد سلمان مختلف جگہوں پر تشددپسندوں کو فروغ دینے اور فوجیت کوسپورٹ کرنے کی بجائے ڈپلومیسی کو فروغ دیناچاہتا ہیں، اس لئے MBSنے ترکی اورشام کے ساتھ دوستانہ گوشہ کھولا ہے۔ سعودی عرب خطے میں 46 ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ ایک بڑی طاقت ہے جس کا بجٹ برطانیہ کے دفاعی بجٹ کے برابرہے لیکن اب سعودی عرب نے یمن میںجنگ بندی کی سپورٹ کی ہے۔ چین کی دونوں اطراف کی جانب سے ثالثی کو قبول کرنے کے عمل نے مغربی دنیا اور امریکہ کو حیران بھی کیا ہے، ایران کے اندربھی انتہاپسند مذہبی حکومت کے عمل نے ایران کا امیج دنیا بھر میں انتہا پسند ملک کے طور پر پختہ کر رکھا ہے اور ایران کے اندرونی عدم استحکام یعنی آئے دن مظاہرے اور بڑے پیمانے پر مظاہرین کو لمبی سزائیں اور پھانسیاں دینے کے عمل نے ایران کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دے رکھا ہے۔ ایران کو عورتوں کے حجاب اور میک اپ کے کنٹرول کی حکمت عملی نے خاصا پسماندہ سوچ رکھنے والا ملک قرار دیا ہے، پاکستان کو بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے اور ایران کے ساتھ تیل خریداری کے نئے معاہدوں میں داخل ہو سکتا ہے اور ہمسائے ملک سے کم قیمت پر تیل لے کر اپنی معیشت پربہتراثرات مرتب کر سکتا ہے۔ ادھر یمن میں جہاں 2015 سے مسلسل سول وار کی کیفیت جاری ہے اس میں کمی یا خاتمے کی امید بندھ گئی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والاکوئی ملک ہوگا تو وہ چین ہے جو فقط دونوں ممالک میں ہی نہیں بلکہ ان کے تنازعات سے متاثرہونے والے دیگرہمسایہ ممالک مثلاً یمن، شام، لبنان کے ساتھ بھی بہتر تجارتی تعلقات بنا سکے گا اور اپنی منڈی میں پھیلاؤ کرے گا اورخطےمیں پرانے رائج امریکی اثرات میں کمی واقع ہوگی۔ چین پورے خطے میں مشترکہ راہداریوں کابڑاجال پھیلانا چاہتا ہے تاکہ چین کواپنے اردگرد کے تمام ممالک میں فری رسائی میسرآجائے ۔