عاصمہ ثاقب
ایک تھی مانو بلی‘ جو کسی کی چہیتی یا لاڈلی نہ تھی۔ اس نے شہر کے ایک کباڑ خانے میں آنکھ کھولی اور پھر اپنی ماں اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف جگہوں کی تبدیلی کے بعد ایک قصاب کی دکان کےپاس رہنے لگی۔
وہ ذر ا بڑی ہوئی تو ایک دن اس کی بہن رانو بلی کو ایک بہت پیار ی سی بچی ایک بڑی سی گاڑی میں بٹھا کر لے گئی اور اس کا بھائی خونخوار کتے کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
وہ ذرا بڑی ہوئی تو اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ مانو بلی کئی بار اپنی ماں کے پاس گئی کہ شاید اسے پہچان لے لیکن وہ اسے ہمیشہ اجنبی بن کر ملتی اور مار پیٹ کر بھگا دیتی۔
مانو بلی نے بھی آہستہ آہستہ اپنی ماں کوبھلا دیا اور یوں ہی گلیوں میں آوارہ پھرنے لگی۔ ایک دن اچانک اس نے اپنی بہن رانو بلی کو دیکھا جو ایک بہت بڑےسے لان میں گھاس پر بیٹھی دودھ پی رہی تھی۔ مانو بلی فوراً آگے بڑھی اور اسے پکارا لیکن اس نے بھی بہن کو پہچاننے سے انکار کردیا اور اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔
مانو بلی کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ باہر نکلی تو ایک شریر بچے نے نشانہ لے کر ایک پتھر اسے دےمارا۔ پتھر اس کی ٹانگ پر لگا اور وہ لنگڑا کر گرپڑی۔ بچے کے ساتھی اس کے اس سنہری کارنامے پر قہقہے لگانے لگے۔
مانو بلی بڑی مشکل سے اٹھی اور اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی کہ کہیں باقی بچے بھی پتھر لے کر اس پر اپنا نشانہ نہ آزمانے لگیں۔ اسے انسانوں پر غصہ آنے لگا کہ وہ کس دیدہ دلیری سے ہم جیسے معصوم جانوروں پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔
وہ اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئی تو وہاں ایک مہربان بچے سے اس کا واسطہ پڑا۔ بچے کو اس کی حالت پر بہت ترس آیا۔ کچھ دیر بعد وہ اس کےلئے ایک پیالے میں دودھ لے آیا۔ مانو پہلے تو جھجکی اسے بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔ اس نے بچے کی طرف دیکھا جو دور جاکھڑا ہوا تھا۔
مانو بلی نے تھوڑا سا دودھ پیا تو اس کی بھوک اور زیادہ جاگ اٹھی۔ اس نے جلد ہی سارا دودھ پی لیا اور لیٹ گئی۔ بچہ اسے پچکارتا ہوا آگے بڑھا اور بڑے مہربان ہاتھوں سے اس کی زخمی ٹانگ ٹٹولی۔ پھر وہ اندر چلا گیا تو مانو بلی نے بھاگنےکا سوچا مگر اپنے اس نئے مہربان دوست کو چھوڑنے کو اس کا جی نہ چاہا۔آخر بچہ آیا تو اس کے ہاتھ میں مرہم پٹی تھی۔ مرہم پٹی ہونے کے بعد مانو بلی کوکچھ سکون ہوا تو وہ سوگئی۔
اگلے دن بچہ اسے اپنے گھر کے اندر لے گیا۔ اس کے والدین بھی مانو بلی کو مہربان اور اچھے معلوم ہوئے، چنانچہ جلد ہی وہ اس گھر میں گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگی۔ بچہ اسے لے کر باہر جاتا‘ اس کےلئے اس کی پسندیدہ غذائیں لاتا‘ اسے صاف ستھرا رکھتا۔ مانو بلی کا دل وہاں لگ گیا۔ ان سب کی مہربانیوں کا صلہ اس نے یہ دیا کہ اس گھر میں سے تمام چوہوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی اس نے ختم کرڈالے۔ جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی چوہوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوتا۔ مانو بلی جھٹ انہیں پکڑتی اور کھاجاتی۔ اچھا کھانا‘ آرام اور سب کی توجہ ملنے لگی تو مانو بلی آہستہ آہستہ کام چور ہونے لگی۔ کھاپی کر وہ سارا دن اور رات سوتی رہتی۔ اکثر چوری چھپے دودھ بھی پی لیتی۔ کبھی دوسری چیزیں بھی چپکے سے ہڑپ کرجاتی۔ زیادہ کھانے کی وجہ سے مانو بلی بہت موٹی ہوگئی۔ چلنا پھر اس کے لئے دوبھر ہوگیا۔ ایک روز چوہوں نے باورچی خانے میں ہلا بولا تو مانو بلی ان کے پیچھے دوڑی‘ مگر جلد ہی تھک گئی۔
چوہے بھی مانو بلی کی کمزوری جان گئے تھے وہ ہر روز ادھر اُدھر پھرتےاور مانو بلی انہیں پکڑ نہ پاتی‘ کیونکہ وہ بہت موٹی ہوگئی تھی۔ دوڑنے سے اس کا سانس پھول جاتا اور وہ تھک جاتی۔ ایک دن اس نے گھر والوں کو کہتے سنا کہ مانو بلی کو واپس چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ کسی کام کی نہیں رہی۔ اتنا سن کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ اسے اپن گلیوں میں پھرنا ،شرارتی بچے کا پتھر مارنا اور غریبی کے دن یاد آگئے۔
اسے انسانوں کی خود غرضی پر غصہ آیا لیکن قصور اس کا اپنا بھی تھا۔ چنانچہ اگلے دن سے اس نے زیادہ کھانا پینا چھوڑ دیا اور باقاعدگی سے روزانہ بھاگنا‘ ورزش کرنا شروع کردی۔ سستی کاہلی چھوڑ کر کام کو اپنالیا اور پھر جلد ہی وہ دوبارہ چوہوں کے لئے خطرے کا نشان اور گھر والوں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ پیارے بچو! آپ بھی سستی چھوڑیں‘ پانچ وقت نماز پڑھیں، دل لگا کراسکول میں پڑھیں‘ اچھے گریڈ میں پاس ہوکر اپنے ماں باپ کی آنکھ کا تارا بن جائیں۔