وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز پارلیمان کے ایوان بالا کی گولڈن جوبلی تقریبات سے خطاب میں بڑی دل سوزی کے ساتھ ملک کی موجودہ صورت حال پر نہایت فکر انگیز گفتگو کی ہے۔ قومی تاریخ کے حوالوں کے ساتھ اپنے خطاب میں انہوں نے واضح کیا کہ ماضی میں بارہا ملک کو سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ایسے ہر موقع پر سیاسی قیادت اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر مل بیٹھتی رہی اور یوں مشکلات سے نکلنے کی راہ ہموار ہوتی رہی ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ معاشی ایجنڈا، معاشی اصلاحات اور کفایت شعاری سمیت دیگر اہم ترین اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کے فیصلے کرنے اور ان پر عمل در آمد کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ہماری معیشت کو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا، بدقسمتی سے گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کیے، معاہدہ کیا لیکن پھران شرائط کا پاس نہیں کیا، اس رویے نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں میں پاکستان کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ وزیراعظم کے بقول گو کہ ہم اس وقت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنے مشن سے مخلص ہوں تو ان حالات سے بھی نکلیں گے۔ تعطل کے شکار آئی ایم ایف پیکیج کے جلد منظور ہونے کی توقع کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ معاشی بحالی کا یہ کوئی مستقل حل نہیں، اس کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہے جس میں وزیر اعظم کے موقف کے مطابق ملک کی موجودہ اپوزیشن قیادت کا تکبر اور انا حائل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ، قانون، آئی ایم ایف معاہدے سمیت ہر چیز روندی گئی، ہماری حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہا گیا کہ اس کے پیچھے امریکہ ہے، اسے ایک بیانیہ بنایا گیا مگر پھر یوٹرن کے بادشاہ نے اس سے بھی یوٹرن لیا کہ اس کے پیچھے امریکہ نہیں تھا۔سینیٹ کے تاریخی اجلاس سے اپنے خطاب میں سیاست سمیت زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کیلئے غلطیوںسے سبق سیکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم کوئی فرشتے نہیں، ہم سے بھی خطائیں ہوتی ہیں لیکن ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جو شخص اپنی غلطی کو تسلیم کر لے وہ بڑا انسان ہوتا ہے۔ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی خاطر سیاسی قیادت کے مل بیٹھنے کی ضرورت واضح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے 1965 اور 1971 کی جنگوں، شملہ معاہدے، 2014 میں دہشت گردی کے مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ ان مواقع پر سیاسی قیادت نے متحد ہوکر چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ تاہم فروری2019 میں بھارت کے فضائی حملے کے بعد ہونے والے کل جماعتی اجلاس میں اس وقت کے سربراہ حکومت کی حیثیت عمران خان کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ ان بحرانی حالات میں بھی نہیں بیٹھے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ قوم کا لیڈر انا پرست نہیں ہوتا، اس میں تکبر نہیں ہوتا بلکہ وہ محبتیں بانٹتا ہے، سب کے ساتھ مل کر مسائل کا حل نکالتا ہے، محبت، یگانگت، یکسوئی اور پاکستانیت کا پیغام دیتا ہے۔ بلاشبہ قومی بقا و سلامتی کی خاطر آج پوری سیاسی قیادت کا اختلافات کو پس پشت ڈال کر چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے پوری نیک نیتی کے ساتھ مل بیٹھنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عدالتی معاملات کو حکومتی مداخلت سے بالکل الگ رکھتے ہوئے موجودہ چیلنجوں کے حوالے سے وزیر اعظم جلدازجلد کل جماعتی کانفرنس کا اہتمام کریں جس میں تحریک انصاف کی قیادت سمیت تمام جماعتیں پورے اخلاص اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ شریک ہوں اور یوں سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرکے ملک کی ڈوبتی معیشت کی پائیدار بنیادوں پر بحالی یقینی بنائی جائے۔