شائد دنیا کی کوئی اور ٹیم اس طرح سلیکشن میں خطرات مول نہیں لیتی جتنے خطرات ہارون رشید کی سلیکشن کمیٹی نے افغانستان کے خلاف سیریز میں لئے ہیں۔ کپتان بابر اعظم کو بٹھا کر شاداب خان کے سر پر عارضی مدت کے لئے قیادت کا تاج سجا دیا گیا۔ دنیا میں کسی بھی سیٹ سسٹم کو چھیڑا نہیں جاتا۔ لیکن ایک دم سے بہت ساری تبدیلیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ کہیں تجربات کی بھٹی میں ٹیم کا شیرازہ ہی نہ بکھر جائے۔ پی ایس ایل کی کارکردگی کو ضرور اہمیت دی جائے لیکن ایک دم سے آدھی ٹیم کو تبدیل کرنا سمجھ سے بالا ترہے۔
پی سی بی نےتینوں فارمیٹ کے کپتان بابر اعظم کو آرام دے کر شاداب خان کو افغانستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے کپتان بنانے کا اعلان کیا ہے24 مارچ کو شروع ہونے والی یہ سیریز شارجہ میں کھیلی جائے گی اور 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں سے قبل اس کے لیے پاکستان نے اپنے اہم کھلاڑی شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور محمد رضوان کو بھی آرام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں آصف علی، حیدر علی، محمد حسنین اور خوشدل شاہ کو اسکواڈ سے ڈراپ کیا ہے وہیں کچھ نئے کھلاڑی پی ایس ایل میں نمایاں کارکردگی کے بعد ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔
اعظم کو اس کی مسلسل محنت کا صلہ مل گیا۔ ان میں فاسٹ بولر احسان اللہ اور زمان خان شامل ہیں جنھوں نے اب تک اس ٹی ٹوئنٹی لیگ میں اپنی تیز رفتار بولنگ سے شائقین کو متاثر کیا ہے۔ صائم ایوب اور طیب طاہر کا بھی انتخاب کیا گیا ہے جنھوں نے پی ایس ایل میں اپنی ٹیموں کی بیٹنگ لائن اپ کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن ایسے میں پی ایس ایل کے سب سے کامیاب فاسٹ بولر عباس آفریدی کو ڈراپ کرنے سے اچھا پیغام سامنے نہیں آتا۔
لیگ اسپنر اسامہ میر کو اس لئے ڈراپ کیا گیا کیوں کہ شاداب خان لیگ اسپنر تھے۔ پھر دو لیفٹ آرم اسپنر عماد وسیم اور محمد نواز کی منتق بھی سمجھ میں نہ آئی۔ افتخار احمد اور شان مسعود پی ایس ایل میں ناکامیاں سمیٹنے کے بعد پاکستان ٹیم میں واپس آگئے۔ میں ہمیشہ نجم سیٹھی کی صلاحیتوں کا گرویدہ رہا ہوں۔وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ ٹیم کا اعلان کرتے وقت پریس کانفرنس میں نجم سیٹھی کہہ رہے تھے کہ یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ سنیئر کھلاڑیوں کے انجری کے مسائل ہیں، انھیں آرام دینا چاہیے۔
تین میچوں کی اس سیریز میں ہم سینیئرز کو آرام دیں گے اور نوجوانوں کو موقع دیں گے۔ کچھ میڈیا والوں نے سازش شروع کر دی کہ شاید کپتانی کے بارے میں سازش ہو رہی ہے۔ ایسی کوئی صورتحال نہیں۔ میں نے تمام ٹاپ کھلاڑیوں سے بات کی ہے۔ میں نے بابر اعظم، رضوان، شاہین، حارث اور فخر سے بات کر لی ہے، سارے خوش ہیں۔ ہمارے کپتان بابر اعظم کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
جس دن بابر اعظم کہے گا میں نے کپتانی چھوڑنی ہے، دو (فارمیٹ میں) رکھنی ہے یا صرف ایک میں رکھنی ہے، تو یہ بابر کا فیصلہ ہو گا۔نجم سیٹھی صاحب اگر واقعی نیوزی لینڈ کی سیریز میں بابر اعظم کو واپس لے آئیں اور انہیں کپتانی دے دیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بلاشبہ بابر اعظم اس وقت دنیا کے صف اول کے بیٹسمین ہیں ان کو ان کی کلاس کے مطابق عزت دینی چاہیے لیکن بابر اعظم کو بھی اپنے معاملاے درست کرنا ہوں گے انہوں نے کپتان بن کر کچھ کھلاڑیوں کو جس طرح نظر انداز کیا اور ان کے کیئر یئر سے کھیلنے کی کوشش کی یہ روش اب ترک کرنا پڑے گی۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’میں بابر کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ وہ ہمارا سٹار ہے۔ مجھے خوشی ہے انھوں نے اس کی حمایت کی۔ سنیئر کھلاڑیوں کو ریسٹ اور نئے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ ’یہ میرا فیصلہ ہے کہ (بابر کی غیر موجودگی میں) شاداب کپتان ہوں گے۔ اس کا حق بنتا ہے۔ نجم سیٹھی کو ایک بار پھر شک کا فائدہ دینا ہوگا لیکن پاکستان کرکٹ کی تاریخ بڑی بھیانک رہی ہے۔ ایک کپتان جب عہدے سے ہٹتا ہے تو وہ دوسرے کے لئے مسائل پیدا کرتا ہے۔اہم کھلاڑیوں کو کپتانی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے لڑانے سے ماحول خراب ہو گا۔عام تاثر یہی ہے کہ بابر اعظم، شاداب خان اور شاہین آفریدی کو کپتانی کے معاملے پر ایک دوسرے سے لڑایا گیا تو نہ صرف ماحول متاثر ہو گا بلکہ بابر کی قیادت میں وائٹ بال کی کارکردگی خراب ہو گی۔
ہمیں تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہےکیونکہ 90 کی دہائی میں اسی طرح پاکستانی کرکٹ تباہ ہوئی تھی۔ افغانستان کرکٹ ٹیم2019کے ورلڈ کپ اور گذشتہ سال ایشیا کپ میں پاکستان کو ہار کے قریب لے آئی تھی اس لئے افغان ٹیم کو شارجہ میں تر نوالہ سمجھنے والے حماقت کررہے ہیں۔