لندن (پی اے) سکھ فیڈریشن کے پرنسپل ایڈوائزر دبندرجیت سنگھ نے میٹ پولیس کو مشورہ دیا ہے کہ نسل پرستانہ حملوں کے واقعات پر قابو پانے تک میٹ پولیس میں سکھوں کی بھرتی روک دی جائے۔ انھوں نے یہ مشورہ بیرونس لوئس کیسے کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد دیا ہے، جس میں مذہبی عقائد کی بنیاد دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایک واقعے میں ایک سکھ پولیس والے کو اپنی داڑھی منڈوانا پڑی جبکہ دوسرے کو اپنی پگڑی اپنے جوتے کے ڈبے میں رکھنے پر مجبور ہونا پڑا کیونکہ ملزم نے اسے مضحکہ خیز قراردیا تھا۔ دبندر جیت سنگھ نے میٹ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ جس افسر نے اپنے ساتھی کو داڑھی منڈوانے پر مجبور کیا، اس پر حقیقی معنوں میں جسمانی ایذا پہنچانے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا جائے۔ ایک مسلم افسر نے شکایت کی کہ اس نے دیکھا کہ اس کے جوتوں میں سور کا گوشت رکھ دیا گیا تھا لیکن اس نے اس کی رپورٹ نہیں کی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے نسل پرستی کا کارڈ کھیلنا والا قرار دے دیا جائے اس جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی سب سے بڑی پولیس فورس بنیادی طور پر نسل پرست اور خواتین اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرنے والی ہے۔ دبندرجیت سنگھ نے کہا کہ سکھوں کے دھرم پر پوری طرح عمل کرنے اور پگڑی پہننے والے سکھ پولیس افسر سے کئے جانے والے سلوک کے بارے میں بیرونس کیسے کی جائزہ رپورٹ افسوسناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک میٹروپولیٹن پولیس سکھ پولیس اہلکاروں کے خلاف اس طرح کے نسلی حملوں پر پوری طرح قابو نہیں پاتی، ہم اس بات پر زور دیں گے کہ برطانوی پولیس میں سکھوں کی بھرتی روک دی جائے۔ مسلم کونسل برطانیہ کی سیکرٹری جنرل زارا محمدکا کہنا ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس میں موجود کلچر کے بارے میں کیسے کی رپورٹ قابل مذمت ہے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس میں موجود نسل پرستی اور اسلافوبیا پر سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ انھوں نے کہا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ میٹ پولیس بامعنی کارروائیوں، احتساب اور تبدیلی کے عزم کے ساتھ تمام کمیونٹیز کے اعتماد کے حصول کو اولیت دے۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ کیسے رپورٹ انتہائی تشویشناک ہے لیکن اس صورت حال میں اپنی کمیونٹیز کے تحفظ کیلئے سخت محنت کرنے والے افسران قابل تعریف ہیں۔ میٹ پولیس کو ان معاملات کے تدارک کیلئے فوری اقدام کرنے چاہئیں۔ رپورٹ میں جن کی نشاندہی کی گئی اور فورس میں موجود افسران کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے، میٹ پولیس کو ایک ایسی مثالی فورس بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، جو حقیقی معنوں میں تمام طبقوں کی نمائندہ فورس کہلا سکے اور کمیونٹیز کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ Tell Mama، جو اسلاموفوبیا اور مسلم دشمن نفرتوں کے متاثرین کی مدد کرتی ہے، کی ڈائریکٹر ایمان عطا کا کہنا ہے کہ بیرونس ڈیم لوئس کیسے کی رپورٹ تشویشناک ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میٹ پولیس میں مسلمانوں سے تعصب کا عنصر اب بھی موجود ہے اور جہاں بیشتر افسران اور اہلکار اعلیٰ معیار کے مطابق پیشہ ورانہ طریقے سے مہارت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں، میٹ پولیس کی صفوں میں کچھ کالی بھیڑیں اب بھی موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم فورس سے مسلم دشمنی اور تعصب کو ختم کرنے اور نسل پرستی کی لعنت پر قابو پانے کیلئے میٹ پولیس کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔