شہر قائد میں جعلی کرنسی کا کاروبار ایک بار پھر سے زور پکڑ رہا ہے،عید قریب آتے ہی مختلف گروہ سرگرم ہو گئے ہیں اور مارکیٹ میں جعلی کرنسی کو پھیلا رہے ہیں۔ تباہ حال معاشی حالات میں جعلی کرنسی کی موجودگی نے اداروں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ( ایس آئی یو ) نےجعلی کرنسی اور اسلحہ اسمگلرز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دو بین الصوبائی جعلی کرنسی و اسلحہ اسمگلرز کو جعلی کرنسی اور اسلحہ سمیت گرفتار کیا ہے۔ ملزمان کو خفیہ اطلاع پر کورنگی بلال چورنگی کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان میں عمران خان ولد نور شاہ باز خان اور شہیداللہ خان ولد محمد قدح خان شامل ہیں۔ گرفتار ملزمان سے 3 لاکھ کی جعلی کرنسی اور دو عدد پستول برآمد کیے گئے۔ ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ جنید احمد شیخ کے مطابق ملزمان خیبر پختونخوا سے فیض اللہ نامی شخص سے جعلی کرنسی اور اسلحہ خرید کر بذریعہ بس سہراب گوٹھ بس ٹرمینل سے کراچی لاتے تھے، جو کہ بعد ازاں واٹس ایپ اور فیس بک پر اپنے کسٹمرز کو فروخت کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ملزمان اب تک کڑوروں روپے کی جعلی کرنسی کا کام کر چکے ہیں، ملزمان مسافر بسوں کے ذریعے جعلی کرنسی پشاور سے کراچی لاتے تھے۔
ملزمان نہ صرف پاکستانی کرنسی بلکہ جعلی فارن کرنسی ڈالر،درہم ،ریال اور پرائز بانڈ وغیرہ کا کام بھی کرتے ہیں۔ گرفتار دونوں ملزمان آپس میں سالا بہنوئی ہیں، گرفتار ملزم عمران کی دو بہنیں بھی اس دھندے میں ملوث ہیں، ایک بہن جس کا نام گل تحصیل جانہ ہے ، گرفتار ملزم شہید اللہ خان کی بیوی ہے، جو کراچی میں یہ کام کرتی ہے، جب کہ دوسری بہن جس کا نام بخت مینہ زوجہ مطیع اللہ ہے ، بنوں میں یہ ریکٹ چلا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق جعلی نوٹوں کو پولیس نے چیکنگ کے لیے مختلف دکانوں میں استعمال کیا، تو دکاندار بھی اسے پکڑ نہیں سکے۔
بیش تر جعلی کرنسی ،نوٹ خصوصی روشنی میں بھی شناخت نہیں کئے جا سکتے، ملزمان کا گروہ ڈالر ،سعودی ریال، پاونڈز اور درہم کے جعلی کرنسی نوٹ بنا سکتا ہے، جعلی کرنسی نوٹ بنانے کا دھندہ پشاور سے چل رہا ہے،ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ وہ ملیر،سرجانی،کورنگی، نارتھ ناظم آباد اور لیاری میں جعلی کرنسی نوٹ فروخت کر چکے ہیں، جعلی کرنسی، نوٹ کی خرید و فروخت سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کی جاتی ہے، ملزمان کے گروہ میں خواتین بھی شامل ہیں، ملزمان ایک لاکھ مالیت کے جعلی نوٹ 35 ہزار روپے میں فروخت کرتے تھے، تفتیش کے دوران ملزمان نے اس گندے دھندے میں ملوث 21 ساتھیوں کے نام بھی اگل دیے۔
اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے ہاتھوں گرفتار ملزم عمران خان نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ ’’میری پیدائش گاؤں خواجہ مد منڈال بنوں صوبہ خیبر پختونخوا کی ہے ،میں نے آبائی گاؤں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے بعد پرائیویٹ ایف اے کیا ہے۔ اس کے بعد میں مختلف جگہوں پر مزدوری کرنے لگا،اس کے بعد آئس کریم فروخت کرنا شروع کردی اور اس کےعلاوہ ہوٹل پر بہرہ کی ملازمت کرتا تھا۔
سال 2021 میں میری ملاقات فیض اللہ نامی شخص سے ہوئی جو کہ گاؤں متنیٰ پشاور کا رہائشی ہے اور قوم کی آفریدی ہے جو کہ اسلحہ اور جعلی کرنسی کا کام کرتا ہے، میں نے اسے بتایا کہ میں آج کل فارغ ہوں، کوئی کام ہو تو مجھے بتانا، جس پر فیض اللہ نے مجھ سے کہا کہ میرا کچھ سامان کراچی پہنچانا ہوتا ہے، اگر آپ وہ سامان کراچی پہنچاؤ گے، تو میں آپ کو اس کے عوض کمیشن دیا کروں گا۔
میں نے فیض اللہ سے کام پوچھا، تو اس نے بتایا کہ جعلی پاکستانی کرنسی ہے، جو کہ تم نے کراچی پہنچانا ہے، جس پر میں نے اس سے کہا کہ یہ کام خطرناک ہے۔ میں نہیں کرسکتا، جس پر اس نے مجھے کہا کہ تمہیں اچھا منافع ملے گا، تو میں راضی ہوگیا۔ فیض اللہ نے مجھے کہاکہ میں پشاور سے بذریعہ کوچ جعلی کرنسی کراچی میں بھجوادیا کروں گا۔ پھر میں نے یہ کام کرنا شروع کردیا، فیض اللہ نے مجھے پشاور سےجعلی کرنسی بھجوانا شروع کردی اور میں یہ جعلی کرنسی کراچی میں فروخت کرنے لگا، مجھے اچھا منافع ملنے لگا، جس سے مجھے مزید یہ کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگیا۔
میں یہ جعلی کرنسی فروخت کرکے اسے حاصل ہونے والی رقم سے اپنا منافع نکال کر بقایا رقم فیض اللہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیتا تھا، فیض اللہ فیس بک اور واٹس ایپ گروپ کے ذریعہ یہ کام کرتا تھا، شروع میں مجھے اس کام میں تھوڑی پریشانی ہوئی تھی ، مگر بعد میں میں عادی ہوگیا اور میرے کسٹمر بھی بننے لگے اور میں اچھا منافع کمانے لگا ، فیض اللہ مجھے جعلی کرنسی کے علاوہ اسلحہ بھی پشاور سے بھجواتا تھا، جو میں مختلف لوگوں کو کراچی میں فروخت کرتا ہوں اور اس اسلحہ کو فروخت کرکے اس میں سے ملنے والی رقم میں سے اپنا منافع نکال کر بقایا رقم فیض اللہ کو ٹرانسفر کردیتا ہوں۔
میں کراچی میں احمد نامی شخص جو کہ ملیر رہائشی ہے کو جعلی کرنسی فروخت کرتا ہوں جو کہ اس کی رقم بذریعہ ایزی پیسہ یا جاز کیش مجھے ٹرانسفر کرتا ہے ،اب تک احمد مجھ سے 1000 والے نوٹ کی 8 عدد گڈیاں خرید چکا ہے۔ سال 2022 میں تین عدد9mm پستول جن میں(1)Breeta پستول9mm مبلغ 33 ہزار روپے (2)9mm.zigana پستول مبلغ 32 ہزار روپے (3)9mm.Glock پستول 55 ہزار روپے کا فروخت کیا تھا۔ یہ اسلحہ فیض اللہ نے کوچ کے ذریعہ پشاور سے مجھے بھجوایا تھا۔ اس کے علاوہ میں نےعاقب گولڈن نامی شخص جو کہ علاقہ سرجانی ٹاؤن کارہائشی ہے، کوتقریباً 12/13 جعلی کرنسی نوٹوں کی گڈیاں فروخت کی ہیں۔
میں اپنے ساتھیوں کو1000 والے جعلی نوٹ کی گڈیاں مختلف قیمت میں فروخت کرتا ہوں۔ یہ جعلی کرنسی کی ایک گڈی فیض اللہ مجھے 28 ہزار روپے کی دیتا ہے اور میں یہ ایک گڈی کراچی میں35 سے 50 ہزار روپے تک میں فروخت کرتا ہوں، جب کہ فیض اللہ کی جانب سے بھجوایا ہوا اسلحہ اور جعلی کرنسی میں ذریعہ فیس بک اور واٹس ایپ گروپ مختلف لوگوں کو مختلف قیمت میں فروخت کرتا ہوں۔ کراچی بلال کالونی میں میری حقیقی بہن گل تحصیل زوجہ شہید اللہ خان رہائش پذیر ہے اورمیری دوسری بہن بخت مینہ ہے۔ میری بہن بخت مینہ اور طاہر بھی پشاور سے جعلی کرنسی اور اسلحہ کراچی میں بھجواتے ہیں۔
میری دونوں بہنیں اور میرا بہنوئی شہید اللہ خان بھی فیض اللہ کی جانب سے پشاور سے بھجوایا ہو، اسلحہ اور جعلی کرنسی کوچ سے حاصل کرتے ہیں۔ میں، میری دونوں بہنیں اور میرا بہنوئی شہید اللہ خان مل کر جعلی کرنسی اور اسلحہ کراچی میں ذریعہ واٹس ایپ اور فیس بک گروپس پر رابطہ کرکے انہیں فروخت کرتے ہیں،اسلحہ اور جعلی کرنسی کی ڈیلیوری دینے کے لیے میں، میرا بہنوئی اور میری بہنیں ساتھ جاتی ہیں اور اس سے ملنے والی رقم میں سے یہ لوگ بھی اپنا حصہ رکھتے ہیں‘‘۔
ملزم عمران نے اپنے دیگر ساتھیوں کے نام بھی بتائے ہیں، جن میں کراچی سے شاہ زیب، عثمان افغان،شفیع اللہ، بلال، عاقب گولڈن، عبدالرؤف، امبرین، رحیم اللہ، سلمان، درویش، شہریار، وقاص، سکندر، احمد اور مہران اچار والا، بنوں سے طاہر اور بخت مینہ، پشاور سے فیض اللہ اور گوادر سے اختر شامل ہیں۔
گرفتار ہونے والے دوسرے ملزم شہید اللہ خان نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ ’’میری پیدائش بلال کالونی کراچی کی ہے۔ میں نے ابتدائی تعلیم کورنگی میں قاقع سرکاری اسکول سے حاصل کی ہے، اس کے بعد میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور ملازمت کرنا شروع کردی، میں چمڑے کی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا اور اس کے بعد سے برتھ سرٹیفکیٹ بنواکر دینے لگا۔ سال 2000 میں گل تحصیل جانہ سے میری شادی ہوئی اور میں بلال کالونی کراچی میں رہنے لگا۔ میری بیوی کا بھائی عمران خان بنوں سے کراچی اکثر و بیش تر آتا جاتا رہتا ہے اور وہ جعلی کرنسی اور اسلحہ اسمگل کرنے کا کام کرتا ہے۔
عمران خان جب اسلحہ اور جعلی کرنسی پشاور سے منگواتا ہے، تو یہ ہمارے پاس رکھواتا ہے اور اسلحہ اور جعلی کرنسی کراچی میں مختلف لوگوں کو فروخت کرتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم میں سے ہمیں بھی ہمارا حصہ دیتا ہے ،یہ جعلی کرنسی اور اسلحہ پشاور سے فیض اللہ نامی شخص میرے سالے عمران کو بھجواتا ہے، سہراب گوٹھ بس ٹرمینل سے جعلی کرنسی اور اسلحہ کا پارسل میں اور میری بیوی جاکر وصول کرتے ہیں اور عمران کو دیتے ہیں جو کہ مختلف لوگوں کو فروخت کرتا ہے۔
ہمارے علاوہ میری سالی بخت مینہ اور طاہر پشاور سے جعلی کرنسی اور اسلحہ بھجواتے ہیں، وہ بھی میں اور میری بیوی سہراب گوٹھ بس ٹرمینل سے حاصل کرتے ہیں، میرا سالہ عمران خان یہ اسلحہ اور جعلی کرنسی مختلف فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے مختلف لوگوں کو مختلف قیمت میں فروخت کرتا ہے، ہم لوگ اس سے حاصل ہونے والا منافع کی رقم آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جعلی کرنسی کے ذریعے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے، کیوں کہ ریاست کہتی ہے کہ اس کا سکہ اور پیسا چلے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ویلیو کی کرنسی نہیں ہوتی بلکہ کرنسی کسی ریزروو کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہ آپ کے پاس موجود ذخائر کو بیک کر رہی ہوتی ہے،جعلی کرنسی سے آپ کی گرے اکانومی بڑھ جاتی ہے اور یہ دہشت گردی اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جعلی لوکل اور فارن کرنسی بن رہی ہے، لیکن اداروں کو اس کا علم نہیں ہے، کرنسی کی تیاری کے لیے مخصوص سیاہی، کاغذ اور دیگر چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ اس کے سیکیورٹی فیچرز بھی عام عادمی کے علم میں نہیں ہوتے، یہ تمام چیزیں اور معلومات ملزمان کو کون مہیا کر رہا ہے؟ جس جگہ پرنٹنگ مشین یا مشینری لگائی گئی ہے، وہاں اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔