• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات کیس، ازخود نوٹس پر فیصلہ چار تین سے ہے، آرڈر جاری نہیں ہوا تو صدر نے تاریخ کیسے دیدی، جسٹس مندوخیل

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل) سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ ہمارے حساب سے ازخود نوٹس پر فیصلہ چار تین سے ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا تو صدر نے تاریخ کیسے دیدی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟، 4ججز کا فیصلہ ہی عدالتی حکم ہے، چاروں ججوں نے از خود نوٹس اور درخواستیں مسترد کیں لیکن یہ آرڈرجاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، میرے کل کے ریمارکس پر کافی کنفیوژن ہوئی، میں اپنے تفصیلی فیصلے پر قائم ہوں، سپریم کورٹ کا ریکارڈ منگوا لیں اس میں آرڈر آف کورٹ نہیں جس پر تمام ججز دستخط کرتے ہیں، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ فل کورٹ پہلے یہ طے کرلے یکم مارچ کو فیصلہ 3/4کاتھایا3/2کا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اپنی درخواست تحریری طور پر دیں، عدالت کا ماحول خراب نہ کریں، جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ کھلی عدالت میں 5ججز نے مقدمہ سنا، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں ایک بار ہی انتخابات ہوں تو اخراجات47ارب ہونگے، الگ الگ ہوں تو20ارب اضافی خرچ ہونگے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کسی نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی، 8اکتوبر کو سب ٹھیک ہوجائے گا؟ 8ستمبر یا 8اگست کیوں نہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل5رکنی بنچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر پیپلزپارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نےکیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپکی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟‘ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نےکہاکہ پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن آرڈر کے بغیر کیسے عمل کر رہا ہے، 4ججز میں سے 2 میرے بھی سینئر ہیں، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ چلیں آپکی وضاحت آگئی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے ابھی بات کرنی ہے، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنایا جائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ فل کورٹ کیوں؟ وہی 7ججز بینچ میں بیٹھنے چاہئیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ وقت کی ضرورت ہے، پہلے طے کرلیں کہ فیصلہ 4/ 3کا تھا یا 3/2کا تھا، ساری قوم ابہام میں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سےاستفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کل کے ریمارکس پر وضاحت کرنی ہے، میں نے جو مختصر اور تفصیلی فیصلہ دیا اس پر قائم ہوں، از خود نوٹس لینے کا اختیار کس کا ہے یہ اندرونی معاملہ ہے، آرڈر آف دی کورٹ 4ججز پر مشتمل فیصلہ تھا، آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس نے جاری نہیں کیا، سوال یہ بھی ہے کہ جب چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلہ نہیں دیا تو پھر الیکشن کمیشن اور صدر نے مشاورت کے بعد شیڈول جاری کیا۔ اس دوران فاروق ایچ نائیک نے دوبارہ استدعا کی کہ جسٹس جمال خان کے ریمارکس پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ فیصلہ 4ججوں کا ہے یا 3کا؟ پوری قوم اس وقت کنفیوژن کا شکار ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ تحریری طور پر درخواست دیدیں۔سجیل سواتی نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2سے ہے، 3/2والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14اور ابتدا کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔جسٹس منیب اختر نےکہاکہ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، یہ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے، کھلی عدالت میں 5ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئےکہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں۔

اہم خبریں سے مزید