• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احسن اقبال

بیرونِ ملک تعلیم، گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی نوجوان نسل کا پسندیدہ خواب بن چکی ہے۔ طلبہ و طالبات تعلیم کی ثانوی سطح تک پہنچنے کے بعد بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے امکانات پر غور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کا تصور اتنا دل کش ہے کہ ہر طالب علم کے دل میں یہ تصور خواب بن کر دھڑکنے لگتا ہے۔ 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر طالب علم کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک نہیں جاسکتا۔وہ چیز جو انسان کی دسترس میں نہ ہو ہمیشہ خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کو وطن سے باہر رہنے والوں کی زندگی خوشنما لگتی ہے۔کچھ عرصے سے بیرونِ ملک جانے والے نوجوانوں کےاعدادوشمار بتاتے ہیں کہ وطن عزیز سے حصول تعلیم کےلئے بیرونِ ملک جانے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

بہتر تو یہی ہے کہ اُنہیں اندرون ملک تعلیم کے ایسے مواقع دستیاب ہوں کہ اُن میں باہر جانے کی خواہش ہی پیدا نہ ہو۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اِس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ ایک نہیں کئی اسباب ہیں، جن کی بناء پر طلبہ کو روکنا ممکن نہیں۔ اول تو یہ کہ ہمارے یہاں تعلیم میں بھی نفسا نفسی ہے اقربا پروری ہے۔ دوم یہ کہ اگر کوئی طالب علم بھاری خرچ اُٹھانے کے قابل ہے، تب بھی یونی ورسٹی میں داخلہ حاصل کرلینا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ داخلہ امتحان دردِ سر تو ہے ہی، مقابلہ بھی اتنا زیادہ ہے کہ اچھے اچھے طلبہ کو مسلسل ذہنی اضطراب سے گزرنا پڑتا ہے۔ 

سوم یہ کہ ہمارا معیار تعلیم اتنا بلند نہیں ، جتنا کہ دیگر ملکوں کا دکھائی دیتا ہے اور طلبہ کو لبھاتا ہے۔ چہارم یہ کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں نصاب اور صرف نصاب سے واسطہ رکھا جاتا ہے، طلبہ کی ہمہ جہتی نشوونما کی فکر نہیں کی جاتی۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں شخصیت کے ارتقاء کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے تاکہ طلبہ اِن یونیورسٹیوں میں اضافی کشش محسوس کریں۔ پنجم یہ کہ ہمارا طریقۂ تدریس بھی مسئلہ ہے جس میں طلبہ کی دلچسپی بتدریج بڑھنے کے بجائے کم ہوتی چلی جاتی ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان کلاس روم کے باہر اتنا مؤثر رابطہ نہیں رہتا کہ نصاب اور اس کے علاوہ دیگر تعلیمی اُمور پر سیر حاصل گفتگو ہو۔ 

یہ گفتگو طلبہ کےلئے زیادہ کارآمد ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے سوالات کا جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ششم یہ کہ ہمارے یہاں کل وقتی تعلیم کے ساتھ جزوقتی ملازمت کے مواقع نہیں ہیں، جبکہ ترقی یافتہ ملکوں مثلاً نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کنیڈا، آئر لینڈ، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میں طالب علم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتا ہے، جس کے سبب وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے آرزو مند طالب علموں اور ان کے سرپرستوں کو اچھی طرح دیکھ بھال کر قدم اٹھانے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے معیار کے اعتبار سے غیر ملکی تعلیم بہرطور بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یہ لاکھوں کا معاملہ ہے، اوراخراجات سے قطع نظر بعض سرپرستوں کے لیے زیادہ پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے۔

کئی طالب علم اس لحاظ سے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ بیرونِ ملک انہیں ایسی سہولیات میسر آجاتی ہیں جن میں رہتے ہوئے وہ اپنے خوابوں کو خوش دلی سے پورا کرتے ہیں ،تاہم کسی بھی دوسرے ملک میں گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس چیلنج میں کئی ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں، جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔

بیرونِ ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے میں ایک اور پریشان کُن چیز تہذیب و تمدن اور ثقافت کا فرق ہوتا ہےجوپریشانی اور اداسی میں مبتلا کرسکتا ہے، جس کے نتیجےمیں ذہنی وفکر میں تبدیلیاں بھی رونما ہوسکتی ہیں۔ دیارِ غیر میں سب سے بڑا مسئلہ ابلاغ یا خیالات کا تبادلہ ہے کیونکہ دوسرے ملک میں زبان بھی دوسری ہوتی ہے جو بعض اوقات بہت جلدی دسترس میں نہیں آتی اس کے ساتھ ساتھ غیرملکی اور اجنبی زبان میں بات چیت کرنے میں ایک فطری جھجھک بھی ہوتی ہے، جس کے باعث اپنے خیالات کو آسانی سے دوسروں تک نہیں پہنچا پاتےہیں۔

جب تک تعلیم کے لیے ہمارا طرز عمل نہیں بدلتا، ہم تعلیمی اداروں کو طلبہ کی شخصیت کی ہمہ جہتی ترقی میں معاون نہیں بناتے اور روزگار کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر اُن کی تربیت نہیں کرتے، تب تک ہمارے تعلیمی اداروں میں وہ جاذبیت نہیں پیدا ہوگی جو بیرونی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں محسوس ہوتی ہے۔ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے کیونکہ جب طلبہ باہر جاتے ہیں تو پیسہ ملک سے باہر جاتا ہے۔ یہ ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگرہمارا نظام تعلیم بھی دیگر ممالک کی طرح پُرکشش ہوجائے تو اپنے ملک میں پڑھنا ہر طالب علم کےلئے باعث فخر ہوگا۔ کون چاہے گا کہ گھر بار چھوڑ کر پرائے دیس میں جا کر پڑھے۔