پاکستان کی نوجوان نسل پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل اضطراب کا شکار رہی ہے لیکن حالیہ نسل ان چار دہائیوں سے زیادہ پر انتشار عہد سے گزر رہی ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی نظام کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ انہیں معاشی نظام کی وجہ سے اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آرہا ۔ طبقاتی تقسیم نے ہماری اقتصادی حالت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے ،جس کی وجہ سے پورا معاشی نظام مفلوج ہو چکا ہے۔
ہمیں قومی وسائل کو چھوڑ کر بیرونی امداد پر بھروسہ کرنا پڑرہاہے۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی ترقی میں انقلاب لایا جائے، جس کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہواور وہ محنت، لگن اور قابلیت سے ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں وسائل کی کسی طور کمی نہیں۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ معدنیات کے بے پناہ خزینے چھپے ہوئے ہیں، دُنیا کا بہترین نہری نظام یہاں موجود ہےاور سب سے اہم بات ہمارے پاس نوجوانوں کی شکل میں قیمتی سرمایہ موجود ہے ۔ ہماری مٹی بہت زرخیز ہے، ستر فیصد آبادی کا انحصارزراعت پرہے۔ زرعی شعبے میں جدت لانے اورفی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے اہداف میں زرعی ترقی کوبھی شامل کرلیں توآئندہ چند سال میں نہ صرف پاکستان کو زرعی شعبے میں خودکفیل کرسکتے ہیں بلکہ اجناس اورزرعی مصنوعات برآمد کرکے اربوں ڈالر بھی کماسکتے ہیں۔
معیشت کی ترقی میں ہمیشہ ہمارا زرعی شعبہ کی افادیت بہت زیادہ رہی ہے اور ہمارے زرمبادلہ میں اضافہ میں اس شعبہ کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ پاکستان میں 40 فیصد نوجوان دیہی علاقوں سے وابستہ ہیں اور وہاں کا معاشی نظام زراعت، باغبانی اور چھوٹی چھوٹی گھریلوں صنعتوں تک محدود ہیں۔دیہی نوجوان ان پڑھ اور غیر تعلیم یافتہ ہیں، لیکن وہ نوجوان جو شہرسے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب واپس اپنے دیہات جاتے ہیں توان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا گاؤں بھی ترقی کرے۔
وہ اپنی یہ سوچ دیہی نوجوانوں میں منتقل کرتے ہیں تاکہ،انہیں بھی اب یہ احساس ہو کہ زراعت کے شعبہ کی ترقی میں جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے، اور فرسودہ نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے علاقوں میں زمین کو زرخیز دیکھنے کے لئے وہاں مختلف ورکشاپ کا انعقاد کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دیہی ناخواندہ نوجوانوں کو بھی فنی تعلیم سے آگہی دینے کے لیے انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے، تاکہ مشینری کے استعمال کے بارے میں انہیں صحیح معلومات حاصل ہوں۔
زراعت کے شعبے سے وابستہ نوجوانوں کو آگے لانے کی ازحد ضرورت ہے،تاکہ وہ قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ زرعی اجناس کی پیداوار میں ملکی ضروریات کے بعد برآمدات کے لئے بھی وہ اشیاء فراہم ہوسکیں جن کی غیر ممالک میں مانگ ہے۔ نوجوان اس معیشت کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور انداز سے سرانجام دےسکتے ہیں اور زرمبادلہ میں اضافے کے راستے کھولے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح کی صورتحال ہمارے صنعتی شعبے کی ہے، جہاں نوجوان اپنی قابلیت کے مطابق اپنی خدمات انجام دے رہےہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماہرین کے ساتھ مل کر انٹرنشپ وغیرہ حاصل کرتے ہیں اور ان کے توسط سے اپنی محنت سے صنعتی شعبہ میں ترقی کی نئی منزلیں تلاش کررہے ہیں اور اس کوشش میں بھی مصروف ہیں کہ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں اپنے نئے صنعتی یونٹ لگائیں، تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوں اور جدید ٹیکنالوجی کو بھی فروغ ملے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی نئی سوچ نئے خیالات کو آگے لایا جائے، تاکہ ان کے اندر ایک نیا حوصلہ و جذبہ پیدا ہواور ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔
مالیاتی بحران نے پاکستانی معیشت کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے اور اس کے اثرات ہر شعبے ہائی زندگی سے اب نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ عدم مساوات، بے روزگاری، قوت خرید میں کمی، ہوشربا مہنگائی کا سیلاب، طلب و رسد کی غیر متوازن صورتحال نے انسانی زندگی کو بہت زیادہ محدود کردیا ہے۔ وہ نوجوان جو اکنامسٹ اور بزنس مینجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف مالیاتی اداروں سے منسلک ہیں ان کو مشاورت میں شامل کیا جائے ان کے سود مندمشوروں کو اہمیت دی جائے۔ ماہرین اقتصادیات، معاشیات، صنعتکار اور سیاسی رہنما،نوجوانوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اس بحران کے حل کےلئے مثبت راستےتلاش کریں۔
نوجوانوں کو مناسب تربیت دے کرمعیشت کوترقی دی جاسکتی ہے۔اب ذرا تصورکریں کہ اگر ہم اپنے کروڑوں نوجوانوں کومختلف شعبوں میں ہنرمند بناتے ہیں تواس کافائدہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو ہوگا۔ اس وقت ہم اپنی آبادی کی طاقت کا فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ انھیں ان کے پسند کے شعبوں میں ہنرمند بنایاجائے۔
اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ کروڑوں پاکستانی نوجوان پاکستان کی تقدیربدل سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ سرکاری اورنجی اداروں نے اس بات کومحسوس کیاہے اورنوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کمپیوٹر سمیت جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کررہی ہے۔ ترقی اورجدت کایہ سفرکبھی جمود کا شکار نہیں ہوگا،ترقی کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہمیں خود کو اس کے لیے تیارکرنا ہے۔
کسی بھی قوم کوجب مختلف اقسام کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سب سے پہلے تمام اختلافات کو ختم کرکے صرف ایک قومی جذبے کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے اس کا حل نکالا جاتا ہے اور سنجیدگی کے ساتھ معاشی حالات کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد جدید خطوط پر مختلف معاشی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔
اس وقت ہمارے نوجوانوں کو آگاہی ہونی چاہئے اور اپنے حلقہ احباب اور تعلیمی اداروں کے پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر ملک و قوم کی خاطر کفایت شعاری کے ذریعے اک دن کا اک روپبہ بھی بچانے میں کامیاب ہوجائیں تو وطن عزیز کے نوجوان اک دن میں تقریباً 3کروڑ روپے کی بچت کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارے ملک میں متخلف جامعات اسکول و کالج، ٹیکنیکل اداروں اور مدارس میں 3کروڑ طالب علم زیر تعلیم ہیں ،جبکہ ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 22 کروڑ کے آس پاس ہے لہٰذا ہمیں مختلف اسکیموں کے ذریعہ بچت کی عادت بھی ڈالنی ہوگی جب جاکر ہم مستقبل میں معاشی بحرانوں کا آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔